جموں یونیورسٹی کویہ فخرحاصل ہے کہ اُسے ایسے متعددوائس
چانسلرنصیب ہوئے جنھوں نے اپنی اپنی طرح سے ریاست کی سرکاری زبان
اُردوکوفروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔بعض نے شعبہ اُردوجموں یونیورسٹی
کومتعددادبی تقاریب کے انعقادکے لئے مالی معاونت عطاکی یاپھرکبھی ان وائس
چانسلرصاحبان نے بذات خودادبی تقاریب میں شرکت کرکے اس زبان کے ساتھ ہوئی
زیادتیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلندکیا۔ پروفیسرامیتابھ مٹو ،
پروفیسرآرآرشرما، پروفیسروائی پی ملہوترہ، پروفیسرایم ۔پوری وغیرہ جموں
یونیورسٹی کے وہ وائس چانسلرزہیں جنھوں نے ماضی میں اپنی اپنی طرح سے ریاست
میں اُردوزبان کے فروغ میں اپنااپناکرداراداکیا۔موجودہ وائس
چانسلرپروفیسرموہن پال سنگھ ایشربھی نہ صرف اُردونوازوائس چانسلرہیں بلکہ
اُردوتہذیب سے بھی وہ بے پناہ عشق کرتے ہیں۔یہی نہیں پروفیسرموصوف
اُردوزبان بولتے، پڑھتے اورلکھتے بھی ہیں۔ انہیں یہ ماحول گھرمیں ہی نصیب
ہواکیوں کہ ان کے والدکاشماربھی اس زبان کے شیدائیوں میں ہوتاتھا۔ وہ خط
وکتابت اوردیگرسرکاری وغیرسرکاری کاموں کے لئے اُردوہی استعمال کرتے تھے۔
خودموہن پال سنگھ ایشرکاابتدائی جماعتوں میں ایک مضمون اُردوہی تھا۔یہی وجہ
ہے کہ انہیں اُردولکھنا، پڑھنااوربولنااچھی طرح آتاہے ۔ اُردونوازی
اوراُردوسے گہرے شغف کااظہارموہن پال سنگھ شعبہ اُردوکی متعددادبی تقاریب
میں کرچکے ہیں۔ جموں یونیورسٹی میں وائس چانسلرتعینات ہونے کے فوراً
بعدشعبہ اُردومیں مختلف ادبی تقاریب میں آنے جانے کاسلسلہ شروع ہوا۔ چاہے
وہ اُردوکامشاعرہ ہویاسعادت حسن منٹوپرکوئی تقریب یاپھرکتاب کی رسم رونمائی
وہ نہ صرف خودبہ نفسِ نفیس ان تقاریب میں شریک ہوئے بلکہ اپنے زریں خیالات
سے سامعین کومحفوظ بھی کیا۔متعدددفعہ راقم سے وہ اس بات کااظہارکرچکے ہیں
کہ اُردوایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب بھی ہے اوراس زبان کواس کاجائزحق
ملنابہت ضروری ہے۔ موہن پال سنگھ ایشرکے مطابق ہندوستان کی تقسیم ایک بہت
بڑاسانحہ تھااوراس تقسیم نے اُردوکوہندوستان میں بے حدنقصان
پہنچایا۔حالانکہ یہ زبان ہندوستان کی اپنی زبان ہے جس نے جنم بھی یہیں لیا،
جوانی کی دہلیزیں بھی یہیں طے کیں اورایک تناوردرخت کی شکل بھی یہیں
اختیارکی ۔یہ زبان امن وآشتی کاپیغام بھی دیتی ہے۔
پروفیسرموہن پال سنگھ ایشراُردومشاعروں کے زبردست شیدائی ہیں۔ان مشاعروں
میں وہ نہ صرف خودشریک ہوتے ہیں بلکہ ہرشاعرکے خوبصورت اشعارپرخوب خوب
دادبھی دیتے ہیں۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یادہے جب شعبہ اُردونے پروفیسرگیان
چندجین سیمی نارہال میں ایک کل ہندمشاعرے کاانعقادکیا۔ یہ تاریخی مشاعرہ
پروفیسرموہن پال سنگھ ایشرکی تحریک پرہی منعقدہوا۔وائس چانسلرتعینات ہونے
کے بعدموہن پال سنگھ ایشرپہلی دفعہ اس موقع پرشعبہ اُردومیں تشریف لائے۔اس
مشاعرہ میں آپ مہمان خصوصی کے طورپرشامل ہوئے۔ملک کے چوٹی کے شعراءنے جب
مشاعرہ میں اپنے اشعارپڑھے توآپ نے ان نامورشعراءکے اشعارپرخوب خوب داددی۔
اس کے بعدہی انہوں نے راقم کوسعادت حسن منٹوپرایک اسٹیج ڈرامہ منعقدکرنے
کامشورہ دیا۔جوبعدمیں یونیورسٹی کے راجندرسنگھ آڈیٹوریم میں کھیلاگیا۔ جس
میں وائس چانسلرنے شرکت کرکے منٹوشناسی کاثبوت بھی دیا۔ اس کے بعدشعبہ
اُردوان کامحبوب شعبہ بن گیاجہاں وہ ہرادبی تقریب میں نہ صرف شریک ہوئے
بلکہ شعبہ اُردوکوآگے بڑھانے کے لئے اپنے مفیدمشوروں سے بھی نوازتے رہے۔
پروفیسرموہن پال سنگھ ایشرکی اُردونوازی کاثبوت اس بات سے بھی مل جاتاہے کہ
راقم نے جب بھی ا س زبان سے متعلق کوئی فائل یاپرپوزل ان کے پاس دستخط کے
لئے دیئے توانہوں نے فوراً اجازت دے دی۔کشتواڑکیمپس میں پہلی دفعہ یوم
اُردومنانے کاسہرابھی وائس چانسلرکے سرہی جاتاہے جنھوں نے اس دوردرازعلاقے
میں یومِ اُردوکے حوالے سے تقریب منانے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اس کے
انعقادمیں ذاتی دلچسپی بھی دکھائی۔
وائس چانسلرصاحب اُردوشاعری اورنثردونوں سے دلچسپی رکھتے ہیں ۔شاعری میں
میر،غالب اوراقبال ان کے پسندیدہ شاعرہیں ۔ میرکی شاعری نے موہن پال سنگھ
ایشرکوبے حدمتاثرکیاہے۔یہی وجہ ہے کہ میرکے سینکڑوں اشعارانہیں زبانی
یادہیں۔ہرملنے والے کااستقبال وہ میرکے کسی شعرسے ضرورکرتے ہیں۔ غالب
اوراقبال کے متعدداشعاربھی ہمیشہ دہراتے ہیں۔ نثرمیں منشی پریم چند
اورسعادت حسن منٹوان کے پسندیدہ افسانہ نگارہیں۔
مجموعی طورپراگردیکھاجائے تواُردووالے اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں
موہن پال سنگھ ایشرجیسااُردونوازوائس چانسلرنصیب ہواہے۔ وائس چانسلرکے
اُردونوازی کے اس جذبے سے اُردووالوں کوضرورفائدہ اُٹھاناچاہیئے کیوں کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا |