ٰٓایک با ر بمعہ اہل و عیال ایک ٹرین سے سفر کرنے کا
اتفاق ہوا ۔ سوری ، ایک بار پھر سفر کرنے کا اتفاق ہوا ، اگر چہ جو ہونا
تھا ہو چکا مگر اچھا نہیں ہوا، دل کرتا ہے کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا ، آپکے
ساتھ ضرور کچھ شئیر کیا جائے۔ خیر جناب! اپنے شہر کے ا سٹیشن پر گئے انہیں
عرضی پیش کی کہ صاحب ہمیں اے سی یا لوور اے سی میں میں سفر کرناہے، بحکم
بیگم جان کہ موصوفہ عام کلاس میں سفرنہیں کر سکتیں۔ مگر ہمیں یہ جان کر بہت
حیرت ہوئی کہ اس کلاس کی بوگی ہماری مطلوبہ ٹرین میں ناپید تھی۔ دوبارہ
عرضداشت پیش کی کہ جی عام سلیپر میں ہی سیٹیں دے دیں، فرمایا کہ جی یہ بکنگ
یہاں دستیاب نہیں ہے۔ اسکے لیے آپکو بڑے شہر جانا پڑیگا۔ بڑے مایوس ہو کر
ریلوے کے کوچے نکلے اور سوچا کہ اب بیگم کو کیا جواب دیں گے؟۔ خیر
چاروناچار اکانومی کلاس کی سیٹ اور برتھ پر ہی گزارہ کرنا پڑا۔
مقررہ دن ،وقت اور تاریخ پر اسٹیشن پہنچنے سے پہلے ریلوے انکوائری میں گاڑی
کا اررائیوال ٹائم جاننے کے لیے بہت فون کیے، مگر حسب توقع جواب ندارد۔ خیر
جناب اسٹیشن پہنچے تو پتہ چلا کہ گاڑی آج صرف ایک گھنٹہ لیٹ ہے۔ لو جناب
گاڑی آ گئی ، ہر بندہ گاڑی پر ایسے ٹوٹ پڑا جیسے چیل گوشت پر۔ جیسے تیسے ہم
بھی بمعہ اہل و عیال و سامان، گھس گھسا کر ایک ڈبہ میں داخل ہونے میں
کامیاب ہو ہی گئے۔ اپنی بک شدہ سیٹ اور برتھ پر پہنچے تو ہماری سیٹ اور
برتھ پر پہلے سے کچھ غیر متعلقہ افراد کا قبضہ تھا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے پہلے
بیگم اور بچوں کی طرف دیکھا ، آستینیں چڑھائیں پھران غیر متعلقہ افراد کو
بڑھک لگائی کہ سیٹیں خالی کریں، مگر انہوں نے ایسے سنی ان سنی کردی جیسے کہ
ہمارے سیاستدان عوام کو کر تے ہیں ۔ بیگم کو بہت غصہ آیا اور حسب عادت
نہایت گرجدار آواز میں انہیں اٹھنے کا حکم دیا تو بیگم کی دڑکی کام آگئی،
سیٹیں خالی تو ہو گئیں مگر اس شرط پر کہ انکی ایک عدد مریضہ کو فلاں جگہ تک
سا تھ بٹھایا جائیگا۔ خیر انسانی ھمدردی کے ناطے، جو کہ ھم میں (بیگم میں
نہیں) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، ہم مان گئے۔ جب ہم نے اوپر اپنی برتھ پر
نظر ڈالی تو وہاں پر بھی دو عدد خواتین فراش پائیں اور انہوں نے بھی برتھ
خالی کرنے سے ایسے صاف انکار کر دیا ، جیسے ہمارے سیاستدان کرسی چھوڑنے سے
کرتے ہیں ۔ اب حالت یہ تھی کہ ھم چار سیٹیں اور برتھیں بک کرانے کے باوجود
بھی سیٹوں کے درمیان لاوارثوںکی طرح کھڑے تھے اور دوسرے لوگ ہماری سیٹوں پر
برا جمان تھے۔ خیر کچھ گھنٹوں بعد مذکورہ خواتین نے اپنا اسٹیشن آنے پر
ہماری برتھ خالی کر دیں۔ کچھ دیر بعد ہمیں واش روم کی حاجت ہوئی، وہاں گئے
تو پتہ چلا کہ بجلی کے ساتھ ساتھ پانی بھی نہیں ہے۔ دوسرے واش روم گئے تو
وہاں سرے سے ٹونٹی ہی نہ تھی۔ مجبورا ٹیشو پیپر پر ہی گزارہ کرنا پڑا۔ خیر
جیسے تیسے پندرہ گھنٹے سفر کرنے کے بعد اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے اور
وہاں اترتے ہی واپسی کی کمپیوٹرائزڈ بکنگ بھی کرالی۔
واپسی پر جب ہم دوبارہ اپنی کمپیوٹرائزڈ بکنگ والی سیٹوں پر پہنچے تو وہاں
پر بھی ایک فیملی پہلے سے براجمان تھی ، اور حیرانگی اس بات پر تھی ان
سیٹوں پر نمبرنگ تین بار کی گئی تھی۔ پہلے والے اصلی نمبر دوسرے والے کا لے
مارکرسے اور تیسرے والے سفید چاک سے لکھے گئے تھے، اور ساتھ یہ بھی لکھا
تھا کہ ِ،،چاک والے نمبر درست ہیں،،۔ اب ہم کبھی کمپیوٹرائزڈ بکنگ والے
نمبروں کو دیکھیں اور کبھی چاک والے نمبروں کو،کہ پتہ نہیں کون
