ان سے ملئے، ان کا
نام مسٹر پی۔ کے ہے، ان کے شہر میں تین پلازے، چار پٹرول پمپ، مختلف ہاؤسنگ
سوسائٹیز میں قیمتی پلاٹ اور غیر ملکی بنکوں میں تقریباً دس ملین ڈالر ہیں۔
اس کے علاوہ بھی ”پرچون“ کی مد میں ان کے پاس دو تین لینڈ کروزرز، چند
مقامی بنکوں میں دس بارہ کروڑ کے ڈپوزیٹ اور انعامی بانڈ وغیرہ ہیں تاہم
”پرچون“ کا کام ان کا سیکریٹری دیکھتا ہے کیونکہ پی۔ کے ۔صاحب کے پاس اس کے
لئے وقت نہیں۔ مسٹر پی۔ کے۔ کو ابھی ہم یہیں ان کے حال پر چھوڑتے ہیں اور
ایک دوسرے صاحب سے ملتے ہیں جن کا نام حاجی دین محمد ہے، حاجی صاحب بھی
ایک”ارب پتی نما “آدمی ہیں، ہم نے انہیں ”ارب پتی نما“کیوں کہا؟ اس کی وجہ
بعد میں …تاہم اگر ہم ان کے وزیٹنگ کارڈ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ
موصوف چار پیپر ملز، دو رائس ملز اور تین شوگر ملز کے مالک ہیں۔ اس کے
علاوہ ہر سال تمام چونگیوں کے ٹھیکے، پارکنگ سٹینڈ کے کنٹریکٹ اور پی۔
ڈبلیو۔ ڈی کے ٹینڈر بھی انہی کی کمپنیوں کو ملتے ہیں جو مختلف ناموں سے
رجسٹرڈ ہیں۔ حاجی صاحب سے تفصیلی ملاقات ہم تھوڑی دیر بعد کریں گے، فی
الحال ہم ایک خاتون کے پاس چلتے ہیں جو اپنی ایک سافٹ وئیر فرم چلا رہی ہیں،
ان کا نام الفت ہے۔ بہت ہی مختصر عرصے میں ان کی فرم نے سافٹ وئیر مارکیٹ
میں اپنا نام بنایا اور اب اس کی شاخیں ملک کے تقریباً ہر بڑے شہر میں ہیں۔
ایک انڈیپینڈنٹ فلیٹ، اپنا کاروبار، گاڑی، آگے پیچھے بھاگتا ہوا سٹاف اور
پیسے کی ریل پیل، نہ بال بچے کی فکر نہ شوہر کے نخرے۔ نوجوان لڑکیوں پر ہی
کیا منحصر، ان کی ہم عمر عورتیں بھی ان پر رشک کرتی ہیں، ایسی زندگی کون
نہیں گزارنا چاہتا؟؟
الفت کو چھوڑ کر ہم واپس مسٹر پی۔ کے۔ کے پاس آتے ہیں۔ موصوف لگ بھگ
پینتالیس سال کے ہیں لیکن اپنی عمر سے کم از کم دس سال بڑے لگتے ہیں۔ رنگت
ضرورت سے زیادہ گندمی جبکہ قد ضرورت سے زیادہ لمبا، یعنی پہلی نظر میں
اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ قد کی وجہ سے زیادہ بے ڈھنگے لگتے ہیں یا
رنگت کی وجہ سے زیادہ بد ہیئت!!! چونکہ انہیں معدے کا السر ہے اس لئے دنیا
کی تقریباً ہر نعمت ان کو منع ہے۔ جب بھی مسٹر پی۔ کے۔ بیرون ملک کسی
کاروباری ڈیل کی غرض سے جاتے ہیں تو ان کا شیڈول کچھ اس قسم کا ہوتا ہے:
لاہور سے دبئی …ہوٹل میں ٹھہرے، دہی کھایا، بزنس ڈیل کی ، ہوٹل واپس آئے،
دہی کھایا، سو گئے۔ دبئی سے فرینکفرٹ…ہوٹل میں ٹھہرے، سفید چاولوں پر چینی
اور دودھ ڈال کر کھایا، سکریپ خریدا، ہوٹل واپس آئے، نیند کی گولی کھائی،
سو گئے۔ فرینکفرٹ سے پیرس…ایک پاکستانی کے ہاں ٹھہرے،رات کو اسی کے ساتھ
ایک پاکستانی ریستوران میں مونگ کی دال کا سپیشل سوپ منگوا کر پیا، واپس
آئے اور سو گئے۔ جہاں تک پی۔کے۔ کی فیملی کا تعلق ہے تو موصوف کی ایک بیوی
ہے اور ایک ہی بیٹا ہے۔ بیوی ٹھوٹھ جاہل جبکہ بیٹا اس قدر شریف کہ بالکل ہی
ناکارہ۔ موصوف ہر وقت اسی غم کو غلط کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پی۔کے۔ کو
ایک مرتبہ پھر ان کے حال پر چھوڑتے ہیں اور حاجی دین محمد کے پاس چلتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں بتایا کہ حاجی صاحب ”ارب پتی نما“ ہیں یعنی اپنے
اثاثوں کی بدولت وہ ارب پتی ہیں لیکن اپنے حلیے سے وہ زیادہ سے زیادہ ایک
