انتخاب جیسے جیسے قریب آرہا ہے،
مسلمانوں کو لے کر سیاسی پارٹیوں کی سیاست بھی تیز ہوتی جارہی ہے۔ میڈیا نے
نریندر مودی کو وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنا بھی شروع کردیا ہے۔
وقت بدلتا ہے۔ پارٹیاں بدلتی ہیں۔ سیاست میں تبدیلی آتی ہے تو اس کا اثر
سیدھے مسلمانوں پر بھی پڑتا ہے۔ بھاجپا بر سر اقتدار تھی تو یہی مسلمان تھے،
جن کے چہروں سے خوف جھانکتا تھا۔ اور اس کی وجہ سنگھ اور کچھ بھاجپا لیڈروں
کے بیانات بھی ہوتے تھے۔ اس وقت بہت سے میڈیا چینلس نے بھی اپنے چہرے کے
پیچھے چھپا مکھوٹا اتار دیا تھا۔ توگڑیا سے لے کر رام مادھو تک کے مخالف
بیانات کہیں نہ کہیں مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے کافی ہوتے تھے۔ ایسا
نہیں ہے کہ مسلمان کانگریس کے کردار کو نہیں پہچانتے۔ لیکن کانگریس کی نام
نہاد حمایت بھی مسلمانوں کو کہیں نہ کہیں یہ پیغام دے جاتی تھی کہ کانگریس
کی حکومت میں کم از کم مسلمان محفوظ تو ہیں— اگر بھارتیہ جنتا پارٹی آگئی
تو ان کا جینا مشکل ہو جائے گا۔ بھاجپا کا کردار شروع سے مسلم مخالف رہا ہے۔
اور کبھی کبھی تو یہ مخالفت شدت کی حدود سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ لیکن ایک
وقت تھا جب اٹل بہاری واجپئی کی طرح لال کرشن اڈوانی بھی حکومت کرنے کے اس
منتر کو جان گئے تھے کہ اگر بھاجپا کو سرکار بنانی ہے تو ملک کے ۲۵ کروڑ
مسلمانوں سے مخالفت کرکے نہیں بنا سکتی۔
اڈوانی کا پاکستان قائدِ اعظم جناح کے مزار پر جانا اور قائد اعظم کی حمایت
میں بیان دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی مگر بھاجپا میں بیٹھے اڈوانی کے
مخالفین اس تیر کا منشا جان گئے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندستانی مسلمان قائد
اعظم سے محبت کرتے ہیں، بلکہ ایک بڑا سچ یہ ہے کہ ہندستانی مسلمان کبھی
جناح سے محبت کا رشتہ وابستہ ہی نہیں کرسکے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی
جناح کو تقسیم کا ذمہ دار مانتی ہوئی انہیں آج تک معاف نہیں کر پائی۔ اس
نسل کے لوگ جنہوں نے تقسیم کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، اب آہستہ
آہستہ رخصت ہو چکے ہیں یا عمر کے اس پڑاؤ پر ہیں جہاں تقسیم صرف ایک ڈراؤنا
خواب بن کر رہ گئی ہے۔ ہندستان میں مسلمانوں کی نئی نسل نہ تقسیم کو سمجھنا
چاہتی ہے اور نہ ہی اس کے دل میں قائد اعظم جیسوں کے لیے کوئی جگہ ہے۔ اس
کے باوجود نفسیاتی طور پر ایسا لگتا ہے جیسے اگر اس وقت جناح والی بات پر
بھاجپا کا غصہ سامنے نہیں آتا، تو مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ چھٹک کر بھاجپا
کے پلڑے میں بھی آسکتا تھا۔ لیکن بھاجپا کے ہوشیار سیاستداں اڈوانی کے بیان
کی حقیقت جانتے تھے۔ اڈوانی کے لیے اس بیان کی حقیقت اس تیز کی طرح تھی جو
نشانے پر نہیں پہنچ سکا۔اور اس کے بعد سیاست میں اپنا بھرم قائم رکھنے کی
کوئی بھی حکمت عملی اپنا کام نہیں کرسکی اور وہ حاشیے پر ڈھکیل دیئے گئے۔
اس وقت سے مسلسل وہ حاشیے پر ہی ہیں۔ جناح کا اونٹ کبھی کبھی بھاجپا میں
حرکت کرتا بھی ہے تو اڈوانی اس سے اپنا پلڑا جھاڑتے ہوئے مجبور نظر آتے ہیں۔
اڈوانی کا جناح والا بیان ایسے وقت آیا تھا، جب بھاجپا کم و بیش ایک ڈوبتی
ناؤ بن چکی تھی۔ یہ بیان اس وقت ایک نئی بھاجپا کی بنیاد بھی ڈال سکتی تھی،
جس کا ایک معنی یہ لیا جانا چاہئے کہ بھاجپا اپنے نئے تیور میں دیگر مذاہب،
ان کے ماننے والوں، ان کے لیڈران کے لیے اپنا رخ نرم کرسکتی ہے۔ اور یہ وقت
کی ایک بڑی تبدیلی کا ایک مثبت اشارہ بھی ہوتا۔ کیونکہ وقت وقت پر نظریہ
اور اصولوں میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔بادشاہ بابر جب اپنے لوگوں کے ساتھ
پہلی بار ہندستان آیا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو یہی کہا کہ یہ ہندو محبت کی
زبان جانتے ہیں۔ ان سے گھل مل جاؤ تو یہاں رہنے اورحکومت کرنے میں آسانی
ہوگی۔
رتھ یاتراؤں سے گزرنے کے بعد اڈوانی حکومت کے اس منتر کو جان گئے تھے اور