سے درست تھے۔ لو جناب یہاں بھی سیٹوں کے پیچھے پھڈا شروع۔ ہمیں جھگڑتا دیکھ
کر ایک نیک بخت نے مشورہ دیا کہ آپ اس سلسے میں ٹرین کے ٹی ٹی سے رابطہ
کریں۔ ٹی ٹی صاحب کو ڈھونڈا ور انہیں ا پنا مدعا بیان کیا تو بہت برھم ہوئے
اور نہایت غصہ اور جلال میں آکر منہ چارلی چپلن کی طرح بنا کر کہنے لگے کہ
میں سیٹیں الاٹ کرنے والا ٹی ٹی نہیں بلکہ سامان والا ٹی ٹی ہوں۔ خیر صاحب
سیٹوں والے ٹی ٹی صاحب کو بھی ہم نے ٹرین چلنے سے چند منٹ پہلے گاڑی کے
انجن کے پاس جا ہی لیا۔ مدعا بیان کرنے پر انہوں نے بھی پہلے کچھ چی پاں کی،
مگر بعد ازاں سیٹوں کا مسئلہ حیران کن طور پر بالآخر بغیر کچھ لیے دیے حل
کرا ہی دیا۔
دوبارہ پندرہ گھنٹے کی ٹریول کے بعد سسرال پہنچے ، کچھ روز سٹے کرنے کے بعد
گھر واپسی کا قصد کیا، اسٹیشن پہنچے ، رات گیارہ بجے کی ٹرین رات ایک بجے
آئی، بچوں کا نیند سے برا حال، بیگم پریشان، ساتھ سسرالی بھی پریشان کہ
جلدی سے مطلوبہ گا ڑی آئے تو انہیں دھکا دیں، اور گھر جاکر آرام کریں۔ لو
جناب! صبح کے چھ بجے ایک اور ٹرین چینج اور کے لیے ایک اسٹیشن پراترے ۔
ٹرین جانے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا، قلی صاحب سے بکنگ کے بارے میں پوچھا
تو اس نے ہمیں سر تا پاﺅں ایسے دیکھا جیسے ہم نے اس سے کو ئی الجبرا کا
سوال پوچھ لیا ہو اور فرمایا کی جناب اس ٹرین کی بکنگ نہیں ہوتی۔ ،، توانوں
پتا نئیں جے ،، ، جہاں مرضی آئے قبضہ کر لیں قبضہ گروپوں کی طرح ، اور
پوچھنے پر مزید بتایا کہ گاڑی پلیٹ فارم نمبر 2 سے روانہ ہوگی۔ ہم نے پلیٹ
فارم نمبر 2 بہت تلاش کیا ، مگر وہ کہیں بھی نظر نہ آیا۔ پھر ایک صاحب نے
پوچھنے پر ایک جانب دور کا اشارہ کرکے بتایا کہ وووووووووووووووووہ رہا
پلیٹ فارم نمبر 2، دراصل وہ گاڑیوں کا ایک شنٹنگ پوائنٹ تھا، نہ کہ پلیٹ
فارم ۔۔ جلدی جلدی ہم بھی گاڑی تک پہنچے اورمبلغ تین عدد سیٹوں پر بمعہ اہل
و عیال قبضہ کر لیا۔
گاڑی کیا تھی بس گاڑی کے نام پر ایک ٹوٹا پھوٹا ڈبہ تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے
ہی ہمارے پاﺅں کے نیچے سے واقعی زمین نکل کر نیچے دوسری زمین نظر آنے لگی،
یعنی جہاں ہمارا پاﺅں تھا اسکے عین نیچے فرش میں ٹا کی لگاکر بوگی کے ٹوٹے
فرش کو چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ سوراخ اتنا بڑا تھا کہ آپ باسانی
گاڑی کے وہیل دیکھ اور گن سکتے تھے۔ غرضیکہ گاڑی کی حالت بہت ہی خستہ تھی۔
ایک ایک بندے نے چار چار سیٹیں ملی ہوئی تھیں، اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا
ابھی ہم گاڑی کے چلنے کی اناﺅ نسمینٹ ، یا گاڑی کے ہارن کے بارے میں سوچ ہی
رہے تھے کہ حیرت انگیز طور پر گاڑی بلکل آن ٹائم چل پڑی وہ بھی بغیر کسےی
اناﺅنسمینٹ اور گاڑی کے ہارن کے او ر حیرت انگیز طور پر ہمیں آن ٹائم اپنی
منزل مقصود پر بخیروعافیت پہنچا دیا۔
مندرجہ بالا ٹرین جرنی سے ہمیں اندازہ ہوا کہ لگژری گاڑیاں صرف راولپنڈی،
لاہور، کراچی والوں کے لیے ہیں، چھوٹے اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کے لیے
ایسی تھکڑ گاڑیاںرکھی ہوئی ہیں کہ بندہ ایک بار سفر کرے تو تین دن تک بستر
سے نہ اٹھے، ا ور ایسا لگتا ہے جیسے ان علاقوں میں کوئی حیوان یا شودر
انسان بستے ہیں جوکہ اچھی گاڑیوں میں سفر کرنے کے مستحق ہی نہی ہیں ۔ ریلوے
کے اعلی حکام اور نئی حکومت سے جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں اچھی
گاڑیاں چلانے کی درخواست کی جاتی ہے۔ شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری
بات۔ |