ہیڈ کلرک لگتے ہیں۔ تقریباً ساٹھ کے پیٹے میں ہیں اور بظاہر ہٹے کٹے ہیں
اور ان کی اولاد کو یہی غم کھایا جا رہا ہے کہ ان کا باپ ابھی مزید بیس سال
زندہ رہ سکتا ہے۔ حاجی صاحب کے چار بیٹے ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک بڑا جیل
کاٹ کر باہر آتا ہے تو دوسرے کی باری آ جاتی ہے، اسی طرح تیسرا اور پھر سب
سے آخری بیٹا بھی اپنی باری آنے پر ایک آدھ ماہ جیل میں گزار آتا ہے ۔ حاجی
صاحب کی دو بیویاں ہیں، دوسری بیوی اور ان کے چھوٹے بیٹے کی عمروں میں فقط
تین سال کا فرق ہے… یعنی بیٹا تین سال بڑا ہے!!! جہاں تک حاجی صاحب کی پہلی
بیوی کا تعلق ہے تو محترمہ نے ویسے تو کبھی سکول کی شکل نہیں دیکھی لیکن اس
کے باوجود، بغیر گرائمر کی غلطی کے ، نہایت روانی اور بلاغت کے ساتھ اردو
اور پنجابی میں بیک وقت گالیاں دیتی ہیں کہ پورا محلہ عش عش کر اٹھتا ہے۔
لڑکے اپنی ماں پر گئے ہیں لیکن کچھ محلے دار اس سے اتفاق نہیں کرتے، ان کا
خیال ہے کہ لڑکے ماں سے بڑھ کر ہیں ۔ حاجی صاحب کی صحت ویسے تو ماشااللہ
بہترین ہے لیکن بائیں آنکھ میں مہیم سا ترچھا پن ہے جس کی وجہ سے وہ چیزوں
کو صحیح طور پر فوکس نہیں کر پاتے تاہم ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی یہ
کمزوری دوسروں پر بالکل ظاہر نہ ہونے دیں۔ ہر نیا ٹینڈر یا ٹھیکہ ملنے کے
بعد، حاجی صاحب آمدنی کا ایک خاص حصہ غریبوں اور ناداروں میں کھڑے کھڑے
بانٹ دیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وقف کیا ہوا یہ حصہ اس منافع کا
تقریباً اعشاریہ صفر صفر صفر صفر ایک فیصد ہوتا ہے۔
الفت صاحبہ بظاہر بہت آئیڈیل زندگی گزار رہی ہیں، شروع شروع میں خود الفت
کو بھی اس زندگی میں بہت تھرل نظر آتی تھی لیکن اب خود الفت کو یہ زہر لگنے
لگی ہے! الفت کی کچھ عادات بھی بہت عجیب ہیں جن کی وجہ سے اس کا شوہر بھی
اسے چھوڑ گیا۔ ایک تو اپنی تمام تر تعلیم اور رکھ رکھاؤ کے باوجود الفت کی
شخصیت میں کچھ کچھ مردانہ پن ہے جو چھپائے نہیں چھپتا مثلاً موصوفہ سوتے
وقت ایسے خراٹے لیتی ہیں کہ لگتا ہے کوئی خاتون نہیں بلکہ چودھری لطیف ٹائپ
کوئی بندہ سو رہا ہو۔ اسی طرح الفت کے چلنے کا انداز، اس کا ڈیل ڈول، حلیہ
ایسا ہے جیسے ابھی وہ”بڑک“ لگائے گی ”اوئے میں نسل مکا دیاں گی!!!“
جب بھی ہم ایسی شخصیات یا ان جیسے دوسرے لا تعداد کرداروں کو معاشرے میں
دیکھتے ہیں توسب سے پہلا خیال یہ آتا ہے کہ کاش خدا نے ہمیں بھی ایسی ہی
دولت دی ہوتی، نہ نوکری کی فکر نہ پیسے کی ٹینشن، بس اپنے دفتر یا فیکٹری
جاؤ، نوٹ گنو اور واپس آجاؤ…لیکن یہ اتنی سیدھی بات نہیں ہے کیونکہ اگر
مجھے کہا جائے کہ ان جیسے کسی شخص کی دولت لے لو تو میں انکار کر دوں گا
کیونکہ اس کے assets کے ساتھ مجھے اس کی liabilities بھی لینی پڑیں گی۔
یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ میں خدا سے دولت تو مسٹر پی۔کے، حاجی دین محمد اور
الفت بیگم کی مانگوں اور لائف سٹائل اپنی مرضی کا رکھوں…مجھے پورا پیکج
لینا ہوگا… ہمیں صرف ایسے لوگوں کی دولت نظر آتی ہے، ان لوگوں کی بیماریاں،
ان کی عادات، شکل و صورت، ان کے بیوی بچے، ان کے لباس پہننے اور اٹھنے
بیٹھنے کا انداز… یہ سب ہمیں نظر نہیں آتے جبکہ یہ سب کچھ بھی پیکج کا
لازمی حصہ ہے، یہ بھی ساتھ میں آتا ہے ۔…یہی پیکج ڈیل ہے!! |