بریڈلی میننگ ایک ہیرو یا غدار

امریکی تاریخ کا خفیہ فوجی اطلاعات ظاہر کرنے کا سب سے بڑا واقعہ

بریڈلے میننگ کو آزاد کرانے کی جنگ، ایک بڑی تحریک کا حصہ ہے۔ انہیں ا ±مید ہے کہ یہ جنگ چند مہینوں میں امریکی موسمِ بہار کی شکل اختیار کر لے گی۔

امریکہ میں ایک چوبیس سالہ فوجی بریڈلے میننگ نے وکی لیکس کو امریکی فوجی کیبل کے راز افشا کرکے ساری دنیا کو امریکہ کی دہشت گردی اور اس کے فوجیوں کی وحشیانہ کاروائیوں کو طشت ازبام کردیا، میننگ آج ساری دنیا کا ہیرو ہے، امریکی فوج انھیں غدار بنانے اور سزا دینے پر تلی ہوئی ہے۔ لیکن اب نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کی حکومتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اس عہد میں سچ اور ہیرا پھیری کو چھپانے کے تمام آزمودہ حربے تیزی سے غیر موثر ہوتے جارہے ہیں۔اب بڑے پیمانے پر تقسیم اور رسائی کے وسائل با آسانی دستیاب ہیں اور شناخت چھپانے کی بھی صلاحیت موجود ہے، ایسے میں ہمیشہ خطرے کا بِگل بجنے کا اندیشہ رہے گا۔اس لیے اب صرف اس وجہ سے حکومتوں کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ صاف اور ریکارڈ درست رکھیں۔ حکومتیں عوام کو جواب دہ ہیں۔ انہیں بھی چاہیے کہ وہ اب شفافیت کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں

ویکی لیکس خفیہ راز افشاء کرنے کے لیے ایک نیٹ ہے جسے جولین اور اس کے احباب چلاتے ہیں۔ امریکی فوجی کاروائیوں کے متعلق راز افشاء کرنے پر اس وکی لیکس نے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ یہ راز چھوٹے درجہ کے امریکی سرکاری اہلکاروں نے نجی طور پر ویکی لیکس تک پہنچائے جس نے ان کی تدوین کر کے شائع کیا۔ جواباً امریکی حکومت نے کاروائی کر کے وکی لیکس کا دانہ پانی بند کروا دیا۔اس کے بانی جولین آسانج کو برطانیہ نے گرفتار کر لیا۔وکی لیکس کے بانی جولین آسانج امریکا حوالگی کے خوف سے، گذشتہ موسمِ بہار سے لندن میں قائم ایکوا ڈور کے سفارت خانہ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ٹیلی گرام (کیبلز) پر مشتمل امریکا کی خفیہ سفارتی دستاویزات انٹرنیٹ پرجاری کیں، جس کے باعث گذشتہ فروری میں بریڈلے میننگ کے خلاف فردِ جرم عائد ہوئی، اس میں سب سے بڑا اور خطرناک الزام ‘دشمن کی مدد’ کا ہے۔تاہم، اس کے باوجود وکی لیکس ایسی سفارتی دستاویزات اور خفیہ معلومات کو بدستور انٹرنیٹ پر جاری کرتا جارہا ہے، جن کے متعلق بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ امریکا اسے عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنے کا خواہاں ہے۔بلاشبہ یہ قدم محققین کے لیے نہایت بیش بہا ثابت ہوا ہے۔ اسی ضمن میں وکی لیکس نے‘پبلک لائبریری آف یو ایس ڈپلومیسی’ کی دستاویزات جاری کی ہیں۔لائبریری کی انٹرنیٹ پر قابلِ تلاش دستاویزات کی تعداد سترہ لاکھ سے زائد ہے۔ یہ امریکی سفارتی دستاویزات سن ا ±نیّسو تھہتر تا ا ±نیّسو چھہتر پر مشتمل ہیں، جنہی عرفِ عام میں ‘کسنجر کیبلز’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس آرکائیوز میں ڈھائی لاکھ دستاویزات ایسی ہیں جنہیں وکی لیکس نے سن دو ہزار دس میں انٹرنیٹ پر جاری کیا تھا۔اگرچہ تازہ ترین جاری کی جانے والی دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ ہیں تاہم ان تک صرف یو ایس نیشنل آرکائیوز کے تحت ہی رسائی حاسل کی جاسکتی ہے۔ پی ڈی ایف فارمیٹ پر مشتمل یہ دستاویزات انٹرنیٹ پر ناقابلِ تلاش (نان سرچ ایبل) ہیں۔لیکن اب یہ تمام تر معلومات انٹرنیٹ پر صرف ایک کِلک کی دوری پر ہیں۔ یہ وہ معلومات ہیں جو ماضی کے اس عہد پر روشنی ڈالتی ہیں، جنہیں سات پردوں میں چھپا کر رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔جناب اسانڑ کے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے، ان کا درست یا غلط ثابت ہونا ابھی باقی ہے تاہم ایک بات یقینی ہے کہ امریکا ان رازوں سے پردہ اٹھنے پر وکی لیکس سے ہرگز خوش نہیں۔
لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں جون سے ایک کمرہ میں رہنے والے وکی لیکس کے بانی جولیئن آسانج پھیپھڑوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں ۔ آسانج کے علاج کے لئے سفارت خانے میں انتظامات کیے گئے تھے۔ وکی لیکس کے بانی کو علاج کے غرض سے محفوظ راستہ دینے کے لیے برطانوی داخلہ آفس سے اپیل بھی کی گئی تھی۔ برطانیہ کی جانب سے جنسی الزامات پر آسانج کو سویڈن کے حوالے کرنے کے اعلان کے بعد ایکواڈور نے سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔لندن میں وکی لیکس کے ترجمان نے آسانج کی صحت کے بارے میں تبصرے سے انکار کیا۔ وکی لیکس کے بانی جولین آسانج امریکی صدر اوبامہ کو دوبارہ منتخب ہونے پر ‘ بھیڑ کے لباس میں بھیڑیا’ قرار دیا تھا ۔ انھوںنے امریکی عوام سے کہا کہ اوبامہ کے جیتنے پر جشن نہیں منانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اوبامہ ایک اچھے آدمی نظر آتے ہیں اور یہی اہم مسئلہ ہے۔وکی لیکس کے بانی کا کہنا تھا کہ یہ زیادہ اچھا تھا اگر ‘بھیڑیا کے لباس میں بھیڑ’ ہوتا۔انہوں نے ابامہ کی حکومت کی طرف سے وکی لیکس پر ‘ظلم’ کی شکایت بھی کی۔

