ایک بار پھر مئی کا ستم گر مہینہ سر پر ہے۔ عجیب اتفاق ہے
کہ مئی کا مہینہ خصوصاً برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الم ناک رہا ہے۔اسی
مہینے کی 4تاریخ کو ٹیپو سلطان انگریزوں کے خلاف بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید
ہوئے۔ اسی مئی کے مہینے کی 6 تاریخ کو امام المجاہدین سید احمد شہید اپنے
مجاہد ساتھیوں کے ساتھ بالا کوٹ میں شہیدہوئے۔اسی مئی کی10تاریخ 1857ءکو
ہندوستان میں انگریز کے خلاف سب سے بڑی مسلح جدوجہد شروع ہوئی ۔ اسی مہینے
کی 2تاریخ کو سید احمد شہید کی راہ پر چلتے ہوئے امت مسلمہ کے ہیرو اسامہ
بن لادن ، شہادت سے سرفراز ہوئے اور پچھلے سال اسی مئی کی تاریخ تھی جب
داعی قرآن اسلم شیخوپوری صاحب کراچی کی سڑک پر بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔
اس بار 2013ءکے مئی کا مہینہ پاکستان کے لیے اس لیے بھی انتہائی اہم ہے کہ
اسی مہینے کی گیارہ تاریخ کو پاکستان میں انتخابی معرکہ ہے۔ وہ دن جسے
تبدیلی کادن کہا جا رہا ہے۔ بہرحال ہمارا آج کا موضوع انتخابی معرکہ نہیں
بلکہ وہ عظیم مسلح جدوجہد ہےجو آج سے ٹھیک ایک سو چھپن سال پہلے ہندوستان
کے شہر میرٹھ سے شروع ہوئی تھی اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں جبر و استبداد
کے خلاف جاری ہے۔ جی ہاںجیسا کہ اوپر ذکر کیا،پاکستان میں حالیہ انتخابات
کی تاریخ سے صرف ایک دن پہلے 10مئی اس حوالے سے ایک ناقابل ِفراموش تاریخ
ہے کہ اسی تاریخ کو آج سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل ایک بظاہر معمولی واقعے کے
سبب ہندوستانیوں کی غاصب انگریزوں کے خلاف سوا سو سال طویل جدوجہداس موڑ پر
پہنچی جو بالآخر ہندوستان کی آزادی پر منتج ہوئی اور جسے انگریز نے غدر کا
نام دیا۔1857ءکی یہ تاریخ دراصل ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں
ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ قدیم و جدید کے درمیان یہی وہ منزل ہے جہاں
سے ماضی کے نقوش بھی پڑھے جاسکتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کا جائز ہ بھی
لیا جاسکتا ہے ۔تاریخوں کی اسی مطابقت کی وجہ سے خیال ہوا کہ ذرا تفصیل سے
جنگِ آزادی کے پس منظر اور اس کے نتائج کا جائزہ لیا جائے کہ آج وطنِ عزیز
کی سیاسی و معاشی صورتحال غلام ہندوستان سے کم مخدوش نہیں ہے اوراس وقت کے
برطانوی استعمار کی طرح امریکی استعمار کی ریشہ دوانیاں بھی آج اپنے عروج
پرہیں۔
1857ءکی جنگِ آزادی کے کئی اسباب بیان کیے جاتے ہیں جس کا ایک فوری اور بڑا
سبب ہندو اور مسلمان سپاہیوں کو کمپنی کی طرف سے دیے گئے وہ کارتوس قرار
دیے جاتے ہیں، جو عام خیال کے مطابق گائے اور سور کی چربیسے آلودہ تھے اور
انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے پہلے دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ مسلمان اور
ہندو سپاہیوں نے اسے اپنے اپنے دین کے منافی سمجھا اور ان کے دلوںمیں گورے
آقاؤں کے خلاف نفرت کا دبا لاوا ابل پڑا۔اکثر سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو
استعمال کرنے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے ان کی فوجی وردیاں اتار کر
انہیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔9مئی 1857ءکو میرٹھ میں ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو
دس سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔اس سزا کو سن کر مقامی سپاہیوں نے بغاوت
کر دی اور انہوںنے انگریز افسروں کو ہلاک کرکے اپنے قیدیوں کو آزاد کرا لیا
اور مشتعل ہجوم کی صورت میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے۔میرٹھ کے سپاہیوں
کی دہلی میں آمد سے دہلی میں بھی حریت کی ایک لہر اٹھی اور حریت پسندوں نے
مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے
بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔
عموماً 1857ءکی جنگ ِ آزادی کو ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف آزادی کی
پہلی مسلح جنگ کہا جاتا ہے اور کارتوس والے واقعے کو اس جنگ کا پیش خیمہ
لیکن یہ دونوں باتیں حقائق کے منافی ہیں۔ نہ یہ ہندوستانیوں کی انگریزوں کے
خلاف پہلی مسلح جنگ تھی اور نہ ہی صرف ناپاک کارتوسوں والا واقعہ1857ءکی
جنگ آزادی کا اکلوتا سبب تھا۔اگر ہم اورنگزیب عالمگیر کی وفات 1707ءکے بعد
