جمادات (Minerals, Stone بے حرکت کوئی نشو نما نہیں، کوئی نقل مکانی نہیں
اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ)، نباتات ( Plant نشو نما تو ہے مگر کوئی نقل
مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ) اور حیوانات (Animal سب کچھ ہے مگر
محدود سمجھ بوجھ اور جبلت کے باندھے ہوئے) اور ایک ہم اللہ تعالیٰ کی
شاندار مخلوق جسے اِرادہ (Freedom of Choice) اور خود مختاری دی گئی ہے اور
ہم جبلت کے بھی غلام نہیں جبکہ ہمیں عقل جیسے اِنعام سے نوازا گیا ہے کہ جو
علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ ہماری خودی (میں،
Self) سے کروا دیتا ہے حالانکہ ہمارے منفی جذبے، رویے اور غلط نقطہ نظر وہ
گرداب ہیں جن میں پھنس کر اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ بہت خوب گزر ہو رہی ہے
حالانکہ ہم ایک دائرے میں سفر کر رہے ہوتے ہیں جہاں منزل کی طرف کوئی پیش
رفت نہیں اور بعض اوقات ہمارے چور دروازے پستی کی طرف کھلے ہوتے ہیں اور ہم
سمجھتے ہیں کہ ہم دوڑ رہے ہیں مگر جتنا تیز دوڑتے ہیں اتنا ہی پستی کی طرف
چلے جاتے ہیں۔ بلندی اور ندرت اور کھلے آسمانوں کا سفر تو قدرت کے حسین و
جمیل تحفوں میں سے ایک تحفہ ہے وہ اِنہیں کو ملتا ہے جو اپنا قلب اِن تمام
ملاوٹوں (منفی جذبے، رویے اور خواہ مخواہ کے خوف) سے پاک رکھتے ہیں یہ
آئینہ جلا کا کام دیتا ہے اور ہمیں اپنی خود ی(میں Self) کے تمام زاویے اور
ثمرات ملتے ہیں جس کے ہم حقدار ہیں۔ اِسی خودی (Self) کا سفر بھی کیسا کہ
نڈر اور بے پرواہ کوئی خوف نہیں نہ کوئی ملمع کاری خوشی کے وقت ہنسنا اور
حقیقی خوشی اور تکلیف کے وقت رونا کوئی دکھلاوا نہیں اور کوئی غرض نہیں اور
نہ ہی کسی کیلئے دھوکہ دہی کہ یہ ہمارا وہ بچپن ہے کہ جہاں خودی(Self) اپنی
موج میں رواں دواں ہے۔ اب زندگی کے رنگ بدلتے ہیں اور نفرتوں، خواہشوں کے
گرداب میں پھنس کر اور کبھی خود پسندی کے فریب میں ہم اپنی خودی (Self) سے
دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہمارے درمیان یہ پردوں کی طرح حائل ہوتے جاتے
ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ہمارا رشتہ ہمارے ازل سے کٹ جاتا ہے۔
جس طرح ہمارا رابطہ اپنے ازل(اصل) اور کائنات سے اپنے اندر سے خودی (Self)
کے ذریعے ہوتا ہے اِسی طرح ہمارا بیرونی دُنیا سے رابطہ ہمارے ذہن (Mind)
کے مرہون منت ہے اور انسان کے سوچنے کی صلاحیت اس کو کائنات پر دراندازی (مداخلت)
کا موقع فراہم کرتی ہے اب جس طرف بھی نظر دوڑائیں گے آپ کو ایک طرف قدرت کے
شاہکار نظر آئیں گے اور دوسری طرف لوگوں کے جمے ہوئے خیالات بھی نظر آئیں
گے یعنی یہ ہماری تعمیر کردہ دُنیا (اشیا)، تعمیرات اور ایجادات۔ اب اگر
ایک لکڑی کی میز کو دیکھا جائے اِس کا خاکہ پہلے کسی اِنسان کے ذہن میں
تیار ہوا پھر اِن خیالات نے حقیقت کا رُوپ دھارا اور وہ ہمیں لکڑی کے میز
کی شکل میں منجمد نظر آئے اِسی طرح آپ تعمیرات کو دیکھیں اور ایجادات کو
دیکھیں تو یہ سب کے سب لوگوں کے خیالات کا انجماد ہی تو ہے کہ پہلے یہ خیال
ذہن میں نقشہ کی طرح بنا اور پھر ٹھوس (منجمد) شکل اختیار کر گیا جسے ہم
اِنسانی سوچ کا شاہکار بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ
خودی(Self) اِنسان کے اندر سے رابطے کیلئے کسی واسطے کی محتاج نہیں جبکہ
ذہن حواسِ خمسہ کا محتاج ہے یعنی ہمارے اندر معلومات ذخیرہ کرنے کیلئے پانچ
حواس ہوتے ہیں جن کے باعث یہ معلومات ذہن اپنے پاس ذخیرہ کرتا ہے (چکھنا،
چھونا، سونگھنا، دیکھنا اور سُننا) یہ وہ صلاحیتیں ہیں کہ جن کے بل بوتے پر
