بارہ جون کو پاکستان کی نو منتخب حکومت نے یکم
جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال 14- 2013 کے لیے قومی اسمبلی میں تین
ہزار پانچ سو اکیانوے ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا، بجٹ خسارے کا تخمینہ
سولہ سو چوہتر ارب روپے لگایا گیا ہے۔ ٹیکس وصولیوں کا ہدف چوبیس کھرب روپے
رکھا گیا ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقر یر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ
حکومت جہاں سے آغاز کر رہی ہے، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ بجٹ خسارہ سات فیصد
تک پہنچ چکا ہے جسکی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ قرضوں کا بوجھ 14 ہزار
284 ارب کی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں
بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کی شرح 13 فیصد کے حساب سے بڑھی ہے،
مجموعی قرض میں 225 فیصد کے تناسب سے اضافہ ہوا۔ قرضوں کا حجم جی ڈی پی کا
65 فیصد ہوگیا ہے۔
بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا کر17 فیصد کردی گئی جس سے مہنگائی کی نئی
لہر آنے کا امکان ہے۔ سگریٹ، گھی، ڈبے کا دودھ، مشروبات، پان اور چھالیہ
سمیت متعدد اشیا مہنگی کی گئی ہیں۔گاڑیوں،بینکوں اور حاجیوں کی رجسٹریشن
فیس میںاضافہ کیاگیا، شادی ہالوں ،ہوٹلوں میںتقریبات اور ہزاریونٹ سے زاید
بجلی کے استعمال پر ود ہولڈنگ ٹیکس عاید کیاجائے گا۔ 2013-14ءکے بجٹ میں
ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ سرکاری
ملازمین کی تنخواہوں میں بالکل بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ عمارتی بلڈرز اور
ڈیولپرز پرٹیکس عاید کردیا گیا۔ مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 6 سے بڑھا
کر 9 فیصد کی گئی ہے۔ ڈبے کے دودھ پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی۔
درآمدی کینولا بیج پرچار سو روپے فی میٹرک ٹن ڈیوٹی لگادی گئی۔ چھوٹے
کاروباری قرضوں کے لیے 20 لاکھ روپے 8 فیصدمارک اپ پردینے، ترقیاتی بجٹ 340
ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ تعلیم مہنگی کردی گئی ہے۔ تمام
تعلیمی اداروں جن میں طالب علم کی سالانہ فیس 2 لاکھ روپے سے زائد ہوگی فیس
پر 5فیصد ایڈ جسٹیبل ایڈوانس ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔
نئی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ کو پاکستان کی اکثریت نے مسترد
کردیا ہے اور اسے عوام دشمن قرار دیا ہے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی مختلف
سیاسی جماعتوں نے وفاقی بجٹ کو مسترد کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب
اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا پہلا بجٹ ناکام
ترین ہے، سبسڈی ختم کرنے سے مہنگائی کی شرح میں 20 فیصد اضافہ ہوگا، سرکاری
ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا ظلم و زیادتی ہے۔ مہنگائی کی شرح جس
طریقے سے بڑھی ہے اسی تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا
چاہیے تھا۔ کھانے پینے کی اشیاءکے علاوہ بجلی پر سبسڈی ختم کرنے سے غریب
طبقہ پسے گا اور سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کرنے سے مہنگائی کی شرح میں
18 سے 20 فیصد اضافہ ہوگا۔ یہ عوام دوست بجٹ نہیں ہے۔ پاکستان تحرےک انصاف
نے وفاقی بجٹ کو اعدادو شمار کا گورکھ دھندا قرار دیا ہے۔تحریک انصاف کی
مرکزی سےکرٹری اطلاعات ڈاکٹر شیریں مزاری نے وفاقی بجٹ پر اپنا ردعمل ظاہر
کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی حکومت نے حقائق سے مکمل طور پر چشم پوشی کرتے ہوئے
محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اعدادوشمار کا پیچیدہ اور بے ثمر پلندہ
بجٹ کی صورت میں عوام کے سامنے رکھا ہے جس سے لوگ بری طرح مایوس ہوئے ہیں۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے اور جنرل سیلز ٹیکس کی شرح
کو 16 سے 17 فےصد تک بڑھانے کی حکومتی تجویز کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے
ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کو بالکل نظر انداز کر کے حکومت نے
ان کے زخموں کو جہاں تازہ کیا ہے وہاں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ سے
اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے
گا۔مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ اس بجٹ سے غریبوں کا کوئی تعلق نہیں ہے،
مہنگائی بڑھے گی اور حالات کنٹرول سے باہر ہوں گے۔ آئی ایم ایف کا ایجنڈا
ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار
نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے روایتی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں
کا بجٹ قرار دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ بجٹ میں اسٹیٹس کو کو برقرار رکھا گیا
ہے۔ جی ایس ٹی کی شرح سے مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر
اور مراعات یافتہ اشرافیہ کو نوازا گیا۔امیر جماعت اسلامی پاکستان
سیدمنورحسن نے قومی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غریب عوام کو اس بجٹ
میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ نئے ٹیکس لگا کر مہنگائی بڑھانے کا سامان
کیا گیا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے سے مہنگائی میں 5 فیصد اضافہ یقینی
ہو گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر سینیٹر چودھری شجاعت حسین نے کہا
ہے کہ بجٹ میں حکومت نے عوام سے جو وعدے کیے ہیں وہ پورے کیے جائیں تو اچھی
بات ہو گی۔
مولانا فضل الرحمن نے بجٹ کو عوامی توقعات کے برعکس قرار دیا ہے۔ لیاقت
بلوچ نے کہا ہے کہ جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ ، تھوک پرچون پر ٹیکس میں
اضافہ ، گھی ، آئل ، چینی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے سے مہنگائی کا
سیلاب آئے گا۔ قاری زوار بہادر نے وفاقی بجٹ میں فی حاجی پانچ ہزار روپے
ٹیکس کے اعلان کو لوگوں کو دینی فریضہ روکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ سنی
تحریک کے محمد ثروت اعجاز قادری نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کا پیش کردہ
بجٹ عوام کے لیے نہیں بلکہ آئی ایم ایف اور بیرونی آقاﺅں کی ایما پر بنایا
گیا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے کہا ہے
کہ بجٹ خوبصورت الفاظ اور اعداد و شمار سے مزین ضرور ہے مگر اسے عوامی بجٹ
نہیں قرار د یا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات شوکت
بسرا نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا پہلا ہی بجٹ عوام دشمن ہے۔ امراءکو
گاڑیوں کی ڈیوٹی میں چھوٹ دے کر رعائتیں دی گئی ہیں۔ غریب آدمی سے منہ کا
نوالہ بھی چھین لیا گیا ہے۔، شیخ رشید کا کہنا تھا کہ بجٹ میںغریب آدمی کے
لےے کچھ نہیں۔
کاروباری برادری نے بھی وزیر خزانہ کی طرف سے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں
اضافے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی وصولی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا
ہے۔کاروباری تنظیموں کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں
حکومت نے مشکل حالات میں بجٹ پیش کیا ہے۔کراچی چیمبرز آف کامرس کے سابق صدر
مجید عزیز نے اعتراض اٹھایا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جی ایس ٹی یعنی
جنرل جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 16 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی جو تجویز
پیش کی ہے وہ بلاجواز ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے پر نظرثانی کرنا
ہوگی کیونکہ ملک میں پہلے ہی مہنگائی ہے اور پیداواری لاگت میں اضافہ سے
ہونے سے مزید مہنگائی ہوگی۔ ٹیکسز میں تخفیف کی کر کے عوام کو سہولت دینی
چاہیے تھی جبکہ زراعت کے شعبے میں بھی خاطر خواہ ریلف نہیں دیا گیا۔ایف پی
سی سی آئی کے صدرزبیرملک نے کہا کہ سیلزٹیکس کی شرح میں اضافے کی بجائے کمی
کرنی چاہیے تھی جبکہ ودہولڈنگ ٹیکس سے گریز کرنا چاہیے۔ وفاقی بجٹ میں
سیلزٹیکس کی شرح میں اضافہ مہنگائی کا طوفان برپا کرسکتا ہے۔
معروف معیشت دان ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی شرح 16 فیصد
سے بڑھا کر 17 فیصد کرنا غریب عوام کو نچوڑنے کے مترادف ہے۔ اس سے مہنگائی
بڑھے گی، صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر
حفیظ پاشا نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے سے عام آدمی پر شدید معاشی
دباﺅ بڑھے گا۔ ماہر اقتصادیات پروفیسر میاں محمد اکرم نے کہا کہ سیلز ٹیکس
کی شرح میں ایک فیصد اضافے سے ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھے گی، غریب آدمی
بری طرح متاثر ہو گا۔بجٹ میں ٹیکس کی تجویز پر شدید تنقید کے بعد پاکستان
کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بجٹ باقاعدہ منظور نہیں ہوجاتا اس وقت تک سیلز
ٹیکس میں کیا گیا اضافہ واپس لیا جائے۔
دوسری جانب نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے پر سرکاری
ملازمین نے ملک بھر احتجاج شروع کردیا ہے۔ملازمین نے پارلیمنٹ کے گھیراؤ کی
دھمکی دی ہے ۔ آل پاکستا ن کلرکس ایسوسی ایشن نے احتجاجی ریلی نکالی اور
حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہوں میں اضافے تک احتجاج
کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا اور آخری مرحلے میں پارلمینٹ کا گھیراؤ کیا
جائے گا، جبکہ آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا نے تنخواہوں میں
اضافہ نہ کرنے کے خلاف صوبہ بھر میں سرکاری دفاتر کی تالا بندی کا اعلان
کیا ہے۔ملازمین کا کہنا ہے کہ بجٹ میں عوام پر مہنگائی کا بم گرا دیا گیا
ہے لیکن تنخواہوں میں اضافے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا جو تنخوادار طبقے
کا معاشی قتل ہے۔ تنخواہوں میں فی الفور اضافہ کیا جائے ورنہ اسلام آباد کا
گھیراؤ کیا جائے گا۔ |