اس خطہ زمین پہ ہم روزانہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوئے
صبح کو آتے ہیں، دن گزارتے ہیں اور رات کو واپس چلے جاتے ہیں کہاں سے آتے
ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں؟ بعض اوقات اپنی تمام تر توانائیاں خواہ مخواہ
کی مشقت اٹھانے میں لگا دیتے ہیں جیسا کہ ایک مختصر سے لمحے کو رہنے کی
زندگی کیلئے شاندار محلات تعمیر کرتے ہیں اور اس کی حفاظت اور ملکیت کو
قائم رکھنے میں ہی زندگی تمام ہو جاتی ہے اور جاتے ہوئے خالی ہاتھ، اور
کبھی اپنی آن بان قائم رکھنے کو مقصد حیات بنا لیتے ہیں اور خوامخوہ کی ذمہ
داری کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔ شانِ طولانی دیکھئے کہ انا (خود پسندی) کی ملمع
کاری بھی سمندر میں اُٹھتی ہوئی لہر کی طرح ہے جو اپنے ہی شور میں یہ بھول
گئی ہے کہ آخر اِسے پھر واپس اِسی سمندر میں مل جانا ہے تو پھر اتنا تلاطم
کیسا؟ اور اتنا بپھرنا بھی کیا؟آخر سر اُٹھاتی ہوئی موجیں (لہریں) ہی
کناروں سے اپنا سر پھوڑ تی ہیں وگرنہ گہرے سمندر تو ازلوں سے خاموش اور
ساکن رہے ہیں۔ ہمارے رشتے اور ناطے آپس میں کچھ اس طرح سے ہیں کہ جیسے ریل
کے ایک ڈبے میں چند لوگ بیٹھے سفر کر رہے ہوں اور ان کو اپنی نامعلوم منزل
پر پہنچنا ہے اور جیسے ہی کسی کی منزل آ گئی وہ اُتر گیا اور پھر یہ رخت
سفر جاری رہا اور آخر ایک وقت آتا ہے کہ تمام کے تمام لوگ عدم سدھار جاتے
ہیں تو پھر آپس میں نفرتیں، عداوتیں اور محبتیں کیسی؟
میں (Self) جو کہ اِس کائنات سے ہمارا رابطہ (Channel) بنتی ہے اس تک رسائی
کیلئے پہلے ہمیں اپنے قلوب کے زنگ کو اُتارنا ہوگا جبکہ یہ زنگ وہ بدعملیاں
اور منفی جذبے و رویے ہیں جو ہمارے من (قلب) پہ زنگ کی ملمع کاری کی طرح
تہہ در تہہ چڑھتے رہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ باہر کی روشنی
اندر دکھائی نہیں دیتی اکثر اوقات خوشبختی، سکون اور راحت باہر سے دستک
دیتے ہیں اور اندر آنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں مگر اندر کے یہ دُشمن اِنہیں
گھسنے نہیں دیتے۔ ہمارے تمام یہ منفی رویے جذبے (حسد، لالچ، مکر، فریب،
دھوکہ دہی، نفرت وغیرہ) اور خوامخواہ کے خوف جو ہم نے اپنے اندر بیج (تخم،
Seed) کی طرح بو دئیے ہیں آخر کچھ تو پھل دیں گے؟
قدرت کے بچھائے ہوئے سبز مخملی قالین (گھاس) پہ چلتے ہوئے ہم نے کبھی یہ
نہیں سوچا کہ یہ رنگ برنگے پھل و پھول اور پودے اور تنا آور درخت سب کے سب
ایک ہی زمین سے نکلے ہیں مگر ہر ایک کا ثمر (پھل) اور خاصیت دوسرے سے یکسر
مختلف ہے۔ گلاب کے پودے پر گلاب کا پھول مگر نرگس کے پودے پر نرگس کا پھول
اور دونوں کی رنگت اور خوشبو جداگانہ حالانکہ ایک ہی زمین سے نکلی ہوئی یہ
نباتات جو کہ جبلت کی باندھی ہوئی ہے (یعنی نشوونما تو ہے مگر نقل مکانی
نہیں اور نہ ہی سمجھ بوجھ) اس کو بھی معلوم ہے کہ گلاب کے پودے کے ساتھ
گلاب کا پھول لگے گا نہ کہ چنبیلی یا نرگس کا۔ اب اگر ہم آم کا بیج بو کر
