پاکستان میں گرمی کی شدت میں دن
بدن اضافہ ہورہا ہے اور محکمہ موسمیات کے مطابق ملک میں گرمی کی شدت میں
بتدریج اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ ملک کے بیشتر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں
ہیں۔جس کے باعث کئی علاقوں میں لوگ گرمی سے بچنے کے لیے گھروں میں آرام کر
کے اپنا وقت گزارنے پر مجبور ہیں۔ دن کے اوقات میں کاروبار ی مراکز اور
بازار سنسان نظر آتے ہیں۔ لوگ چبھتی ہوئی دھوپ سے بچنے کے لیے سر ڈھانپ کر
باہر نکلتے ہیں۔دوروز قبل سکھر میں 47، لاڑکانہ،رحیم یار خان،روہڑی اور
بھکر میں 46 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا جبکہ اسلام آباد
میں 40، لاہور 44، کراچی34،پشاور 41،کوئٹہ 36،سکردو 28، مری 27،مظفر
آباد41،گلگت 34، فیصل آباد43،ملتان44، حیدر آباد میں 41 ڈگری سینٹی گریڈ
ریکارڈ کیا گیا۔اسلام آباد میں کم سے کم 37 اور زیادہ سے زیادہ 42 ڈگری
سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ملک بھر میں کچھ فرق کے ساتھ کئی دن سے تقریباً
یہی درجہ حرارت ہے۔ گرمی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ
ملک میں گزشتہ چند روز میں گرمی کی وجہ سے کئی افراد جاں بحق ہوئے اوربے
ہوش ہونے والے افراد کی تعداد تو کافی زیادہ ہے۔
ملک کے مختلف علاقوں میں گرمی کے سبب متعدد بیماریاں بھی پھیلنے لگی ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق گرمی کے باعث اب تک ہزاروں مریضوں کوہسپتالوں میں منتقل
کیا جاچکا ہے اور مزید مریضوں کے بڑھنے کا خدشہ ہے۔ماہرین صحت کے مطابق
زیادہ تر اموات گرمی، حبس، اور لو لگنے کے سبب ہوتی ہیں۔ ایسے میں آلودہ
پانی کا استعمال موت کو مریض سے مزید قریب کر دیتا ہے۔لہٰذا امراض سے بچنے
کے لیے گرمی سے بچنا ضروری ہے۔گرمی کی شدت کے ساتھ ملک بھر میں گرمی کے
ملبوسات کی سیل میں اضافہ ہوگیا ہے، فیصل آباد سے ایک بڑی کپڑا مارکیٹ کے
مالک کے مطابق گرمی کے آنے سے گرمی کے ملبوسات کی سیل میں کئی گنا اضافہ
ہوا ہے۔
گرمی سے بچنے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں مختلف مشروبات کی فروخت میں
اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب میں روایتی مشروب ستّو اور لسی، سندھ اور خاص کر کراچی
میں تھادل، مینگو شیک، شکنج بین، تربوز کا شربت، فالسے کا شربت، آلو بخارے
کا شربت، چاروں مغز کا شربت، غرض کہ ہر شہر میں مشروبات کی مانگ میں اضافہ
ہوا ہے۔تھادل سندھ کا روایتی مشروب ہے۔ اسے بادام، کالی مرچ، خشخاش اور
دیگر اجزاءسے تیار کیا جاتا ہے۔ سندھ کے متعدد شہروں خاص کر سکھر میں یہ
بڑے پیمانے پر ’پبلک ڈیمانڈ‘ میں ہے۔ اسے بڑے پیمانے پر پسند کیے جانے کا
ایک سبب اس کا مزیدار ذائقہ ہے۔ تھادل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جگر
کے مرض میں بہت س ±ود مند ہے۔ تھادل کی طرح ہی پنجاب کے شہروں میں املی اور
آلو بخارے کا شربت بہت مشہور ہے۔ آلو بخارے کے ساتھ ساتھ فالسے کا شربت بھی