سے لے کر 1857ءتک کے ایک سو پچاس سال کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو ہمیں
چھوٹے بڑے بہت سے چراغ آزادی ¿ ہند کی راہ میں 1857ءسے پہلے روشن نظر آئیں
گے۔شہداءکے خون سے روشن ان چراغوں کی لَوآزادی کے متوالوں کے دلوں میں
سلگتی رہی جو بالآخر 1857ءمیں بھڑک کر ایک بڑی مسلح جدوجہد میں تبدیل ہو
گئی۔یوں تو ان روشن ناموں کی ایک طویل فہرست ہے کہ سرزمینِ برصغیر اپنی
مردم خیزی اور حریت پسندی کی بنا پر زمین کے کسی بھی اور ٹکڑے سے کم نہیں،
لیکن چند نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، جن کیسمجھ بوجھ، شجاعت اور مسلح
مزاحمت کی وجہ سے انگریزکے لیے ہندوستان میں اپنے اہداف حاصل کرنا بے حد
مشکل ثابت ہوا اور ان کی وجہ سے 1857ءکی جنگِ آزادی اور بالآخر ہندوستان سے
انگریزوں کے اخراج کی منزل قریب ہوئی۔ہم انہی سرفروشوں کا مختصر تذکرہ ذیل
میں کریں گے۔
آزادی کی راہ میں ہمیں پہلا چراغ علی وردی خان کا روشن نظر آتا ہے۔بنگال کے
نواب علی وردی خان نے ہی سب سے پہلے انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ کی ۔یہ
جنگ مغربی بنگال کے دارالحکومت کلکتہ میں 1745ءہوئی جو جنوبی ہندوستان میں
انگریزوں کاسب سے پہلا مرکز تھا۔ کلکتہ کا ڈائمنڈ ہاربر اور فورٹ ولیم
انگریزوں کا مرکز تھا۔علی وردی خان نے فورٹ ولیم پر حملہ کر کے انگریزوں کو
وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور انگریز ڈائمنڈ ہاربر میں پناہ لینے پر
مجبور ہوئے۔ اسے غاصب انگریز کے خلاف ہندوستان کی پہلی منظم اور مسلح جنگ
قرار دیا جاسکتا ہے۔ علی وردی خاں اسکے بعد زیادہ دنوں زندہ نہیں رہے ۔ان
کے بعد ان کے جانشین اور نواسے نواب مرزامحمد سراج الدولہ حاکم ہوئے۔نواب
بھی اپنے نانا کی طرح انگریزوںکو ملک کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے
تھے۔انہوںنے قلیل وسائل کے باوجود بڑے حوصلے اور ہمت کے ساتھ انگریزوں کے
بنگال میںمضبوط ہوتے قدم اکھاڑنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیابی
بھی حاصل کر لی لیکن ان کی بدنصیبی کہیے کہ خود ان کی صفوں میں اتحاد قائم
نہ رہا اوران کا دربار سازشوں کاگڑھ بن گیا۔ خود نواب کے کئی قریبی رشتہ
داروں نے غداری کا زہر پی کر انگریزوں سے اپنی قیمت وصول کی۔ ان میں اہم
نام نواب کی خالہ گھسیٹی بیگم اور ان کے چچا زاد بھائی شوکت جنگ کے بتائے
جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کی ریشہ دوانیوں اور اِن سے بڑھ کر نواب کی فوج کے
ایک بدفطرت سردار میر جعفر کی غداری نے( جس نے اقتدار کے لالچ میں انگریزوں
سے ساز بازکر لی تھی) نواب سراج الدولہ کو انگریزوں کے مقابلے میں بالکل بے
دست وپا کر دیا۔ آخرکار غداری رنگ لائی اور1757ءمیں جنگ پلاسی کے موقع پر
برٹش فوج نے نواب سراج الدولہ کو شکست فاش دی ۔کہا جاتا ہے کہ جنگ کے موقع
پر میر جعفر اور اس کے وفادار دستوں نے نواب کے کئی وفادار سالاروں کو قتل
کیا اور پھر جنگ سے الگ ہو گیا۔ نواب کا توپ خانہ بھی خرید لیا گیا تھا۔
نواب اس جنگ میں شہید ہوئے اور ان کی شہادت سے ہی بنگال میں ایسٹ انڈیا
کمپنی کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا اور اگلے دس برس سے بھی کم عرصہ میں یعنی
1765ءمیں انگریزایک شرمناک معاہدے ”معاہدہ ¿ الہ آباد“ کےذریعے بنگال، بہار
اور اڑیسہ پر حاکم ہو گئے۔
فرنگیوں کے خلاف مسلح مزاحمت میں، علی وردی خان اور ان کے نواسے سراج
الدولہ کے بعداگلا معتبر نام روہیلی سردار حافظ الملک حافظ رحمت خان کا
ہے۔حافظ رحمت خاں کا تعلق قندھار کے بڑھیچ قبیلے سے تھا۔آپ روہیل کھنڈکے
علاقے بریلی اورشاہ جہاں پورکے نواب تھے۔آپ ایک بے مثال سپہ سالار ہونے کے
ساتھ ساتھ علم وفضل اور تقویٰ وطہارت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ زبردست
ادیب وشاعر، بہترین حافظ قرآن اور علم پرور وعلم دوست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ
ان کی فوج میں علماومشائخ کی بڑی تعداد تھی جو انگریزوں کے ساتھ برسرپیکا
رہتی تھی۔ حافظ الملک نے انہیں علم وکمال کی بنیاد پر فوج میں اعلی عہدے دے
رکھے تھے۔حافظ الملک انگریزوں کے بہت سخت دشمن تھے۔ وہ کسی نہ کسی طرح
انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکالنا چاہتے تھے۔ چنانچہ1764ءمیں جب شجاع
الدولہ پٹنہ میں انگریزوں سے نبرد آزما تھا، اس نے حافظ الملک سے امداد طلب
کی توانہوں نے اپنے بیٹے عنایت خاں کی سرکردگی میں6ہزار آزمودہ کا رفوجی
روانہ کیے جنہوں نے پانی پت جنگ میں شرکت کرکے شجاع الدولہ کی مدد کی۔
آپ کی انگریز دشمنی کا شہرہ دوردور تک ہوچکا تھا۔اسی شہرت کی وجہ سے
انگریزان کو اپنے راستے کی بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔انہوں نے دھمکی، دباو ¿
غرض تمام ہتھکنڈے آزمائے لیکن حافظ صاحب کی بے مثل شجاعت، سمجھ بوجھ اور
نصرت خداوندی کی بناپر انگریزکافی عرصہ تک کسی منصوبے میں کامیاب نہ ہوسکے
۔آخر انہوں نے اپنا روایتی حربہ آزمانے کا فیصلہ کر لیااور ایک منظم سازش
کے تحت اسی شجاع الدولہ کو حافظ رحمت خان کے خلاف اپنا ہم نوابنا لیا جس نے
انگریزوں سے لڑتے ہوئے حافظ الملک سے مدد طلب کی تھی اور حافظ رحمت خاں نے
اس کی مدد بھی کی تھی ۔شجاع الدولہ نے انگریزوں کا حلیف بن کر حافظ الملک
کی ساری وفاداریوں کو فراموش کرکے پہلے تو سردارانِ روہیل کھنڈ کو حافظ
الملک کے خلاف برگشتہ کیا اور پھر تقریباً ایک لاکھ پندرہ ہزار فوج لے کر
ان پر چڑھائی کردی۔جنگ شروع ہونے سے پہلے حافظ الملک نے صلح جوئی کی کوشش
بھی کی لیکن انگریز اور شجاع الدولہ آپ کی جان کے درپے تھے، اس لیے ہر کوشش
بے سودگئی۔ آخر شہادت کی آرزو لیے جنگ کے لیے نکل پڑے۔ آپ کے شوقِ شہادت نے
آپ کو مہمیز کیا اور اپنے فوجیوں کے سامنے فرمایا:
”شہادت میرے دل کی آرزو ہے اپنے ملک کی حفاظت میں ایسی عزت کی موت مجھے پھر
کب آئے گی۔“میدان جنگ میں قدم رکھتے ہی حافظ الملک نے اپنی دلیری اور
بہادری کے جوہر دکھانے شروع کردیے۔وہ انگریزوں کوتہ تیغ کرتے ہوئے شجاع
الدولہ تک پہنچنا چاہتے تھے لیکن انگریزی فوج نے اپنی توپ کا دہانہ کھول
دیا اور گولہ باری شروع ہوگئی۔ عین اسی وقت آپ کے حلیف چند روہیلہ سرداروں
نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اوربھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھ کر پوری فوج منتشر
ہوگئی اور حافظ الملک کے پاس بہت کم فوجی رہ گئے لیکن پھر بھی حافظ الملک
نہایت جرا ¿ت وہمت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ آخر ایک گولہ ان کے سینے پر
لگا اور فوراً ہی آپ کی روح آپ کے جسم کے پنجرے سے آزادہوگئی۔جنگ کرتے ہوئے
حافظ الملک کی اس عظیم الشان شہادت کا واقعہ اپریل 1774ءمیں میران پورکٹرہ
میں پیش آیا۔حافظ الملک کی شہادت کے بعد جب انگریزوں نے روہیل کھنڈ پر قبضہ
کیا تو اتنی بے دردی سے لوٹ مار مچائی کہ زمین کانپ اٹھی۔ شجاع الدولہ کو
اس پورے علاقے کا حاکم بنادیا گیا،گویا یہ انگریز دوستی کا انعام تھا،جو
اسے دیا گیا۔حافظ الملک کی شہادت کے بعد روہیل کھنڈ کی زمین بنجر نہیں ہو
گئی بلکہ بہت بعد میں ان کے پڑپوتے نواب خان بہادر خان کا نام ہندوستان کی
آزادی کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔انہوںنے اپنی بے پناہ سیاسی
سوجھ بوجھ اور جوانمردی سے اپنے آپ کو اپنے پڑداداکا سچا جانشین ثابت کیا۔
اس شیردل مجاہد نے 31مئی 1857سے فروری 1857تک صرف آٹھ ماہ روہیل کھنڈ پر
آزاد اور خود مختار حکمراں کی طرح حکومت کی۔ اس چھوٹی سی مدت میں اگر چہ
مستقل طور پر جنگی معر کے جاری رہے لیکن اس کے ساتھ ہی خطے میں بہترین نظم
ونسق اور عوام کی فلاح وبہبود کے حوالے سے بھی خان بہادر خاں نے شاندار
مثال قائم کی۔آزادی کی جنگ پوری طرح ہار جانے کے باوجود شیر دل نواب نے
آخری سانس تک کافر انگریزں کے خلاف جہاد جاری رکھا۔ وہ تھوڑے سے جاں نثار
وں کے ساتھ انگریزوں پر گوریلا حملے کرتے اور زبردست نقصان پہنچاکر جنگلوں
میں چھپ جاتے۔ ایک گوریلا حملے کے وقت خان بہادر خاں بری طرح زخمی ہوکر گر
گئے۔ انگریزوں نے انہیں گرفتار کرلیا۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ مگر یہ مقدمہ
تو ایک قانونی ڈھونگ تھا۔ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ انہیں پھانسی کی سزا کا
حکم سنا دیا گیا۔ مولانا غلام رسول مہر کے مطابق 1860ءمیں انہیں پھانسی پر
لٹکا دیا گیا۔یوں روہیل کھنڈ کا بہادر سپوت نواب خان بہادر خاں بھی اپنے
پڑدادا اوردوسرے مجاہدین کی طرح مادروطن پر قربان ہوگیا۔
حافظ الملک رحمت خان کا انگریزوں کے ساتھ جب یہ معرکہ ہو رہا تھا، اسی وقت
حافظ صاحب کے ہم عصر جنوبی ہند کی سلطنتِخداداد میسور کے حکمراں حیدر علی
اور ان کے مایہ ناز صاحبزادے ٹیپو سلطان انگریزوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بن