امریکا کے فوجی بریڈلے میننگ نے قومی خفیہ راز وکی لیکس کو فراہم کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔امریکا میں عدالت کے روبرو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات قبول کرتے ہوئے بریڈلے نے کہا کہ انہوں نے عوام کو امریکہ کی خارجہ اور فوجی پالیسی سےآگاہ کرنے کیلئے وکی لیکس کو راز افشا کیے تھے۔بریڈلے کے مطابق، انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس اقدام سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔بریڈلے نے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت میں پینتیس صفحات پر مشتمل اپنا بیان پڑھا اور خود پر لگائے گئے بائیس میں سے دس الزامات کو تسلیم کیا۔انہوں نے بغداد میں بطور انٹیلی جنس تجزیہ کار کام کے دوران 2009ء اور2010ءمیں ہزاروں کی تعداد میں عراق اور افغانستان کی جنگی رپورٹیں، سفارتی اور دوسرے خفیہ دستاویزات اور خفیہ ویڈیو کلپس وکی لیکس کو فراہم کرنے کا اعتراف کیا۔عدالت اب اس بات پر غور کررہی ہے کہ وہ بریڈلے پر صرف ان دس الزامات کے تحت ہی مقدمہ چلائے یا نہیں۔الزامات ثابت ہونے کی صورت میں بریڈلے کو بیس سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے جبکہ استغاثہ دیگربارہ الزامات کے تحت بریڈلے پرمقدمہ چلا سکتا ہے جس کی سزا عمرقید ہوسکتی ہے۔امریکی فوجی اور عراق جنگ میں شرکت کرنے والے بریڈلی مینگ نے مقدمے کی باقاعدہ سماعت سے قبل اپنے بیان حلفی میں اس الزام کو کہ اس نے ایک امریکی دشمن کی مدد کی ہے تسلیم کرنے سے وہ انکار کیا ہے۔ یہ ان کا پہلا بیان تھا جب سے انھیں وکی لیکس ویب سائٹ کو ہزاروں کلاسی فائیڈ دستاویزات افشا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امریکی تاریخ کا خفیہ فوجی اطلاعات ظاہر کرنے کا سب سے بڑا واقعہ ہے، یہ ان کا پہلا عام بیان تھا۔ امریکہ میں وکی لیکس کے لئے خفیہ فائلوں کی فراہمی کے الزام کے تحت امریکی فوجی بریڈلی میننگ کے خلاف باقاعدہ عدالتی کارروائی کا آغاز فروری میں ہوا تھا ۔کہا جارہا ہے کہ الزام ثابت ہونے کی صورت میں میننگ کو 154 برس کی سزا کا سامنا ہو گا۔ کچھ الزامات کو میننگ ضرور تسلیم کیا لیکن سب سے سنگین الزام کے اس نے ایک امریکی دشمن کی مدد کی ہے کو تسلیم کرنے سے وہ انکاری ہے۔ وکی لیکس کو خفیہ فائلیں فراہم کرنے کے الزام میں بریڈلی میننگ کو 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس مقدمے کے دوران
بریڈلی میننگ کے حامی، جو سماعت کے دوران سردی اور بارش میں فوجی اڈے کے باہر کھڑے رہے، وہ انھیں ایک ہیرو مانتے ہیں۔