پورے پاکستان میں بہت شوق سے پیا جارہا ہے۔ فالسہ اپنی تاثیر کے حوالے سے
بھی نہایت ٹھنڈا پھل ہوتا ہے جبکہ تربوز کا شربت بھی پاکستان کے شہروں اور
دیہاتوں میں یکساں مقبول ہے۔شربتوں سے ذرا ہٹ کر بات کریں تو شکنج بین یا
لیموں پانی، گنے کا جوس اور لسی ایسے مشروبات ہیں جنہیں ”عوامی“ کہیں تو بے
جا نہ ہوگا۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر، دفتر، گلی یا محلہ ہوگا جہاں ان
مشروبات کا استعمال نہ ہوتا ہو۔ پنجاب میں تو سادہ ستو اور گڑ کا بنا ستّو
بھی ہر عمر اور ہر جنس کے لوگوں میں بہت مقبول ہے۔ اسے بھی عوامی مشروب کا
درجہ حاصل ہے۔ڈاکٹرز اور ماہرین بھی لوگوں کو گرمی سے بچنے کے لیے رس دار
پھلوں کے جوس زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کیوں کہ یہ
مشروبات گرمی اور پسینے کی وجہ سے ضائع ہونے والی توانائی کو بحال کرنے کا
بہترین ذریعہ ہیں۔ گرمی کے اثر کو کم کرنے کے لیے بہت سے گھروں میں خود ہی
شربت بناکر استعمال کیا جاتا ہے ان مشروبات میں گنے کا رس، لیموں پانی،
صندل کا شربت، ستو اور گرمیوں کے دوسرے کئی مشروبات ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر مشروب کی کوئی نہ کوئی خاصیت ہوتی ہے، اس لیے لوگ
گرمیوں میں مشروبات استعمال کرتے ہیں۔ مشروبات عام طور پر پھلوں، پھولوں
اور دیگر نباتات سے بنائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر استعمال ہونے
والے مشروبات میں شربتِ صندل، شربتِ انار، شربتِ انجبار، شربتِ بادام،
شربتِ انگور،شربتِ بنفشہ، شربتِ دینار، شربتِ عناب، شربتِ نیلو فر، شربتِ
فالسہ اور شربتِ مصفی وغیرہ شامل ہیں۔ شربتِ الائچی کو شربتِ سکنجبین کے
ساتھ ملا کر پینے سے عوارضِ جگر میں افاقہ ہوتا ہے۔گرمیوں میں شربتِ الائچی
کا استعمال پسینے کی بدبو سے نجات دلاتا ہے۔ شربتِ صندل دل و دماغ کو فرحت
و تازگی بخشتا ہے ۔ دل کی گھبراہٹ اور جگر و معدے کی گرمی کو دور کرتا ہے
اور گرمی کی وجہ سے ہو نے والے دردِ سر کو تسکین دیتا ہے۔ یہ صندل کے برادے
کوعرقِ گلاب میں بھگو کر بنایا جاتا ہے۔شربتِ انار شفاف خون بہت زیادہ پیدا
کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔جگر، تلی اور پتّے کے امراض میں بہترین نتائج کا
حامل پھل ہے۔شربتِ عناب خون کو صاف کر کے انسانی بدن کو جلدی امراض سے بھی
محفوظ رکھتا ہے۔ خون کی گرمی کو معتدل کرتا ہے اور صفراوی بخاروں کا خاتمہ
کرتا ہے۔عناب کو رات بھر پانی میں بھگو کر صبح پکا کر شربت تیار کیا جاتا
ہے۔شربتِ بنفشہ گرمی کی زیادتی سے ہونے والے نزلے، زکام اور بخار کا بہترین
علاج ہے۔شربتِ بادام نظر،دماغ اور اعصاب کو کمال توانائی فراہم کرتا ہے۔
شربتِ بادام بنانے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے۔ باداموں کو رات بھر بھگو کر
خوب گھوٹا لگایا جاتا ہے۔ باداموں کی سردائی کاعام طریقے سے شربت بنالیا