سیب کے پھل کی دُعا مانگیں تو کیا خیال ہے کہ دُعا قبول ہو گی یا کو نسا
پھل ملے گا؟ قدرت تو قدرت ہے ہر چیز کی طاقت رکھتی ہے اور اُس کیلئے سب کچھ
ممکن ہے مگر ہمیں سنت خداوندی بھی تو معلوم ہونی چاہیے کہ جس کا قدرت بھی
خیال رکھتی ہے یہاں قدرت کے شاہکاروں میں سے ایک شاہکار قانون ہمیں پکار
پکار کے کہہ رہا ہے کہ جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے (یعنی جیسا تخم ہوگا ویسا
ہی پھل ہوگا) یہاں بیج (Seed) وہ رابطہ (Channel) ہے جو زمین کے ساتھ ایک
پودہ اور درخت رکھتا ہے اور اس کی خاصیت کی وجہ سے مخصوص پھل اور پھول حاصل
کرتا ہے۔
اگر دُنیا کو ایک معصوم چڑیا کی نظر سے دیکھا جائے جس کے گھونسلے میں پڑے
ہوئے بچے کو ایک سانپ کھا رہا ہے تو دُنیا ہمیں کتنی ظالم دکھائی دے گی مگر
اسی لمحے اِس بھوکے سانپ کی نظر سے دُنیا کو دیکھا جائے تو دُنیا کتنی
مہربان نظر آئے گی کہ بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا ملا ہے مگر ہمیں اِن نقطہ
نظر سے کیا لینا دینا؟ ہمیں تو صرف اِتنا سمجھنا ہے کہ وہ زاویے (Angle)،
واسطے (Channel)، نظریے(Concept) اور بیج (Seed) کونسے ہیں جو کہ ہماری
زندگی کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں ہمارے سامنے تو زندگی (دُنیا) فطرت کے
شاہکاروں سے بھری پڑی ہے مگر ہماری نظر میں وہ زاویہ کہاں ہے، وہ رابطہ
کہاں جو اِن شاہکاروں کو ملاحظہ فرمائے؟ اپنی نظر میں اتنی بصارت کہاں۔
ہمارے قلوب کے زنگ وہ پردے ہیں جو ہمیں سکون، راحت اور خوشبختی اور صحت کے
تحفے حاصل کرنے سے دور رکھتے ہیں۔ ہمیں تو وہی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ جس کی
چھاپ ہمارے قلوب میں پڑ چکی ہے یعنی جیسا بیج ویسا ہی پھل۔
اب اگر آپ نے اُردو زبان لکھنی پڑھنی سیکھی ہے تو آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں
ورنہ آپ کے سامنے یہ آڑھی ترچھی لکیروں کے سوا کچھ نہیں اور اگر یہ تحریر
کسی ایسی زبان میں لکھی ہوتی جس کو کہ آپ جانتے نہیں تو کس طرح سے ممکن تھا
کہ آپ اِس کو پڑھ سکتے اور پھر اِس کو سمجھ سکتے؟ یعنی ہماری باہر والی
دُنیا پر ہماری اندر والی دُنیا کی چھاپ ہوتی ہے اور ہمیں وہی کچھ دکھائی
دیتا ہے کہ جس کا عکس ہمارے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے ورنہ کبھی کبھی
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ایک دریا میں ایک مچھلی نے دوسری مچھلی سے
پوچھا کہ کبھی پانی دیکھا ہے تو وہ بولی میں نے تو اپنی زندگی میں پانی
نہیں دیکھا تو دونوں مِل کر ایک بوڑھی مچھلی کے پاس گئے اور پوچھا کہ اماں
کبھی پانی دیکھا ہے تو وہ بولی بچوں میں نے بھی اپنی زندگی میں پانی نہیں
دیکھا۔ آپ اندازہ کریں کہ انہوں نے اگر کبھی خشکی دیکھی ہوتی تو اِن کو
پانی کا اندازہ ہوتا اور جس نے ساری زندگی پانی میں گزاری ہو اِسے (ضد
دیکھنے کا موقع نہ مِلا ہو) تو اِسے کیسے اندازہ ہو سکتا ہے پانی کیا ہوتا
ہے ؟ (جاری) |