کاش!!! تم بھی پڑھتے تو اچھّا تھا۔۔۔

دوستی اور محبت جسے دنیا کے تمام مذاہب نے پسند کیا ہے، اور پھر دوستی اور محبت ہی ایسا جذبہ جو انسان کو انسانیت سیکھاتا ہے ، ورنہ معاشرے میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں ، جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا ، تو وہ کسی بدکاری میں خود کو ملوث کرلیتے ہیں، فٹ پاتھ پر پڑے رہتے ہیں ، حلیے سے پاگل ، دیوانے دکھائی دیتے ہیں ، یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا کوئی دوست نہیں ہوتا ،اور نہ کوئی رشتے دار ، وہ بس یوں ہی زندگی کو گذار کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ، نہ ان کے مرنے کا رنج کسی کو ہوتا ہے نہ ان کے مرنے سے کسی کا نقصان ! البتہ دوستی اور محبت سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کے یاد گار لمحوں تک کی قربانی دے جاتے ہیں ، اور ان کو شاید احساس بھی نہیں ہوتا ہوگا ۔

محبت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے ، معشوق سے چوٹ کھایا تو مجنوں بن جاتے ہیں ، کپڑے میلے، بال بڑے ہوئے ، شیونگ بھی بڑھ جاتی ہے ، یوں سمجھئے نا کہ وہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرچکے ہوتے ہیں ، دین کے معاملے میں کہا جائے تو نہیں ہوتا ہے ، البتہ معشوق سے ملے زخم دنیا سے علاحدہ کردیتے ہیں تنہائی پسند ہوجاتے ہیں ، اور اپنی شخصیت کے خاتمے کے درپے ہوجاتے ہیں ۔ شاید یہ خیال ہوتا ہوگا کہ دنیا انہیں لیلیٰ مجنوں ، ہیر رانجھا ، شیرین فرہاد کی طرح یاد کرے گی ، البتہ ایسے لوگوں کے بارے میں ایک رائے ہے کہ انہیں یہ جاننا چاہئے کہ آج کی دنیا بے حد مصروف ہے ، صبح کا ناشتہ شام کے کھانے کے درمیان کا وقت اتنا کم وقفہ لگتا ہے جیسے ابھی تو ناشتہ کیا تھا اور ابھی ۔۔!! یوں محبت میں ناکامی بربادی کے راستے پر لاکر چھوڑتی ہے ۔ اگر دوستی اور محبت اس کے مقام پر ہی رہ کر کی جائے ، خود میں ایثار و قربانی کا جذبہ بیدار کرلیا جائے تو معاشرے سے خود بخود بے شمار برائیاں ختم ہوجائے گی۔ لیکن حضرت انسان کی عقلمندی یہ ہے کہ وہ محبت کو دوسرے نظریے سے اور دوستی کو دوسرے نظریے سے دیکھتے ہیں ، دوستی میں ایک دوسرے سے مفاد اور محبت میں ہوس ، اور تمام برائیاں یہیں سے جنم لیتی ہیں ۔ پھر قطع تعلقی اختیار کرلیتے ہیں ، جس کوشریعت نے خاص طور سے منع کیاہے ، قارئین ! کل کے زمانے میں دوستی ایسی نبھائی جاتی تھی کہ آج ہم لوگ مثال دیتے ہیں ، لیکن آج دوستی ایسی نبھائی جاتی ہے کہ کل کوئی مثال نہیں دے گا ، پہلے لوگ اکرام مسلم کو یاد رکھتے تھے ، صلہ رحمی کا جذبہ بھی ہوتا تھا ، حتیٰ کہ دوستی میں کہیں بھی مفاد نہیں ہوتا تھا ، اور محبت کا معاملہ تو ہوتا ہی نہیں تھا ، پہلے پردے کا اہتمام ہوتا تھا ، گھر کی خواتین گھر سے باہر نہیں نکلتیں تھیں ، اپنے بھائیوں سے ضرورت کی اشیاء منگوایا کرتی تھیں ، اور باہر کے احوال بھی انہی سے سنا کرتی تھیں ، اور اب ۔۔۔!!!

ان دو جذبوں میں بہت مفاد پوشیدہ ہے مگر اس کا استعمال برائیوں کو جنم دیتا ہے ، اس لئے ہم لوگوں کو چاہئے کہ خلوص والی دوستی اور پاکیزہ محبت کو ترجیح دیں ، معاشرے کو اپنی تہذیب میں ڈھالنے کا عزم کرنا چاہئے ناکہ ہم معاشرے میں ڈھل کر رہ جائیں ، اور پھر یہ بات آسانی سے کہے سکیں کہ سب تو کرتے ہیں ایک ہم نے غلط کرلیاتو کیا کیا !! ہمارا مذہب برائیوں کے خاتمے کے لئے ہے ناکہ برائیوں کو ہوا دینے کے لئے !!!!!!!!!
وفا کیا ہے ، خلوص کیا ہے ، دوستی کیا ہے
یہ دیکھنے کو میرے دل کا آئینہ لے جا
Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 226 Articles with 276941 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More