جاتا ہے۔شربتِ فالسہ پتّے کی خرابی سے پیدا ہونے والے عوارض اور پیاس کی
زیادتی میں بہت ہی فوائد کا حامل ہے۔شربت نیلو فر دل ودماغ کو طاقت دیتا ہے
اور اور پیاس بجھاکر گرمی میں سکون پہنچاتا ہے۔ غلبہ سودا و صفرا سے ہونے
والے اسہال اور ضعف، امعاءکو دور کرتا ہے۔ نیلو فر کے پھولوں کو رات
بھرپانی میں بھگو کر صبح شربت تیار کیا جاتا ہے۔شربتِ انجبارصفرا و خون کی
بڑھی ہوئی حدت کو اعتدال پر لاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی طرز پر
تیار کیے گئے مشروبات میں زیادہ تر ٹاٹری ڈا لی جاتی ہے جو کہ بعض اوقات
”فائدہ کم اور نقصان زیادہ“ کا سبب بن کر ورمِ حلق،کھانسی اور بخار کابا عث
بنتی ہے۔ بازار میں دستیاب مشروبات کو گاڑھا کرنے کی غرض سے ان میں مبینہ
طور پر کیمیائی اجزاءبھی شامل کردیے جاتے ہیں جو کہ غیر صحت مندانہ طرزِ
عمل ہوتا ہے اور یوں شربت صحت کا ذریعہ بننے کی بجائے بیماری کا پیغام ثابت
ہوتا ہے۔ اسی طرح دھیان رہے سڑک کنارے اور بیچ چوراہے ریڑھیاں سجائے ٹھنڈے
ٹھار شربت بیچنے والوں سے دور ہی رہیں گے تو آ پ کی صحت کے حوالے سے مفید
ہوگا۔ ان میں سے اکثریت شربت بناتے وقت چینی کی جگہ سکرین ڈالتی ہے جو صحت
کے لیے کئی ایک مسائل کا باعث بنتی ہے۔ علاوہ ازیں گرد وغبار،دھواں اور اور
جراثیم کی ایک فوج ان مشروبات میں شامل ہوتی رہتی ہے جو بعد ازاں
ہیضہ،اسہال،پیچش اور بد ہضمی جیسے عوارض کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔
دوسری جانب گرمی کی شدت کے ساتھ ہی منڈیوں میں موسم گرما کے پھلوں کی بہتات
ہوگئی ہے،جن میں تربوز، خربوزہ، گرما، فالسہ، جامن، چیری، آڑو، لیچی بھی
بڑے پیمانے پر منڈی پہنچ رہے ہیں، کراچی سبزی منڈی میں سندھ کے مختلف شہروں
سے یومیہ 100سے زائد گاڑیاں آم لیکر پہنچ رہی ہیں، یومیہ800ٹن سے زائد آم
کراچی کی منڈی میں پہنچ رہا ہے۔کراچی فروٹ منڈی ویلفیئر ایسوسی ایشن کے
چیئرمین زاہد اعوان کے مطابق کراچی سبزی منڈی میں یومیہ چھوٹی بڑی 1000سے
زائد گاڑیاں آرہی ہیں، یہ تعداد آئندہ ماہ تک بڑھ کر 1500سے تجاوز کر
جائیگی، صرف آم لے کر آنے والی گاڑیوں کی تعداد پیک سیزن میں 500 تک پہنچ
جاتی ہے، منڈی کے اندر تجاوزات کے سبب پھل لیکر آنے والی گاڑیوں کا اڑدھام
ہے اور گاڑیوں کی طویل قطار کے سبب ہائی وے پر ٹریفک کی روانی بھی متاثر
ہورہی ہے۔ منڈی میں پھلوں کی تجارت موسم گرما کے دو ماہ کے دوران عروج پر
پہنچ جاتی ہے اس دوران منڈی میں نقد لین دین میں بھی کئی گنا اضافہ ہوجاتا
ہے۔جس سے فائدہ اٹھاکر جرائم پیشہ عناصر بھی منڈی میں سرگرم ہوجاتے ہیں جس
کے سدباب کے لیے منڈی میں پولیس اور رینجرز کی اضافی نفری تعینات کی جاتی
ہے تاہم ٹریفک پولیس کا عملہ منڈی اور اس کے سامنے سپر ہائی وے پر فرائض
انجام دینے کے بجائے سہراب گوٹھ اور قریبی پل کے نیچے کھڑے ہوکر منڈی سے
پھل لیکر جانے والی چھوٹی گاڑیوں سے بھتہ وصولی کرنے میں مصروف ہیں۔جس سے
منڈی کے اندر اور باہر شدید ٹریفک جام ہے۔ |