کر ابھر رہے تھے۔ فتح علی ٹیپو سلطان کے لیے مفکراسلام حضرت مولانا
ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”سب سے پہلاشخص جس کو(انگریزوں کے) خطرے کا(وسیع پیمانے پر)احساس ہوا،وہ
میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان تھا، جس نے اپنی
بالغ نظری اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی کہ انگریزاسی طرح ایک
ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے
مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ ¿ تربن جائے گا، چنانچہ انھوں
نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی
تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے۔“
ان دونوں باپ بیٹے نے اپنے جذبہ ایمانی ،بے مثل شجاعت اور سمجھداری سے
جنوبی ہند میں انگریزی استعمار کوپینتیس سال تک روکے رکھا اور ا پنی
جارحانہ کارروائیوں کی وجہ سے انگریزوں کے دانت کھٹے کر دیے۔ان کی انگریزوں
کے خلاف جنگوں کے احوال پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اگر کمپنی
کسی سے خائف اور غالب ہوئی تو وہ یہی میسور کے حکمراں تھے۔حیدر علی اور ان
کے بعد ٹیپوسلطان نے بے مثل سیاسی قابلیت اور تدبر کا ثبوت دیا۔ اپنی فوج
کو وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید ترین اسلحے سے لیس کیا اور میدانِ جنگ میں
کئی بار انگریزوں کو شکست و ہزیمت سے دوچار کیا۔ یہاں تک کہ1784ءمیں
انگریزسلطان سے صلح کرنے پر مجبور ہو گئے۔لیکن معاہدے کے باوجود انگریزاپنی
فطری بدنیتیکی وجہ سے اور اپنے مکروہ عزائم کو پورا کرنے کے لیے اندرونِ
خانہ سازشوں میں مصروف رہے ۔ انہوں نے یہاں بھی وہی ترپ کا پتہ کھیلا جسے
وہ بنگال میں آزما چکے تھے، یعنی وفاداریاں خریدنے کا طریقہ.... یہ گھناو
¿نا طریقہ بالآخر میسور میں بھی کامیاب رہا اور انگریز، ٹیپو سلطان کے
دربار سے میر صادق، غلام علی اور دوسرے اہم عہدیداروں کو توڑنے میں کامیاب
ہو گئے۔ اپنے خریدے ہوئے غداروں کے اعتماد پر 1799ءمیں انگریزوں نے میسور
کی چوتھی جنگ چھیڑی اور اس مرتبہ غداری اور سازشوں کی دھند میں سلطان اپنی
کامیابیوں کا تسلسل قائم نہ رکھ سکے۔ سلطان کو شکست ہوئی اور وہ بالآخر
سرنگا پٹنم کے قلعے کے دروازے کے باہر بہادری سے لڑتے ہوئے اسی مئی کی 4
تاریخ کو 1799ءکو شہید ہو گئے۔سلطان کو انگریز اپنے مکروہ عزائم کی راہ میں
کتنی بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے اور ان کی شہادت انگریزوں کے لیے کتنی مسرت کا
باعث تھی، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ جب انگریز جنرل ہیرس کو سلطان کی
موت کی اطلاع ہوئی تو وہ چیخ اٹھا کہ ”اب ہندوستان ہمارا ہے۔“ انگریزوں نے
مذہبی رسوم ادا کرکے سلطان کیشہادت پر اظہارِ تشکر کیا اور اپنی فوج کو
انعام و اکرام سے بھی نوازا۔
ٹیپوسلطان کی شہادت کے بعدہندوستان میںانگریزوں کا عمل دخل انتہائی تیزی سے
بڑھتا چلا گیا۔اس وقت تک انگریزوں کے مشاہدے اور تجربے میںیہ بات آچکی تھی
کہ ہندوستان کی دو بڑی قوموں مسلمانوں اور ہندوؤں میں سے اب تک صرف
مسلمانوں ہی کی طرف سے شدید مزاحمت دیکھنے میں آئی تھی۔اس کی وجہ وہ یہ
سمجھتے تھے کہ تختِ ہندوستان پر اس وقت مسلمانوں ہی کی حکومت تھی، جس کو
عضو معطل بنا کر وہ ہندوستان میں اپنا دائرہ آہستہ آہستہ بڑھاتے جا رہے
تھے۔اسی سوچ کے تحت کمپنی نے اپنی ساری توجہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے
اور ان کی قوت توڑنے پر مرکوز کر دی۔ یہ وہی زمانہ تھا، جب ہندوستان کے طول
و عرض میں قائم کئی دینی مراکز کی جاسوسی سخت کی گئی اور ان میں سے کئی
مراکز کو مختلف بہانے بنا کر تباہ کر دیا گیا۔
اس انتہائی پستی کے دور میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی کاوشوں
سے ہندوستان کے خواص مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ بیدار ہونے لگا تھا۔ شاہ
صاحب سے تعلق رکھنے والے شاگرد اور مرید برما سے لیکر عرب ممالک اور افریقہ
تک پھیلے ہوئے تھے۔ حضرت شاہ صاحبرحمہ اللہ کے بعد ان کی درسگاہ کو حضرت
شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے آباد رکھاتھا۔ جو علم و سلوک کی
شمع روشن رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے والد محترم کی اتباع میں غاصب انگریز سے
آزادی کا جذبہ بھی اپنے شاگردوں اور مریدین کے دلوں میں پیدا فرماتے
رہے۔شہداءبالاکوٹ جو برصغیر سے انگریزوں کا اخراج اور ان کی غلامی سے آزادی
