مجرم تو اور بھی بہت ہوں گے
اور طرح طرح کے ہوں گے مگر آئینے سے بڑا مجرم کوئی نہیں۔ ایک آئینہ ہی تو
ہے جس نے قدم قدم پر خوش فہمی کے جال بچھائے ہیں اور جسے دیکھیے وہ خوش
فہمی، خوش گمانی اور خود فریبی میں مُبتلا ہے۔ آئینے میں جھانکنے والا
سمجھتا ہے کہ اِس کائنات میں صرف وہ ہے، اور کوئی نہیں۔ اور پھر وہ کبھی
گریبان میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔
سیاست ہو یا معیشت، اُمورِ خانہ داری ہوں یا معاشرت، ساری خرابیاں صرف اپنے
وجود کی حد میں رہتے ہوئے سوچنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ ہم سب ”میں ہوں نا“ کے
خبط میں مبتلا ہیں۔ اِس ایک خبط نے ایسی ان گنت ”ہستیاں“ پیدا کی ہں جو
دُنیا کو تنِ تنہا چلانے کی دعویدار ہیں اور دعوٰی بھی ایسا ٹھوس جیسے
دوسروں کے عزم اور حوصلے کی تو کوئی حیثیت ہے ہی نہیں۔
”مجھ سے اچھا کون ہے؟“ والی سوچ نے سب سے زیادہ ہنگامے علم و فن اور سیاست
کی دنیا میں برپا کئے ہیں۔ کچھ نہ کرنے والے بھی اِس خبط میں مُبتلا ہیں کہ
اُن کا شعبہ کچھ اُنہی کے دم قدم سے آباد ہے، چل رہا ہے۔ مرزا تنقید بیگ
بھی ایک زمانے سے اِسی خبط میں مبتلا ہیں کہ اُن سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ ہم
نے بھی بہت غور کرنے پر محسوس کیا ہے کہ واقعی اُن سے بڑا .... کوئی نہیں!
ہم نے بارہا سوچا ہے کہ ہمارے ہاں نرگسیت (خود پسندی، خود فریبی) کا مرض
کیوں عام ہے۔ مِرزا نے، جو دُنیا کے ہر سوال کا جواب جانتے ہیں یا سوچ لیتے
ہیں، چند جُملوں میں بحث سمیٹ دی۔ فرماتے ہیں۔ ”اپنے آپ میں گم رہنا اور
اپنے آپ کو سب سے بہتر اور برتر تصور کرنا مرض نہیں، علاج ہے۔“
ہم نے حیران ہوکر کہا کہ دُنیا بھر میں نفسی اُمور کے ماہرین نرگسیت کو مرض
قرار دیتے ہیں اور آپ اِس علاج ٹھہرا رہے ہیں۔ کِس بُنیاد پر؟
مِرزا نے ماہرین کے ذکر پر پہلے تو آنکھیں بند کرکے لاحول سے صوتی مشابہت
رکھنے والا کوئی وظیفہ پڑھا۔ پھر آنکھیں کھول کر بہ آوازِ بلند ماہرین پر
لعنت بھیجتے ہوئے کہا۔ ”ماہرین کو کیا خاک معلوم ہے؟ اگر اُنہیں کچھ آتا تو
ماہرین نہ ہوتے، کوئی ڈھنگ کا کام کر رہے ہوتے۔ نرگسیت کو مرض قرار دینے
والوں سے یہ تو پوچھو کہ جب اِنسان کے بس میں کچھ بھی نہ ہو تو کیا کرے۔
ایسے میں اپنے آپ میں گم رہنا اور خود کو دوسروں سے بہتر اور برتر تصور
کرنا ہی بہترین آپشن ہوتا ہے۔“
ہم نے اعتراض کیا کہ یہ کیفیت تو منشیات کے استعمال سے بھی پیدا ہوتی ہے۔
جب اِنسان کِسی نشہ آور چیز کے زیرِ اثر ہوتا ہے تو زیادہ سُکون پاتا ہے۔
مِرزا نے حیرت انگیز طور پر ہماری تائید کرتے ہوئے کہا۔ ”اِس میں کیا شک ہے
کہ نرگسیت بھی نشا ہے۔ اور نشا بھی ایسا کہ اِنسان جان سے جاتا ہے تو جائے،
نشا ہرن ہونے کا نام نہ لے۔ شراب، ہیروئن، چرس، افیم اور دوسرے بہت سے نشوں
کا سردار کہیے تو یہی نرگسیت۔ جب نرگسیت کے آغوش میں بیٹھ لیے تو پھر کون
سا نشا ہے کہ قریب پھٹک بھی سکے؟“
ہم نے ایک بار پھر مِرزا سے اختلاف کرتے ہوئے گزارش کی کہ اِنسان کو چھوٹی
سی زندگی میں بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ نرگسیت اگر ساتھ لیکر ایک
طرف بیٹھ جائے تو وہ سارے کام ادھورے پڑے رہ جائیں گے۔“
مِرزا نے جو کچھ ماہرین کے بارے میں کہا وہی کچھ ہمارے ”حق“ میں دُہراتے
ہوئے جواب دیا۔ ”زندگی چھوٹی سی اور ارمان بڑے بڑے۔ کون ہے جو اپنے سارے
ارمان نکال سکا ہے؟ لوگ زندگی بھر دِل کی مُرادیں پانے کی کوشش کرتے رہتے
ہیں اور بار بار ناکام ہونے پر غم کے دریا میں ڈوبتے جاتے ہیں۔ ایسے میں
کیا یہ اچھا نہیں کہ اِنسان اپنے آپ میں گم رہے؟ ارمان پالے گا تو ناکامی
پر دُکھ بھی ہوگا۔ ایک تو ہے ہماری، تمہاری دُنیا۔ اور ایک ہے نرگسیت کی
دُنیا۔ اِس دُنیا میں قدم رکھو اور سارے دُکھوں سے نجات پا جاؤ“
ہمارے اہلِ سیاست کا المیہ یہ تھا کہ وہ غُلیل جیسی صفات کے حامل ہونے پر
بھی خود کو توپ سمجھتے تھے۔ اِس ذہنی مرض نے خرابیوں کا ایک طویل سلسلہ
پیدا کیا۔ قوم حیران اور پریشان تھی کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو راہ نُمائی کا
دعوٰی کرتے ہیں اور خود راہ سے ہٹے ہوئے ہیں!