امریکی فوج کے استغاثے کے نزدیک میننگ ایک غدارہے، جس نے ہزاروں خفیہ دستاویزات لیک کیں اور اس طرح دشمن کو مدد فراہم کی۔وکی لیکس ویب سائٹ کے بانی، جولیان اسانج نے اِس ہفتے میننگ کے مقدمے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ خود امریکی فوج کے خلاف مقدمہ ہے۔میننگ کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ حراست کےدوران وہ اذیت کا شکار بنے ہیں۔ میننگ نے اپنے بیان حلفی میں انھوں نے کہا کہ گرفتاری کے بعد انھیں ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں رکھا گیا۔ انھوں نے اسے ایک پنجرہ قرار دیا جہاں ان کا دم گھٹ رہا تھا۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس دلیل کے باعث میننگ کے لیے عوام میں ہمدری کے جذبات پیدا ہوئے ہیں، جس سے اس نقصان کی طرف سے دھیان ہٹا ہے جو دستاویز افشا ہونے کے باعث ہوا۔دفاعی تجزیہ کار لارنس کورب کہتے ہیں کہ اِس سے ایک اخلاقی مسئلےکی طرف بھی سوال اٹھتا ہے۔عراق میں خدمات انجام دیتے ہوئے، میننگ نے جنگ کے خلاف آواز بلند کی اور ان کی طرف سے لیک کیے گئے کلاسیفائیڈ مواد سے امریکی فوجیوں کی وحشیانہ زیادتیوں کی طرف نشاندہی ہی نہیں ہوتی بلکہ امریکہ کا اصل چہرہ بھی بے نقاب ہوتا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ میننگ کی طرف سے بڑے پیمانے پر دستاویزات کے افشا کیے جانے سے قومی سلامتی پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔لیکن یہ بات ضرور ہے کہ ان رازوں سے پردہ اٹھنے سے امریکہ کی فوج کا دہشت گرد چہرہ بے نقاب ہوا اور امریکی شہریوں کو پہلی بار اپنی حکومت کے کرتوتوں کا علم ہوا۔ مقدمے سے یہ سوالات بھی اٹھتے ہیں آیا میننگ نفسیاتی طور پر فوج میں خدمات دینے کے قابل تھا۔ان کے سابق افسر انھیں جذباتی طور پر خلفشار کا شکار فرد قرار دیتے ہیں جسے اپنی جنس کے بارے میں شک تھا اور کوئی بھی بات کرتے ہوئے گھبراتا تھا۔کورب کے خیال میں، یہ مقدمہ دراصل فوج کے’اسکریننگ کے عمل‘ میں اصلاحات کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔مقدمے پر اثرانداز ہونے کے خوف کے باعث پینٹاگان حکام اِس مقدمے کے بارے میں اظہارِ خیال سے اجتناب کر تے رہے ہیں۔کہا جارہا ہے کہ مقدمے کی باقاعدہ سماعت میں تقریباً دو ماہ تک لگ سکتے ہیں۔دوسری جانب ناروے میں قائم نوبیل انسٹی ٹیوٹ نے کہاہے کہ اسے 2012ئ کے نوبیل امن انعام کے لیے 231 نامزدگیاں موصول ہوئی ہیں۔