کی تحریک اور مسلمانوں میں جذبہ ¿ جہاد بیدار کرنے کی لازوال داستان کا
انتہائی اہم باب ہیں، حضرت شاہ عبدالعزیزرحمہ اللہ کے خوشہ چیں(کیا یہ
تعبیر صحیح ہے۔ فیصل)ہی تھے۔ اب تک انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے وہ
حکمراں تھے جن کے ساتھ اپنی سلطنت کی فوج تھی، اسلحہ تھا، وسائل تھے، لیکن
تحریک آزادی میںاگلے نام ان کے تھے، جنہوں نے خالی ہاتھ محض جذبہ ایمانی
اور شوقِ شہادت کے سرمائے پر فرنگیوں کے خلاف مسلح مزاحمت کے لیے افراد
تیار کیے۔ ان کے ظلم کے خلاف جہاد میں حب الوطنی ثانوی شے تھی، اولیت نیت
دین کے ایک حکم جہاد فی سبیل اللہ کو زندہ کرنے کی تھی، جو دین کا چوٹی کا
عمل کہلاتا ہے۔یہ عظیم نام مصلح امت امام المجاہدین حضرت سید احمد شہید
رحمة اللہ علیہ کا ہے جو بیک وقت عالم دین، شیخِ طریقت اور سرفروش مجاہد
تھے۔آپ کی ولادت بھارت کے صوبہ اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے ایک قصبہ
دائرہ شاہ علم اللہ میں ہوئی۔ بچپن سے ہی گھڑ سواری، مردانہ و سپاہیانہ
کھیلوں اور ورزشوں سے خاصا شغف تھا۔ والد کے انتقال کے بعد تلاشِ معاش کے
سلسلے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ لکھنو اور وہاں سے دہلی روانہ ہوئے، جہاں
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور ان کے بھائی حضرت شاہ عبد القادر دہلوی
سے ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات کی صحبت میں سلوک و ارشاد کی منزلیں طے
کی۔حضرت شاہ عبدالعزیزرحمہ اللہ انگریزوں کے سخت مخالف تھے۔انہوں
نے1803ءمیں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا،جس میں ہندوستان
کودارالحرب قراردیاگیاتھا۔ان حضرات کی رفاقت میں سید احمدشہید رحمہ اللہ کے
خیالات میں انقلاب آگیا اور آپحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی
تحریک اور انکے تجدیدی کام کو لے کر میدانِ عمل میں آگئے۔یہ وہ وقت تھا جب
ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت تقریباً فنا ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کی
بڑی بڑی سلطنتیں انگریزوں کی عمل داری میں آ گئی تھیں۔ مشرکانہ رسوم و
بدعات اسلامی معاشرے میں زور پکڑ رہے تھے۔ سارے پنجاب پر سکھ اور بقیہ
ہندوستان پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔حضرت سید احمد شہید نے اسلام کے پرچم
تلے فرزندانِ توحید کو جمع کرنا شروع کیا اور جہاد کی صدا بلند کی، جس کی
بازگشت ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیپال کی ترائیوں سے لیکر خلیج بنگال کے
کناروں تک سنائی دی ۔حضرت سید صاحب اپنے معتمدساتھیوں شیخ الاسلام مولانا
عبدالحی رحمہ اللہ اور مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے ساتھ خاموشی
سے افراد سازی کے ساتھ ہتھیار جمع کرنے کا کام کرتے رہے۔ اس مقصد کے لیے
انہوں نے ر ائے بریلی سے نکل کر مونگیر، بہار اور بنگال، گوالیار ،ٹونک،
اجمیر، پالی اور پھر سندھ وغیرہ کا دورہ کیا۔ وہاں کے امراءو رؤسا ءکو صحیح
صورتحال سے آگاہ کر کے جہاد کیلئے آمادہ کیا۔پورے سفر میں لوگوں نے ان کا
والہانہ استقبال کیا۔آپ نے سرحد کے مقام کو اپنا مرکز بنایا ، کیوں کہ سید
صاحبرحمہ اللہ کی نگاہ کے سامنے ان لوگوں کا انجام تھا جنہوں نے ہندوستان
کے کسی حصہ کو اپنی تحریک اور جنگی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور بہت جلد ان
کے گرد سازشوں، مخالفتوں اور ریشہ دوانیوں کا ایک جال پھیلادیا گیا جس میں
وہ جکڑتے چلے گئے۔ انگریزوں کی زیرک اور سازشی قوم ہر حوصلہ مند قائد اور
اپنے ہرمخالف کے لیے ایسے حالات پیدا کردیتی تھی کہ اس کی جنگی کاروائیوں
اور آزادانہ سرگرمیوں کا میدان تنگ سے تنگ ہوتا چلا جاتا تھا اور وہ محسوس
کرتا تھا کہ وہ ایک قفس میں محبوس ہے۔ یہ سید صاحب کی بہت بڑی سیاسی بصیرت
تھی کہ انہوں نے ہندوستان کے اندر اپنی مجاہدانہ سرگرمیوں کا مرکز نہیں
بنایا‘ جس کے لیے بہت جلد ایک ایسا جزیرہ بن جانے کے قوی امکانات تھے جس کے
چاروں طرف مخالفتوں ‘ مزاحمتوں اور سازشوں کا ایک سمندر پھیلا ہوا ہوتا اور
جس کو کہیں سے کمک یا رسد ملنے کی کوئی توقع نہ رہتی۔ چنانچہ اسی وجہ سے
اور سکھوں کے مسلمانوں پر روز بروز بڑھتے ظلم کی وجہ سے آپ نے ہندوستان کی
شمال مغربی سرحد کو ہی اپنا مرکزِ جہاد چنا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ
وہاں انگریزوں اور سکھوں کی عملداری نہ تھی اور پنجاب چونکہ سرحد سے متصل
تھا اس لئے یہ طے ہوا کہ اس مرکز میں مضبوط ہو کر سکھوں سے مقابلہ کیا جائے
انہیں شکست دینے کے بعد ہندوستان میں انگریزوں سے جہاد کیا جائے۔(حوالہ:
بریلی سے بالاکوٹ، قمر امجد عثمانی)
انگریزوں نے ان کی تحریک کی نوعیت کوخوب سمجھ لیا تھا اوروہ اس جذبہ سے بھی
بے خبرنہ تھے جوجماعت ِمجاہدین کے قلب وجگر کوگرمائے ہوئے تھا۔ چنانچہ
انہوں نے ایک طرف تو وہابی کا لقب دے کراس مکتبہ خیال کے لوگوں کوختم کیا
اوردوسری طرف کوشش کرکے اس تحریک کواس طرح پیش کیا اور کرایاجس سے بعد کے
لوگوں کویوں محسوس ہونے لگا گویا اس کا رخ محض سکھوں کی طرف تھا۔بہرحال
حضرت مجاہدین کو لیے شمال مغربی سرحد پر پہنچے اور سکھوں سے جنگ کر کے
مفتوحہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کیے۔ لیکن جن سازشوں، غداری اور بے
وفائی کے خدشات آپ کو سرحد لے کر آئے تھے، یہاں بھی وہی کھیل کھیلا گیا
اوربرا ہو قبائلی عصبیت کا آپ کی بے مثال جدوجہد اور کامیابیوں کو بالآخر
غداری کا ناسور لے ڈوبا۔1831ءمیں رنجیت سنگھ کی سازشوںکے نتیجے میں بعض
مقامی سرداروں نے بے وفائی کی اور بالاکوٹ کے میدان میں سید صاحب، شاہ
اسماعیل اور دوسرے رفقاءنے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ تو شہید ہو گئے لیکن آپ کی بے مثال تحریک نے
ہندوستان کے مسلمانوں کے تن مردہ میں گویا نئی روح پھونک دی ۔ یہی جہادی
جذبہ 1857ءکی جنگِ آزادی کا روح رواں تھا۔میرٹھ کے سپاہیوں کی بغاوت اور
انگریز افسروں کو جہنم رسید کرنے کے بعد آزادی کی یہ لہر بڑی سرعت سے
ہندوستان بھر میں خصوصاً شمالی ہندوستان میں پھیل گئی۔ بہادر شاہ ظفر کو
بادشاہ تسلیم کرنے کے بعد جنگ آزادیِ دہلی‘ آگرہ‘ کانپور‘ مراد آباد‘ شاہ
جہان پور‘ سہارنپور‘ شاملی تھانہ بھون‘ مظفر نگر ‘ میرٹھ‘ جھانس‘ الٰہ
آباد‘ رام پور‘ لکھنو اور روھیل کھنڈ وغیرہ میں پھیل گئی‘ جس میں بلا
امتیاز مذہب وملت اہلِ وطن نے حصہ لیا۔ علماءکرام اور خصوصاً علمائے دیوبند
نے بھی اس جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ کے
نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلاف کی یاد تازہ کی۔حضرت مدنی رحمہ اللہ کی کتاب”
نقشِ حیات“ کے مطابق ان حضرات میں جو لوگ دہلی میں تھے، جامع مسجد دہلی میں
جمع ہوئے اور ایک فتویٰ جہاد صادر کردیا۔ فتویٰ جہاد جاری ہونے کے بعد
ہندوستان کے مختلف مقامات پر جنگی مراکز قائم ہوگئے۔ ان میں سے ایک اہم
مرکز شاملی تھانہ بھون کا بھی تھا۔یہ مرکز حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ
اللہ اور ان کے رفقائے کار نے قائم کیا تھا۔ حضرت حاجی صاحب چوں کہ شاہ ولی
اللہ تحریک سے وابستہ تھے اور حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ کے روحانی
سلسلے سے بھی تھے، اس لیے اس جماعت کے علماءآپ کی امارت میں جہاد کے لئے
جمع ہوگئے۔اس جماعت میں مولانا محمد قاسم نانوتوی،مولانا رشید احمد گنگوہی‘
مولانا فیض الحسن سہارن پوری‘ مولانا رحمت اللہ کیرانوی‘ مولانا محمد منیر،
حافظ محمد ضامن اور مولانا محمد یعقوب رحمہم اللہ شامل تھے۔ شاملی اس زمانہ
میں مرکزی مقام تھا۔ضلع سہارنپور سے متعلق تھا۔قرار پایا کہ اس پر حملہ کیا
جائے، چنانچہ چڑھائی ہوئی اور قبضہ کرلیا گیا،جو طاقت پولیس اور فوج کی
وہاں رہتی تھی وہ مغلوب ہوگئی۔ حضرت حافظ ضامن صاحب اسی معرکے میں شہید
ہوگئے۔ حافظ ضامن صاحب مرحوم کی شہادت کے بعد جوپہلی خبر آئی وہ یوں تھی کہ
دہلی پر انگریز کا قبضہ ہوگیا۔ اس سے پہلے گورے فوجی چھپتے پھرتے تھے مگر
بعد میں معاملہ بالکل برعکس ہوگیا۔ دہلی کے سقوط کی خبر سے لوگوں کی ہمتیں
بالکل پست ہوگئیں اور سب اپنے اپنے وطن کو واپس آگئے۔ تقدیر تدبیر پر غالب
آگئی‘ ہندوستانیوں کو اپنے سابقہ اعمال کی سزا ملنی تھی۔گذشتہ مصائب ‘پاداش
کے لئے احکم الحاکمین کے دربار عدالت میں کافی نہ تھے‘ اس لئے باوجود اس
قدر جاں بازیوں کے برٹش شہنشا ہیت کو ہندوستان پر اس طرح مسلط کردیا گیا جس
طرح کوڑے لگانے والے بھنگی جلاد کو مجرم پر مسلط کردیا جاتاہے۔ علماءمیں
مولانا احمد اللہ شاہ صاحب دلاور جنگ ‘ مولانا فضل حق خیر آبادی‘ مفتی صدر
الدین صاحب صد الصدور دہلی‘ مولوی عبد القادر صاحب ‘ قاضی فیض اللہ صاحب
دہلوی‘ مولانا فیض احمد صاحب بدایونی‘ ڈاکٹر مولوی وزیر خان اکبر آبادی....
