تعصب کے سوار کی منزل ! حق یا باطل

اللہ اکبر ۔ شروع اللہ کے نام سے بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
اور درود و سلام آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور انکی آل پر۔

نزول قرآن مجید کے دوران ان لوگوں کا جو کتاب الہی کے منکر اور مخالفین تھے ان کا بیان قرآن میں کچھ اسطرح نقل ہوا ہے، وہ کہتے تھے کہ “ اے خدا! اگر یہ قرآن برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے تاکہ ہم ایک لحظہ کے لئے بھی زندہ نہ رہیں“۔ انسان کی یہ کتنی عجیب بات ہے کہ سچائی اس کے لئے اس قدر تلخ، ناگوار اور ناقابل برداشت ہو جائے کہ وہ کہے کہ اے خدا! اگر یہ حق اور حقیقت ہے اور اسے ہی پھلنا پھولنا ہے تو مجھے اٹھالے تاکہ اس کا سامنا نہ کرسکوں۔ جبکہ اصل میں انسان کو تو یہ کہنا چاہیے کہ اے پروردگار! اگر فلاں بات برحق ہے تو میرے سینے کو اسے سمجھنے کے لئے کھول دے اور مجھے اس کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما اور مجھے ہمت، طاقت اور صلاحیت دے کہ میں اس حق بات کو خوب پھیلا سکوں (یعنی حق پرستی کاعملی پیکر بن سکوں)۔

مگر افسوس صد افسوس ہوتا یہ ہے کہ یہ بشر کبھی اپنا معنوی، اخلاقی اور فکری مزاج ایسا بنا لیتے ہیں جو حق، عدالت، سعادت اور ایمان کے سراسر خلاف ہو، یہاں تک کہ وہ مرجانا پسند کرتے ہیں لیکن حق کا سامنا کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔

کچھ کہتے ہیں “میرا سامنا ایک تلخ حقیقت سے ہوا“۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کہ کیا حقیقت تلخ بھی ہو سکتی ہے ؟ کیا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ انسان میں حقیقت سے لگاؤ اور عشق پیدا کیا گیا ہے؟ پھر حقیقت تلخ کیونکر ہو سکتی ہے؟۔ ۔۔ بات شاید یہ ہے کہ اپنی ذات میں کوئی بھی چیز تلخ یا شیریں، خوبصورت یا بدصورت، خوشبودار اور بدبودار نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ ہمارا زہن ہے جو انہیں خلق کرتا ہے۔ کیا تلخی، شیرنی، حسن و بدصورتی، خوشبو و بدبو کا تعلق ہمارے اپنے جسمانی و روحانی مزاج سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر شکر اور شہد کا ذائقہ جو ایک صحت مند شخص کے لئے میٹھا ہے، ممکن ہے کسی بیمار کو کڑوا محسوس ہو۔ یہ جو کہتے ہیں کہ حقیقت شیریں اور خوشگوار ہوتی ہے وہ ان کے لئے ہے جو بے غرض ہو اور طبیعت اور مزاج کی سلامتی کے باعث حقیقت کے طالب ہوں لیکن خواہشات و غرض کے پتلے، آلودہ اور بیمار مزاج کے حامل شخص کے لئے یہی حقیقت کبھی ہر کڑواہٹ سے زیادہ تلخ ہو جاتی ہے اور اس کا سامنا کرنے کی نسبت وہ مرجانا پسند کرتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ اسلام کی تعریف بیان کیجیے۔ آپ نے فرمایا کہ کہ اسلام یہ ہے کہ حقیقت کے مقابلہ میں دشمنی، تعصب اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔

بھائیوں اگر تعصب رکھنا ہی ہے کسی ایک یا زائد اقوام کے خلاف جو (اپنی قوم کی ) خوش قسمتی اور (آپکی قوم کی) قسمتی سے آپ کی قوم سے زیادہ قابل اور خوشحال ہے تو گر قومی غرور و تعصب رکھنا ہی چاہتے ہو تو چاہیے کہ تمہارا یہ تعصب فضائل، اخلاق اور نیک صفات کے حوالہ سے ہو۔ یعنی اپنے آپ سے سوال کرو کہ فلاں قوم کیوں زیادہ پڑھی لکھی اور قابل ہے اور ہماری قوم کیوں جٹ اور گنوار ہے، فلاں قوم کی چند ایک کروڑ کی آبادی کے باوجود اور ان کو مختلف رکاوٹوں سے روکنے کے باوجود ان کے اتنے اتنے لوگ ایسے ایسے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور ہماری اتنے اور اتنے کروڑوں کی آبادی کے باوجود ہمیں قومی تعصب و نسلی گروہ بندی کی بدولت اقتدار اور اعلی عہدوں پر جانا نصیب ہوتا ہے ناکہ اپنی اہلیت و قابلیت کی بدولت اور ترقی کے لیے یہ قومی کوشش ہونی چاہیے کہ فلاں فلاں عہدے کے لیے اگر ١٠ (دس) سیٹیں ہیں تو ہم کیوں اپنی تعداد کی بنا پر پانچ سے چھ سیٹیں تو بڑے بھائی کی حیثیت کے لے اڑتے ہیں (سیٹوں کے کوٹہ کی وجہ ) سے اور باقی صوبوں کو چار سیٹوں کے لیے اور میرٹ پر ١ ، اگر اتنا ہی غرور و تعصب رکھنا ہے تو مقابلہ کی فضا کو فروغ دو اور میدان میں مقابلہ کرو ناکہ کوٹہ سسٹم جیسے ناسور کو بیچ میں لا کر حق والوں کو حق مار کر اپنے کو نوازتے رہو اس سے ہوتا یہ ہے کہ ایک نفرت جنم لیتی ہے جو اتنی پھیل جاتی ہے کہ جس کا احساس جب ہوتا ہے جب پانی سر سے اونچا اٹھ جائے۔ تو اگر قومی غرور، تعصب رکھنا ہے تو کوشش کرنی چاہیے کہ دوسری اقوام تک پہنچنے کی کوشش کرو بھائیوں بلکہ ان سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ فلاں ملت اخلاق اور اجتماعی عادات و روابط میں ہم سے بہتر ہے۔ پس ہم بھی جدوجہد کریں تاکہ ان سے بہتر بن سکیں بلکہ توازن، امانت، فداکاری اور حسن اخلاق میں ان سے آگے نکل جائیں

یاد رکھو تمہارا تعصب حقیقت سے قریب تر ہونے کی خاطر اور بہتر سے بہتر بننے کی نیک نیتی کے ساتھ ہونا چاہیے حقیقت و انصاف سے دور ہونے کے لئے نہیں۔ وگرنہ تعصب ایک ایسی دو دھاری تلوار کی طرح ہے کہ جس کا حملہ تلوار ہاتھ میں رکھنے والے کے اوپر بھی ہو سکتا ہے۔

اور کچھ تعصب رکھنے والے اور اسکا پرچار کرنے والوں کے لیے کوئی شاعر کہہ گیا ہے (شاعر سے مع(معذرت کے ساتھ کہ انکی اجازت نا لے سکا ) ہمارا بحرحال شاعر کی درج زیل شاعری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

جو لوگ جان بوجھ کر تعصب کا شکار بن گئے
ہمارا (شاعر کا) یہ خیال ہے کہ وہ حیوان بن گئے

جو جہنم میں جھانکا تو مت کچھ پوچھیے
وہ جان بوجھ کر وہاں انجان بن گئے

ہنس پڑتے ہیں دیکھ کر ہم کو ارباب آگہی
ہم بھی تو آپ کےمزاج کی پہچان بن گئے

انسانیت کی بات تو بس اتنی ہے جناب
بدقسمتی سے آپ بھی انسان بن گئے

درحقیقت جو شخص بلاوجہ تعصب و بغض کا شکار رہتا ہے اور اس کا یہ تعصب تعمیری کے بجائے تخریبی اور انسان کو انسان سے اس طرح چیر پھاڑ کروانا ہوتا ہے جس طرح بھیڑیا کا کام ہوتا ہے تو درحقیقت وہ انسانیت کی معراج سے بڑی دور جا گرتا ہے اور ایک حیوان سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ اس تعصب میں اگر میں بھی گرفتار ہوں تو اس بات میں مجھے کوئی شرم نہیں کہ میں اللہ سے اپنی بھی ہدایت و رہنمائی کے لیے دعا گو رہوں اور جہالت کی گمراہیوں اور اندھیروں میں ایسا نہ بھٹک جاؤں کہ حق کو حق جانتے بوجھتے جھٹلانے کی تگ و دو میں لگ جاؤں اور یہی دعا میری تمام مسلمانوں اور تمام انسانوں کے لیے ہے۔

اللہ مجھے اور آپ کو عقل سلیم اور ہدایت کاملہ و عاجلہ نصیب فرمائے آمین آمین برحمتک یا رب العالمین
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532780 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.