اس سال کی نامزدگیوں میں یوایس آرمی پرائیویٹ کے بریڈلی مننگ بھی شامل ہیں ، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے خفیہ دستاویزات کی ایک بڑی تعدادوکی لیکس کو فراہم کی تھی۔ نوبیل انسٹی ٹیوٹ کو روس کے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن سویتلانا گانوشکینا اور یوکرین کی سابق وزیر اعظم یولیا تیموشینکو کی نامزدگیاں بھی موصول ہوئی ہیں۔قانون سازوں، یونیورسٹی کے اساتذہ اور کئی بین الاقوامی تنظیموں سمیت ہزاروں افراد اس عالمی انعام کے لیے نامزد ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔نوبیل کمیٹی نامزدکی جانے والی شخصیات کے نام ظاہر نہیں کرتی، لیکن بعض اوقات نامزدکرنےوالوں کی جانب سے اس کا اعلان کردیا جاتا ہے۔15 لاکھ ڈالر مالیت کے انعام کے حقدار کا انتخاب پانچ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کرتی ہے-

میننگ کے خلاف اس مقدمے میں امریکی حکومت کے تعصب کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس کی کاروائی ایک فوجی عدالت میں جاری ہے اور فوجی جج نے وکی لیکس ویب سائٹ کو حکومت کے رازافشا کرنے کے الزام میں گرفتار امریکی فوجی کےخلاف 22 الزامات میں سے کسی بھی ایک الزام کوخارج کرنے سے انکارکردیا ہے۔میری لینڈ میں فورٹ میڈ ملٹری بیس پر ہونے والی ابتدائی سماعت کے دوران، کرنل ڈینس لِنڈ نے دفاعی وکلا کی جانب سے پرائیویٹ فرسٹ کلاس بریڈلے میننگ کےخلاف 10الزامات کو خارج کرنے کی استدعا مسترد کردی۔جج نے مقدمے کا دفاع کرنے والوں کی طرف سے پیش کردہ دلائل کو مسترد کیا جن میں کہا گیا تھا کہ کلاسی فائیڈ انفارمیشن غیر قانونی طور پر اپنی تحویل میں رکھنے اور ظاہر کرنے کے عمل کے ارتکاب کے بارے میں آئینی شقوں میں ابہام ہے۔ انھوں نے دو مزید الزامات کو خارج کرنے سے بھی انکار کیا جن میں کہا گیا تھا کہ محکمہ دفاع کے کمپیوٹر نظام تک رسائی کے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے میننگ نے ایسا عمل کیا۔

لِنڈ نے کہا کہ میننگ کے خلاف 21ستمبر سے شروع ہونے والی کورٹ مارشل کی کارروائی نومبر یا جنوری تک موخر کی جا سکتی ہے۔فوج کے انٹیلی جنس تجزیہ کار پر الزام ہے کہ اس نے عراق اور افغانستان کی جنگوں سے متعلق ہزاروں کی تعداد میں سفارتی کیبلز اور فوجی دستاویزات کو لیک کیا۔ ان کے خلاف سب سے زیادہ سنگین الزامات میں ’دشمن کی مدد کرنے‘ کا الزام شامل ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ میننگ کا عمل امریکی قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے اور فوجیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔دوسری جانب میننگ نے کہا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو امریکی فوجی آپریشنز کے بارے میں سچ جاننا چاہیئے-

وکی لیکس کو خفیہ فوجی دستاویزات فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار امریکی فوجی کا کورٹ مارشل کرنے یا نہ کرنے کا تعین کرنے کے لیے فوجی عدالت میں جاری سماعت مکمل ہوگئی ہے۔اس سے قبل گزشتہ روز سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے ماہرین نے بیانِ حلفی دیتے ہوئے پریزائڈنگ افسر کو بتایا تھا کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ملزم نے خفیہ دستاویزات کو ڈاؤن لوڈ کرکے ڈسکس پہ محفوظ کیا تھا جنہیں بعد میں 'وکی لیکس' کو فراہم کیا گیا۔