الحاصل ان علماءنے آخر وقت تک اپنے فتویٰ کے مطابق عمل کیا‘ جنرل بخت خان
اور اس کی فوج اور مجاہدین نے پوری داد شجاعت دی‘ مگر آپس کے غداروں نے (جن
کے سرغنہ مرزا الٰہی بخش اور مرزا مغل شہزادہ تھے) ہرقسم کی ابتری پھیلادی
اور نتیجہ وہی ہوا جو ایسی باتوں کا ہوتا ہے۔19ستمبر1857ءکو پوری دہلی پر
انگریزوں کا قبضہ ہوگیا اور انتہائی سفاکی سے دہلی میں قتل عام جاری کردیا
گیا۔
حضرت حاجی صاحب بقصد مکہ معظمہ روانہ ہوگئے‘ راستہ میں مختلف مقامات پر
جہاں پہلے سے تعلقات تھے‘ ٹھہرتے جاتے تھے۔ جاسوس پیچھے لگے ہوئے تھے مگر
ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کی مدد فرمائی۔دشمنوں کی انتہائی جد وجہد
کے باوجود تینوں حضرات محفوظ رہے‘ کسی کا بال بیکا نہ ہوا۔ حضرت مولانا
محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ وارنٹ کے بعد تین دن تک بتقاضائے احباب واعزہ
روپوش رہے‘ اس کے بعد مکان سے باہر نکل آئے‘ لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا
کہ: جناب رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم صرف تین دن تک غار ثور میں روپوش
رہے،وہ سنت پوری ہوگئی، اب روپوش ہونا خلاف سنت ہوگا۔ کسی کی نہ مانی اور
قرب وجوار کے موضع میں کبھی نانوتہ میں‘ کبھی دیوبند میں کبھی املیا میں‘
کبھی آباد میں‘ کبھی جنگل میں پھرتے رہے۔اسی طرح حضرت مولانا رشید احمد
گنگوہی رحمہ اللہ اپنی جگہ گنگوہ سے نہیں ٹلے‘ بالآخر گرفتار ہوئے۔ گنگوہ
سے سہارن پور اور وہاں سے مظفر نگر لائے گئے۔سپاہی ننگی تلواروں سے آپ پر
پہرہ دیتے رہے۔آپ کو مظفر نگر جیل بھیج دیا گیا اور شہادتوں کے حصول کے لئے
پولیس اور حکومت کوشش کرتی رہی ،تاکہ ثبوت بہم پہنچا کر مقدمہ چلایا جائے۔
اہم بات یہ ہے کہ دہلی کے تاریخی معرکہ اور شاملی کی جنگ کی تاریخ ایک ہی
ہے، اسے اتفاق نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ایک مشترکہ جدوجہد آزادی کی دو
کڑیاں ہیں۔ دہلی معرکہ میں انگریز جنرل نکلسن مارا گیا ، مگر آخر کار دہلی
اور شاملی دونوں جگہ ہندوستانیوں کو شکست ہوئی ، اور بہادر شاہ ظفر17اکتوبر
کو گرفتا ر کر کے رنگوں بھیج دئیے گئے۔بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری اور
جلاوطنی کے بعد انگریز پوری طرح دہلی پر قابض ہوگیا۔ پھر دہلی پر کیا
گزری؟ایک قیامت تھی جو گورے منہ والے سپاہیوں کی شکل میں دلی کے گلی
کوچوںمیں اتر گئی۔ ہزاروں سر بدن سے اتر گئے۔ جس کو زندہ دیکھا، مار دیا۔
لاشوں سے راستے پٹ گئے۔ گھر کے گھر بے چراغ ہو گئے۔ جو کبھی پیدل نہیں چلے
تھے، وہ بھاگ رہے تھے۔ رئیس اور امراءگدا گروں کی طرح ایک ٹکڑا روٹی کے
محتاج نظر آنے لگے۔دلی کا حسن خاک وخون میں تڑپ تڑپ کر ختم ہورہا تھا۔گلی
کوچوں میں لوگ انگریز کے خوف سے تھر تھرا رہے تھے۔ دلی کی عصمت مآب بیبیوں
کی عصمت سر بازار لٹ رہی تھی‘ لوگ در ودیوار سے ٹکرا رہے تھے۔کتاب ،انگریز
کے باغی مسلمان کے مندرجات کے مطابق فتح پور سے جامع مسجد تک پھانسیوں کا
جال بچھا ہوا تھا۔ شارع عام پر پھانسی گھر بنائے گئے اور پانچ پانچ یا چھ
چھ آدمیوں کو روزانہ سزائے موت دی جاتی تھی۔ وال پول کا بیان ہے کہ تین
ہزار آدمیوں کو پھانسی دی گئی‘ جن میں سے انتیس شاہی خاندان سے تعلق رکھتے
تھے۔ ہزاروں نفوس گولیوں سے اڑا دیے گئے۔ ان میں مسلمان بھی تھے اور ہندو
بھی۔ لیکن جلد ہی انگریزی فوج کے سکھ سپاہیوں نے قتل و غارت میں فرقہ ورانہ
رنگ بھر دیااور مسلمان چن چن کر قتل کیے گئے۔
مولف تبصرة التواریخ لکھتا ہے کہ:”ستائیس ہزار مسلمان قتل کے گئے اور سات
دن تک برابر قتل جاری رہا‘ زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سلوا کر گرم
تیل کے کڑھاؤ ڈلوانا اور فتح پور کی مسجد سے قلعہ کے دروازے تک درختوں کی
