موت کا سامان

اخباری خبر کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی(اوگرا)نے گذشتہ دنوں وزارت پٹرولیم کے نام خط میں سی این جی کو پبلک ٹرانسپورٹ سے فوری بند کر نے کی سفارش کی ہے، خط میں لکھا ہے کہ سی این جی ٹرانسپورٹ انسانی جانوں کے ضیاع کا مستقل ذریعہ ہے اور سیٹوں کے نیچے رکھے ہو ئے بڑے بڑے سلنڈر کسی بم سے کم کام نہیں کر تے، صرف چند سیکنڈوں میں درجنوںمسافرجمہوریت سے محروم ہو کر اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔

قارئین جیسے کہ آپ جانتے ہیں چند دن قبل نااہل پولیس افسران و انتظامیہ کی بدولت 19معصوم بچے جو علم کے حصول کے لیئے نکلے تھے تاکہ وہ ملک سے اندھیروں ،کرپشن ،رشوت اور نااہل افسران کا خاتمہ کر سکئے مگر وہ کیا جانتے تھے کہ ان کے حریف ہی ان کا ایسا خاتمہ کر دیں گے ،جس کا ذکر سن کر ظالم سے ظالم حکمران بھی پاکستانی انتظامیہ کو اپنا استادمحترم کا درجہ دینے پر مجبور ہو جائے اور جلد ہی ان کےلئے کو ئی اعلی ایوارڈ کا اعلان کر دے۔

بیشک دنیا میں کو ئی بھی انسان ہر گز یہ نہیں سوچے گا کہ وہ 3سال کے بچے زندہ آگ سے جلائے ۔پاکستان کی تمام حکومتوں کا شروع دن سے ایک ہی منشور رہا ہے کہ کسی جرم کو اس وقت تک نہ روکو جب تک وہ کوئی سنگین جرم کی داستان تحریر نہ کر دے۔ عرصہ 2سال سے پورے پاکستان میں سی این جی کی لوڈ شیڈنگ ہے جس کی بدولت ٹرانسپورٹر نے اپنے نئے کرایہ نامے جاری کردئیے تھے تمام اہم چوکوں پر ٹریفک پولیس تو موجود ہو تی مگر مجال ہے کہ کو ئی کرایہ نامہ چیک کرتا، سب کے سب رشوت کے ریٹ بڑھانے کی فکر میں مگن تھے جو پہلے 20رو پے لیتا تھا آج 50لیتا ہے جو 50لیتا تھا آج 100لیتا ہے اور جو 100لیتا تھاوہ500لیتا ہے اور جو 500لیتا تھا وہ5000لینے لگا ہے جو5000لیتا تھا وہ25000لینے لگا یعنی جیسے جیسے عہدہ ترقی کر تا گیا، رشوت کے ریٹ بھی زیادہ ہو جاتے ہیںعرصہ6ماہ سے تقریبا90%ٹویوٹااور پک اپ میں ایندھن کے حصول کے لئے مالکان نے پلاسٹک کی گیلن رکھ لی تھی کیونکہ جب سی این جی کٹ کی حکومت آئی تو گاڑیوں میں موجود پٹرول کی ٹینکیوں کو کباڑیوں کو فروخت کردیا گیا اب جب دوبارہ پٹرول کی حکومت آئی تو اس کے لئے ایوان ہی موجود نہ تھا جہاں پر وہ اپنی کاروائی سرانجام دے سکتے اس لیے مالکان نے کرایہ پر ایوان (گیلن )حاصل کی جس میں 5سے20لیٹر تک پٹرول موجود ہو تا جو صرف اور صرف ایک شعلہ کا منتظر نظر آتااور گاڑی کے ساتھ وہی ہوتا جو چوہدریوں کے شہر گجرات میں ہوا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف کا حصول اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی غریب آدمی کا قانون ساز اسمبلی کا رکن بننا شروع دن سے جاگیر دار ،سرمایہ دار ،خاندانی رئیس اور اعلی سوسائٹی کے افراد ہی اسمبلیوںمیں منتخب ہو تے رہے ہیںجو منتخب ہو نے سے پہلے اور بعد میں عوام سے میلوں دور رہتے ہیں یعنی اگر عوام پبلک ٹرانسپورٹ میں دن رات ذلیل و خوار ہو تی ہے تو ہمارے نمائندے ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں سفرکر تے ہیں عوام سے دوری اور عوامی مسائل سے لاپرواہی کی بدولت پاکستان آہستہ آہستہ کرپشن کا گھر بنتا گیا یہاں دادا اگر کو ئی کیس کرتا ہے تو اس کی وفات کے سالوں بعد پوتا کیس کا فیصلہ سنتا ہے۔

ابھی پچھلے سال کی بات ہے کہ میرے استاد جیسے دوست اور قائد اعظم جیسے لیڈر جس کے دل میں اپنے کارکنوں کی محبت کی کو ئی مثال نہیں تھی دن رات ڈسکہ کے نوجوان صحافیوں کے مستقبل سے پریشان رہنے والا دوست کامران افضال ایک نااہل اور لاپرواہ ڈاکٹرکی بدولت اللہ کو پیارا ہو گیا مگر 365دن بعد تک اس کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج نہ ہو سکی اور ابھی تک پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی کسی قبر میںدفن ہے یہی حال تمام قتل کے کیسوں کا ہوتا ہے کیا مرنے والے کا خاندان ساری زندگی ہیلتھ کئیر کو رشوت دیتا رہے؟

قارئین ہم صرف اس وقت سڑکوں پر آتے ہیں جب پانی سر سے اوپر ہو جائے اور جب نجات کا کوئی ذریعہ نہ ہو اگر گجرات کی ٹریفک پولیس دیگر پنجاب پولیس کی طرح رشوت کی بجائے ایمانداری سے کام لیتی تو ممکن تھا گجرات میں یہ واقعہ نہ ہو تا جو جلد ازجلد ضلع سیالکوٹ یا گوجرانوالہ میں ہو نے والا تھا کیونکہ یہاں کے ڈرائیور تو گیلن کے پاس بیٹھ کر سگریٹ کی ڈبیاں ایسے ختم کر تے ہیں جیسے پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی وزارت ختم کی تھی۔

میری نو منتخب وزیر اعظم اور وزیر اعلی سے اپیل ہے کہ برائے مہربانی پاکستان کی عوام پر رحم کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ہمیں کرپشن سے پاک کر دو اور اپنے ایم این ایز،ایم پی ایز کو احکامات جاری کرے کہ وہ لوکل انتظامیہ سے ماہانہ لینا بند کر دے اور اپنے اپنے حلقہ میں موجود تمام غیر آئینی وغیر انسانی کاموں کو کسی ایک قبر میں دفن کر دے ناکہ اپنے حلقہ کی عوام کو ؟

Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 89363 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.