سماعت کے دوران میننگ کے وکلائ نے اپنے موکل کو مشکل میں گھرا ایک ایسا شخص قرار دیا جسے ان کے بقول نومبر 2009ئ سے مئی 2010ئ تک عراق میں اس کی تعیناتی کے دوران خفیہ سرکاری دستاویزات تک رسائی نہیں دی جانی چاہیے تھی۔

وکلائے صفائی نے خفیہ معلومات کے حامل کمپیوٹرز کے حفاظتی انتظامات کو بھی ناقص قرار دیتے ہوئے کاروائی کے دوران بیانِ حلفی دینے والے گواہوں کے حوالے سے کہا کہ فوجی ان کمپیوٹرز پر ویڈیو گیمز کھیلا کرتے تھے۔میننگ پر الزام ہے کہ اس نے وہ خفیہ سرکاری دستاویزات 'وکی لیکس' کے حوالے کیں جن تک اسے بطورِ فوجی تجزیہ کار رسائی حاصل تھی۔ 'وکی لیکس' نے بعد ازاں جولائی 2010ئ سے ان دستاویزات کی اشاعت شروع کردی تھی۔میننگ کی فراہم کردہ سفارتی کیبلز اور دیگر خفیہ فوجی دستاویزات کے اجرا نے عالمی برادری میں ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھا کیوں کہ ان میں کئی عالمی رہنماﺅں کی نجی اور عوامی زندگیوں کے متعلق امریکی اہلکاروں کے تلخ تبصرے بھی موجود تھے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ 'وکی لیکس' کی جانب سے خفیہ دستاویزات کی اشاعت سے نہ صرف لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑیں بلکہ امریکہ کی قومی سلامتی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کےساتھ اشتراکِ عمل کی امریکی کوششوں کو بھی دھچکا پہنچا۔چوبیس سالہ بریڈلے میننگ سے سوال کرتے ہوئے -

امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور کے نزدیک واقع ایک فوجی مرکز میں ہونے والی سماعت کے دوران میں فوجی عدالت کے جج نے کہا کہ استغاثہ کو اپنے اس الزام کے حق میں دلائل دینا ہوں گے کہ میننگ نے اپنے مبینہ اقدامات کے ذریعے بالواسطہ طور پر القاعدہ کی مدد کی۔ اس بات کا بھی تعین ہونا باقی ہے کہ کیا میننگ نے خفیہ سفارتی دستاویزات کو سرکاری کمپیوٹرز سے کامپیکٹ ڈسکوں پر اتارا تھا جو بعد ازاں وکی لیکس کو بھیج دی گئی تھیں۔میننگ پر لاکھوں کی تعداد میں خفیہ سفارتی مراسلے اور عراق اور افغانستان کی جنگ سے متعلق خفیہ امریکی فوجی دستاویزات اِفشا کرنے کا الزام ہے۔ لیکن یہ الزام صداقت سے دور اس لئے بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو کام اکیلے میننگ نے کیا ہے کیا وہ اس کی صلاحیت رکھتا تھا، یہ کام تو سینکڑوں افراد پر مشتعمل ایک دفتر ہی کرسکتا ہے۔ وکلائے صفائی فوجی کمپیوٹرز کی نگرانی کو بھی خام قرار دیتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب عدالت میں کاروائی شروع ہوئی تو مننگکے حامی احتجاج کے لیے جمع ہو گئے۔ یہ دن میننگ کے لئے یوں بھی یادگار تھا کہ یہ میننگ کی سالگرہ کا دن بھی تھا۔سینکڑوں احتجاجی مظاہرین نے کہا کہ وہ سپاہی ماننگ کے ساتھ ہر ممکن طریقے سے یکجہتی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اس فوجی اڈے کے کمپاؤنڈ کے گیٹ کے باہر مارچ کیا، جہاں اس کیس کی سماعت ہو رہی ہے۔ بعض ڈرائیوروں نے اس کی حمایت میں زور زور سے ہارن بجائے، لیکن سابق فوجی خاتون ایلن بارفیلڈ نے کہا کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں ماننگ ہیرو ہیں۔ ان کے مطابق ”ایسے لوگ جن کے پاس ایسی اطلاعات ہیں جو عام لوگوں کو معلوم ہونی چاہئیں، اور وہ انہیں ظاہر کر دیتےہیں، میں انہیں ہیرو سمجھتی ہوں۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کیا بریڈلے ماننگ نے یہی کچھ کیا تھا، لیکن ان پر الزام اسی چیز کا لگایا گیا ہے، اور ہم میں سے بہت سے لوگ، خاص طور سے جو لوگ یہاں موجود ہیں ، وہ سب، انہیں ہیرو سمجھتے ہیں۔“کارٹونسٹ سیتھ ٹابکمین نے، جو احتجاج کے نئے سائن بنا رہے تھے، کہا کہ جب سے سماعتیں شروع ہوئی ہیں، ماننگ انہیں مسلسل متاثر کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”میں نے انہیں عدالت میں دیکھا ہے اور میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ بہت مضبوط ارادے ے کے مالک ہیں۔ انہیں اپنا حوصلہ بلند رکھنا چاہیئے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اسی پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے۔“