شاخوں پر مسلمانوں کی لاشوں کا لٹکانا یہ سب کچھ کیا گیا۔“
1857ءکی جنگِ آزادی کی ہولناکی اتنی بڑھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ جنگِ
آزادی کے حوالے سے لکھی جانے والی کتابوں کے مطابق چند روز کے اندر صرف
دِلّی میں 27 ہزار افراد شہید کیے گئے، پھر یہ قیامت صرف دلی تک محدود نہیں
رہی بلکہ پورا ہندوستان ہی دلی بن گیا۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ہندوستان
میں تقریباً 19 ہزار علماءکو شہید کیا گیا۔ فرنگیوںپر طاقت اور انتقام کا
بھوت اس طرح سوار تھا کہ صرف مسلمان ہونا بھی جرم بن گیا تھا۔ انگریزوں کے
فوجی لوگوں کو پکڑتے اور پوچھتے ہندو ہو یا مسلمان؟ جیسے ہی یہ معلوم ہوتا
کہ پکڑا جانے والا مسلمان ہے تو اسے قتل کردیا جاتا۔جنگِ آزادی نے انگریزوں
کی اخلاقیات اور نفسیات کو کتنا پست کردیا تھا اس کا اندازہ انگریز مصنف
باس ورتھ اسمتھ کے اس اقتباس سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ باس ورتھ لکھتا
ہے:”بعض افسر رومی سربیتکے جوش میں اصرار کررہے تھے کہ دلّی شہر کو جو
ہندوستان کا سرمایہ ¿ افتخار اور اس کا دارالحکومت تھا، ڈھاکر زمین کے
برابر کردیا جائے اور زمین کو شور زار بنادیا جائے۔ دوسرے اس سے بھی آگے
بڑھ کر مذہبی جنون میں اس بات پر زور دے رہے تھے کہ جامع مسجد کو جو دنیا
کی شاندار ترین اور نفیس ترین عمارتوں میں سے ایک تھی، کھدوا دیا جائے یا
کم از کم اس کے کلس پر صلیب نصب کرکے اسے گرجے میں تبدیل کرایا جائے۔“
باس ورتھ کے مطابق بعض انگریزوں نے دہلی میں ہل چلوانے کی تجویز دی۔ بڑی
تعداد میں مساجد کو بارکوں میں تبدیل کیا گیا۔ وہاں کتے رکھے جاتے اور
خنزیر ذبح کیے جاتے۔ یہ مسلمانوں کی مزاحمت اور حکمت عملی تھی کہ وہ اپنا
وجود بچانے میں کامیاب رہے، ورنہ انگریزوں نے نسل کشی میں کوئی کسر نہ
چھوڑی تھی۔
بہرحال طوفان آتا ہے تو گزر بھی جاتا ہے، یہ طوفان بلاخیز بھی گزر گیا۔اور
اس طوفان کے گزرنے پرجہاں ہزاروں الم ناک کہانیاں وجود میں آئیں
،وہیںشہداءکے خون سے کئی مثبت امکانات بھی نظر آنے لگے۔ 1857ءکی اس جنگ
ِآزادی نے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کو غلامی کی نفسیات کا اسیر ہونے سے
بچالیا اور برصغیر کے مسلمان اس جنگ کے صرف 80 سال بعد اس قابل ہوگئے کہ وہ
برصغیر میں ایک آزاد وطن کے قیام کے لیے ایک عظیم الشان تحریک برپا کرسکیں
اور پھر اسے حاصل بھی کر سکیں۔
جیسا کہ شروع میں ذکر کیا تھا کہ 1857ءکیجنگ آزادی خصوصاً برصغیر کے
مسلمانوں کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اوریہی وہ منزل ہے جہاں سے
نہ صرف ماضی کے نقوش بھی پڑھے جاسکتے ہیںبلکہ مستقبل کے امکانات کا جائز ہ
بھی لیا جاسکتا ہے ۔آج جب کہ 1857ءکو ایک سو چھپن سال گزر چکے ہیں، پاکستان
میں کم و بیش وہی صورت حال ہے۔جیسا کہ ہم نے متحدہ ہندوستان میں انگریزوں
کے خلاف تمام مسلح مزاحمتوں کا جائزہ لیا، تواس جائزے سے ایک بات روز روشن
کی طرح واضح ہوتی ہے کہ تمام مزاحمتیں جو جلد یا بدیر شکستوں پر منتج
ہوئیں، ان میں فیصلہ کن کردار غداریوں کا رہا ہے۔اس بات سے اب انکار ممکن
نہیں کہ برطانوی استعمار نے ہندوستان کو ہندوستانیوں کے کاندھوں پر چڑھ
کرفتح کیا تھا۔آج بھی جب اتنے عرصے میں بہت کچھ بدل گیا ہے مگر نہیں بدلا
تو ملت فروشوں کاغدارانہ کردار نہیں بدلا۔ برطانوی سامراج برصغیر سے نکلنے
کے بعد جو نظام چھوڑ گیا تھا وہ اب بھی خصوصاً پاکستان میں استحصال کی
انتہا کررہا ہے اور یہاں کے مقامی حکمران اسکے گماشتے اور دلال بنے ہوئے
ہیں۔ اس نظام کو صرف ایک ہمہ گیر انقلاب کے ذریعے ہی بدلا جاسکتا ہے۔ اس
خطے کے خواص و عوام کے لئے 1857ءکی جنگ آزادی کا یہی اصل پیغام ہے۔ |