ہر سیاست دان نے سیاسی سرگم کے دیگر تمام سُر اور راگ مالا چھوڑ کر ”میں
ہوں نا“ کا راگ دانتوں سے پکڑ لیا۔ جسے دیکھیے وہ یہی کہتا پھرتا تھا کہ سب
کچھ اُس کے دم قدم سے ہے۔ اگر وہ نہیں ہوگا تو کچھ نہ رہے گا۔ بعض منچلے
جاتے جاتے ”ملک کا خدا حافظ“ کہنے کے بجائے ”ملک کا خدا ہی حافظ“ کہا کرتے
تھے! گمان اور بھرم یہ تھا کہ وہ نہ ہوں گے تو سب کچھ ختم ہو جائے گا! کوئی
اُن سے پوچھے جب وہ نہیں تھے تب دُنیا تھی یا نہیں تھی!
ہمارے نصیب میں اہلِ سیاست بھی وہ آئے ہیں جو چھوٹے موٹے مسائل کو کِسی
گِنتی میں رکھنے کے قائل نہیں۔ کوئی بڑا مسئلہ سامنے نہ ہو تو کیا روئیں
اور کیا گائیں؟ لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، کساد بازاری، اسٹریٹ
کرائمز اور دہشت گردی جیسے چھوٹے موٹے مسائل کے بارے میں کوئی کیا فکر مند
ہو! کوئی بڑی الجھن ہو تو کچھ کیا بھی جائے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب تو قومی
سلامتی کو لاحق خطرات کی بھی کوئی وقعت نہیں رہی۔ اقتدار میں شرکت کا جھگڑا
کیا کم ہے جو کِسی اور جھگڑے کی طرف دیکھیں؟ عوام کو مسائل کے مگر مچھوں کے
حوالے کرکے اہلِ سیاست مفاہمت یعنی اقتدار کی کشتی میں سوار ہونے کے لیے بے
تاب ہیں۔
فی الحال تو حالت یہ ہے کہ کِسی کو بظاہر کچھ فکر لاحق نہیں کہ ملک اور قوم
کا کیا بنے گا۔ سبھی فُرصت کے دریا میں تیر رہے ہیں اور مزید فُرصت تلاش کر
رہے ہیں۔ بقول غالب
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فُرصت کے رات دِن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے!
اب اگر ایسے میں عوام کا بھی خیال آگیا تو ذہن بھٹکتے بھٹکتے عوام کی طرف
چلا گیا تو ایک آدھ بیان مفادِ عامہ میں بھی داغ دیا۔ ورنہ تو وہی نرگسیت
ہے۔ یہ بھی خُدا کی قدرت ہے کہ جو لوگ قوم کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں وہ اب
تک خود کو تمام مسائل کا حل گردانتے ہیں! سِتم بالائے سِتم یہ کہ ماحول سے
متاثر ہوکر عوام بھی خود فریبی میں مبتلا ہیں اور مسائل پیدا کرنے والوں کو
حل سمجھتے ہیں۔ جنہیں زندگی بھر قریب سے دیکھا ہے اُن کی اصلیت بھی اب تک
کُھل نہیں پائی۔ بقول باقی صدیقی
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سُہانے لگے!
میڈیا کا اِضافی کمال یہ ہے کہ اُس نے عوام کے دِل و دِماغ سے تمام مسائل
نکال دیئے ہیں۔ چھوٹے موٹے مسائل کو تو کوئی خاطر میں لانے ہی کے لیے تیار
نہیں۔ اب ایک عام آدمی بھی خود کو تمام مسائل کا حل سمجھنے لگا ہے۔ جو اپنے
ذہن میں دُنیا، بلکہ کائنات کے تمام مسائل کے پائیدار حل کی دُکان سجائے
بیٹھا ہو وہ کیونکر تسلیم کرسکتا ہے کہ اُس کے بھی مسائل ہوسکتے ہیں! خود
فریبی زندہ باد! |