ماننگ انٹیلی جنس کے تجزیہ کار تھے اور بغداد میں تعینات تھے۔

ماننگ کے وکیل کہتے ہیں کہ ان کی دلیل یہ ہوگی کہ جو اطلاعات افشائ کی گئیں، ان سے کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوا۔ احتجاجی مظاہروں کے ایک منتظم، جیف پیٹرسن کا تعلق کریج ٹو رزسٹ نامی تنظیم سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم بریڈلے ماننگ کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ہم ان کی قانونی ٹیم کی مدد کریں گے، ہم رائے عامہ کو تبدیل کریں گے تا کہ لوگ سمجھ جائیں کہ بریڈلے ماننگ ہر لحاظ سے ایسی شخصیت ہیں جنھوں نے غلط کاریوں کو بے نقاب کیا ہے۔

ان کے حامی کہتے ہیں کہ انھوں نے جو اطلاعات افشاء کیں، ان سے عرب موسمِ بہار کے لیے جوش و جذبہ پیدا ہوا جس کے نتیجے میں اس سال شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں کئی آمرانہ حکومتوں کا تختہ الٹ گیا، اور امریکہ میں دھرنا دینے کی تحریکیں پیدا ہوئیں۔ امریکہ میں برپا تحریکوں نے بڑی بڑی کمپنیوں کے لالچ اور انتظام کی ناقص صلاحیتوں کو نشانہ بنایا۔ بہت سے لوگوں کو امریکہ کے بہت سے شہروں کی اکوپائی تحریکوں سے بسوں کے ذریعے احتجاج کے لیے آئے تھے۔ میننگ کے حامی کہتے ہیں کہ بریڈلے میننگ کو آزاد کرانے کی جنگ، ایک بڑی تحریک کا حصہ ہے۔ انہیں امید ہے کہ یہ جنگ چند مہینوں میں امریکی موسمِ بہار کی شکل اختیار کر لے گی۔پرائیویٹ فرسٹ کلاس بریڈلی میننگ کی آزادی کے لئے ہونے والا یہ مظاہرہ فورٹ میڈ میری لینڈ کے اس مقام پر ہوا، جہاں بریڈلی میننگ کو ایک فوجی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا ،وہائٹ ہاؤس اور امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کے انکشافات نے لوگوں کی زندگیوں اور امریکی سلامتی کےلئے خطرات پیدا کئے۔ ان کے مطابق ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کچھ حساس معلومات کی حفاظت کی جانی چاہئے ، جن کا عام ہونا لوگوں اور تعلقات کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔دفاعی تجزیہ کاربھی بریڈلی کے اقدام سے اتفاق نہیں کرتے۔ مائیکل اوہنلن کہتے ہیں کہ اتنی ہزاروں دستاویز کو جاری کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا ، شاید چند سو دستاویز ایسی ضرور ہوں ، جن کے بارے میں آپ کو لگتا ہو کہ حکومت ٹھیک نہیں کر رہی ، اور آپ یہ بات ثابت کر سکیں۔لیکن اب یہ بات واضح ہے کہ بریڈلے میننگ کو آزاد کرانے کی جنگ، ایک بڑی تحریک کا حصہ ہے۔جو امریکی عوام میں ایک مثبت تبدیلی کا اظہار بھی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا آگے جاکر میننگ کی رہائی کی تحریک اور اصولوں کی یہ جنگ چند مہینوں میں امریکی میں مثبت تبدیلی کا پیغام ہوگا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387234 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More