ایک انسان اپنا ذہن Mind بناتا اور اپنی اندر کی دُنیا تعمیر کرتا ہے۔
خودی(Self) کا کائنات سے رابطہ اور تعلق اِن سب واسطوں سے بے نیاز ہے (ادراک
ماورائے حواس ESP - Extra Sensory Perception )۔ اِس من کی دُنیا میں اگر
چشمہ خودی پھوٹ پڑے تو زندگی تپتے صحراؤں سے نکل کر سکون کی گھنی چھاﺅں میں
آ جاتی ہے اور اندر کا عکس بدل جاتا ہے اور باہر بھی شہکارِ قدرت کا نظارہ
ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ باطن میں مؤجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونے
سے کشف وجدان کے دھارے اور علم و عرفان کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور زندگی
خزاں سے موسمِ بہار میں آ جاتی ہے۔ اِس آگہی کی لذت ایک شخص تک محدود نہیں
رہتی بلکہ یہ بیرونی دُنیا پہ بھی براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے کہ آسمانوں
سے مینہ برستا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور قدرت کی طرف سے شاندار
استقبال کیا جاتا ہے اور اِس کائنات کا ذرہ ذرہ اِس لذت سے معمور ہوتا ہے
کہ جن کا الفاظ احاطہ نہیں کر سکتے اِسی کے دم سے پھلوں میں رس بھرا جاتا
ہے اور پھولوں میں خوشبو۔ بیماروں کو شفا ملتی ہے اور یہ نظر جس طرف اُٹھتی
ہے بہار ہی بہار آ جاتی ہے اور اِس نظر کی موج میں آنے والا ہر پل اپنے
اوپر ناز کرتا ہے اور ہر فنا اپنی بقاء دیکھتی ہے۔ اِس زمین میں زرخیزی آتی
ہے با الفاظِ دیگر اِس خودی(Self)کا کیا کہنا کہ جو لذت آشنائی سے لبریز ہے
اور ہم اِس کا تذکرہ قرآن کریم سے دیکھتے ہیں۔ سورة الکہف (آیت 60 تا 86)
کس شان سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کا تذکرہ کیا ہے جسے اللہ نے اپنا فضل
اور علم بخشا ہے۔ (آیت 79 تا 86) دیکھیں کس طرح سے میں سے ہم اور ہم سے
اللہ تعالیٰ کا تعلق بیان کیا گیا ہے (میں نے چاہا، ہم نے چاہا اور تیرے
اللہ نے چاہا) حالانکہ اِس واقعہ میں جو بیان کیا گیا ہے سارے کے سارے
واقعات ایک بندہ کے ہاتھ سے سرزد ہو رہے ہیں مگر اِن کی توجیہہ میں ”میں“
سے اللہ تک کی رسائی کا پتہ ملتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے تھا۔ اِس
واقعہ میں شریعت اور طریقت کا شاندار امتزاج بیان کیا گیا ہے اور ایک بندے
کی ”میں“ کا اللہ سے تعلق بیان کیا گیا ہے۔ آشنائی کی لذت سے مامور دیے (چراغ)
تو ابد تک کیلئے روشنی بن جاتے ہیں اور یہ روشنی دوسروں کی رہنمائی کا
ذریعہ بنتی ہے اور ہماری زندگیوں میں روشنی اِنہی چراغوں کے دم سے ہے ورنہ
کائنات کا ردِ عمل ہر ظلم و زیادتی اور آہ پہ آندھی، طوفان اور زلزلوں کی
شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ کائنات ہر کرب کا اور مظلوم کی آہ کا جواب ضرور
دیتی ہے ۔
خودی (Self) کی لذت کا آپ کو اندازہ ہو چکا ہو گا مگر اِن ثمرات میں مراقبہ
کو جو اہمیت حاصل ہے وہ شاید کسی اور چیز کو نہیں اس عمل کو کرنا دراصل آپ
کو آپکی شعوریت کے قریب لاتا ہے اور یہ ایسا ہی عمل ہے جیسا ایک بنجر زمین
پر ہل چلانا اور پھر اِس کو دھوپ میں چھوڑ دینا تاکہ اِس کے اندر کی جڑی
بوٹیاں خود بخود فنا ہو جائیں اور زمین بیج بونے کے قابل ہو جائے اور اب
اِس میں بیچ لگا کر اِس کو پانی دیا جائے اور پھر اِسکے پودے کی نشونما کی
جائے اور پھر کہیں جا کر پھل نصیب ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے اِتنی ثابت قدمی
ممکن ہے کیونکہ الفاظ کے موتیوں کو تحریر کی لڑیوں میں پرونا تو آسان ہے
مگر مقامات آگہی میں غوطہ زن ہونا بڑے جگرے کی بات ہے البتہ گہرے سمندر میں
غوطہ زنی نہ سہی مگر کنارے کنارے رہ کر کچھ تو سیکھا (حاصل کیا) جا سکتا
ہے۔ (جاری) |