پاکستان سے لوٹنے کے بعد جناح کے بہانے انہوں نے محبت کی سیاست کو ہوا دینے
کا کام کیا تھا۔ لیکن پارٹی میں اٹل بہاری باجپئی کے حمایتی یہ بخوبی جانتے
تھے کہ اگر اڈوانی کی یہ سیاست عملی کا م کرجاتی ہے تو پارٹی میں باجپئی سے
بڑی اہمیت اڈوانی کی ہوجائے گی۔ مخالفت کا بازار شروع ہوا۔ اور اس وقت سے
دیکھے تو اڈوانی کی الجھن یہ تھی کہ وہ ہیٹ اینڈ لو فار مولے میں ہی الجھے
رہے۔ جبکہ راج ناتھ نے مودی کے ساتھ مل کر ہندو تو کے پرانے فارمولے کو
سامنے لا کر ظاہر کردیا کہ حکومت میں رہتا ہے تو صرف اور صرف اکثریتوں کو
ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
سن ۲۰۱۳ تک کئی پارٹیاں بے نقاب ہوچکی ہیں۔ ملائم سنگھ یادو کی مسلم سیاست
کا گھناؤنا چہرہ بھی اب سامنے آچکا ہے۔ کشی نگر اور اتر پردیش کے کئی
علاقوں میں ہوئے فسادات اس بات کے گواہ ہیں کہ امت شاہ کی موجودگی میں
ملائم سنگھ نے پہلے سے ہی مسلم ووٹوں کو درکنار کر اکثریتی کارڈ کھیلنا
شروع کردیاہے۔ ملائم اس سچ سے بھی واقف ہیں کہ اگلے انتخاب میں سماج وادی
کو کانگریس ، بسپا، بھاجپا کے ساتھ تیزی سے ابھر رہی پیس پارٹی کا بھی
سامنا کرنا ہوگا۔ عام مسلمانوں کی مشکل یہ ہے کہ سیاست کے بدلتے منظرنامے
میں وہ کس کا ساتھ دیں اور کس کے ساتھ نہ جائیں۔ کیونکہ ۶۷ برسوں کی بدولتی
فضا میں تمام پارٹیوں کو نہ صرف آزما چکے ہیں بلکہ اس حقیقت کو بھی جان گئے
ہیں کہ یہ پارٹیاں صرف اور صرف ان کا سیاسی استعمال کرتی رہی ہیں۔
دیکھا جائے تو ہندستان کے ۶۷ برسوں کی تاریخ میں مسلمانوں کا سچ یہ ہے کہ
ہر سطح پر وہ آزادی اور تحفظ چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سب سے زیادہ دنگے
کانگریس کی حکومت میں ہوئے۔ بابری مسجد میں مورتیاں راجیو گاندھی کے دور
اقتدار میں رکھی گئیں۔ بابری مسجد کے فیصلے کو لے کر بھی مسلمانوں کو
بیوقوف بنایا گیا۔ فرضی انکاؤنٹر سے لیکر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری تک
مسلمان کانگریس کے اصلی چہرے کی شناخت کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو
لگتاہے کہ مسلمان کانگریس کے دور اقتدار میں ہی وہ محفوظ ہیں۔
دیکھا جائے تو تو ملک ایک بار پھر بارود کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کانگریس اور
مودی آمنے سامنے ہیں۔ غیر اردو داں پریس اور میڈیا نے ہندستان کا مستقبل
ابھی سے مودی کو سونپ دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب تقسیم کی وکالت کرتے ہوئے
شیخ عبداﷲ نے کہا تھا کہ جو قوم مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی نہیں
پیتی وہ مسلمانوں کو انکا حق کیسے دے گی۔ مودی کی زبان میں کہا جائے تو جو
شخص مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک ٹوپی قبول نہیں کرتا، وہ مسلمانوں کے ساتھ آنے
والے وقت میں کیا سلوک کرے گا، اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ بھاجپا رام
مندر سلوگن اور ترشول سے زیادہ خطرناک مودی کے ساتھ اب ہندستان کا مستقبل
لکھنا چاہتی ہے۔ اوریہ نہ بھولیے کہ ملک کی’ کٹرتا‘ کی تاریخ میں مودی کسی
شخص کا نام نہیں آئیڈیالوجی کا نام ہے۔ شخص مرسکتا ہے۔ آئیڈیالوجی بندوق سے
چھوٹی ہوئی طوفانی گولی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے— تاریخ اٹھا کر دیکھیے تو
مودی نہ مسلمانوں کے خلاف اپنے رویہ سے نادم ہوا، نہ گجرات کے قتل عام کے
لیے معافی مانگی— اس کے چہرے کی سختی بھی مسلمانوں سے گہری نفرت کا اشارہ
دیتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مشکل ترین وقت ہے۔ آئیڈیالوجی برسوں اور صدیوں
حکومت کرتی ہے۔اس لیے یہ غور کرنا ضروری ہے کہ جو شخص گجرات کے مسلمانوں کو
اپاہج کرسکتا ہے، اس نے اگر ہندستانی سیاست کی باگ ڈور تھام لی، تو وہ
ہندستانی مسلمانوں کا کیا حال کرے گا۔ المیہ یہ ہے کہ آزادی کے ۶۷ برسوں
میں مسلمان ووٹ بینک کا حصہ تو بنے لیکن سیاسی سطح پر مضبوطی کی علامت نہیں
بن سکے۔ |