الیکشن2013ءمیں ایک خوش کن خبر یہ رہی کہ کراچی کو پختون
قوم پرستی کی آڑ میں لسانی سیاست کرنے والوں سے نجات حاصل ہوئی۔ حلقہ پی
ایس 89میں مسلم لیگ (ن) کے ہمایوں محمد خان،پی ایس 114سے عرفان اللہ خان
مروت،پختون قومیت رکھتے ہیں۔ جبکہ پختونوں کی مستقل کامیاب نشستیں جیتنے
والے علاقے ، جس میں پی ایس 128،پی ایس93پر پختون قومیت سے تعلق رکھنے والے
کامیاب ہوتے رہے تھے۔2008ءکے الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی کو ان دونوں
حلقوں میں پہلی مرتبہ کامیابی ملی اور صوبائی حکومت کے علاوہ وفاق کا حصہ
بھی بنی ، لیکن پختونوں کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے اقربا پروری ،
رشوت بازاری ، پانی مافیااور من پسند افراد کو حکومتی ٹھیکے دلانے کے علاوہ
ذاتی مفادات کےلئے کام کرنے کی وجہ سے کراچی میں انھیں عبرت ناک شکست کا
سامنا ہوا۔ کراچی میں"(کالعدم)امن کمیٹی" کے نامزد افراد کو نشستیں دیکر
لیاری سے پیپلز پارٹی صفایا ہونے سے بچ گئی لیکن لیاری کے قدیم آبادلاکھوں
کچھی برادری کےساتھ ان کے تعلقات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ گینگ وار کے
ہاتھوں لیاری روزانہ میدان جنگ بنا ہوا ہے اور وہاں حکومتی رٹ نہ پہلے تھی
اور نہ اب ہے۔متحدہ قومی موومنٹ اس بار پہلی مرتبہ پی ایس128کی مخلوط آبادی
سے نشست لینے میں بڑی جدوجہد کے بعد کامیاب ہوئی ، لیکن یہاں ان کا نمائندہ
ہزاروال ہے، چونکہ ہزاروال صوبے کے مطالبے کی بنا ءپر ہزاروال اپنی الگ
قومی شناخت بنانے پر مصر ہیں اس لئے انھیں اب پختون قوم کا نمائندہ نہیں
سمجھا جاتا۔ گو کہ ہزار وال سوات کے قدیم باشندے ہیں جو ہجرت کرکے مانسہرہ
کے گرد و نواح میں آباد ہوئے اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے پختونوں کی
شناخت کے حوالے سے صوبے کو نام دئےے جانے پر ہزارہ لفظ شامل نہ کرنے کے سبب
، ہزاروال اب پختونوں میں بادی النظر الگ قومیت شمار کی جانے لگی ہے۔تحریک
انصاف کےلئے فرشتوں کی جانب سے ووٹ ڈلنے کے بعد خالص پختون آبادی پی ایس
93میں اس بار غیر پختون کو کامیابی ملی اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ موصوف
پختون علاقے کے کبھی رہائشی نہیں رہے اس لئے انھیں پختون آبادیوں کے مسائل
سے آگاہی نہ ہونا ایک اہم مسئلے کے طور پر درپیش رہے گا۔متحدہ قومی موومنٹ
نے بلوچ اور سندھی قومیت سے تعلق ررکھنے والوں کو کراچی سے کامیاب کرایا ہے
، ساٹھ لاکھ پختونوں کی اس شہر میں پختون قومیت کو اب چند مسائل کا سامنا
رہے گا وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید احساس محرومی میں ڈھلتا چلے جائے گا ۔
کیونکہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے اراکین ،پختون
قومیت کی بنا ءپر ووٹ لیکر تو کامیاب ہوگئے ہیں لیکن پختون قوم کے لئے سندھ
حکومت میں نمائندگی کے طور پر علامت تصور نہیں کئے جاسکتے۔ اسی طرح پی پی
پی نے اب تک جن وازارتوں اور مشیروں کو منتخب کیا ہے اس میں بھی سندھ میں
رہنے والے70لاکھ سے زائد پختونوں کو نمائندگی کے طور پر کوئی وزارت نہیں دی
گئی ۔ سابقہ حکومت میں حبیب اللہ جدون وزیر ٹرانسپورٹ بنائے گئے تھے لیکن
اے این پی کی بغل بچہ تنظیم لویہ جرگہ کی حمایت سے کامیاب ہونے والے اس
نمائندے نے بھی پختون قومیت کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اے این پی نے خیبر
پختونخوا اور کراچی میں کیا تھا۔یہ امر باعث اطمینان ضرور ہے کہ صوبائیت
اور لسانیت کے اس سلسلے کو ختم ہوجانا چاہیے ، لیکن پاکستان کی بد قسمتی ہے
کہ ابھی تک مملکت صوبائیت اور لسانیت کے زہر قاتل سے باہر ہی نہیں نکل سکی
ہے۔اس لئے وفاق کی جانب سے شروع سے چار قومیتوں کے پرچار کے سبب دنیا میں
یہی تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان قومیت کے بجائے ، سندھی، بلوچی، پختون
اور پنجابی قوموں پر مشتمل ہے۔ پاکستانی قوم کی تشکیل کی کوشش ہی نہیں کی
گئی اور اس کا نتیجہ ہمیں بنگلہ دیش کی صورت میں ملا اور صوبائیت ، زبان کے
نام پر پاکستان کے قیام کے نظرئےے کو دریائے بنگال میںغرق میں کردیا
گیا۔پاکستان میں جب لسانیت اور قومیتوں کی تشہر اور پہچان ، صوبوں کے نام
سے ہونے لگی تو اُن قوموں میں احساس محرومی بڑھنے لگا جو اپنی ایک تاریخ
رکھتی ہیں لیکن پاکستان میں صوبہ نہیں رکھتی۔صوبہ ہزارہ، صوبہ شمالی علاقے
جات(گلگت بلتستان صوبہ)، صوبہ سرائیکی ، صوبہ بہاولپور،صوبہ ملاکنڈ،صوبہ
جنوبی پختونخوا(بلوچستان کی پشتون علاقے)،قبائلستان، جنھیں آج تک شناخت
نہیں ملی اور وہ اب بھی ایجنسیاں ، کہلاتی ہیں اور وفاق کے زیر انتظام
ہیں۔جنوبی سندھ یا صوبہ کراچی کے عوامی مطالبات دراصل صوبائیت کی ترویج کے
سبب ممکن ہوا اور چار قومیتوں کو ہی پاکستان سمجھ لینے کی فاش دانستہ غلطی
کی وجہ سے پاکستان میں پاکستانی قوم کا کوئی تصور ، ثقافت ، روایات پیدا ہی
نہیں ہوسکی ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتیں اپنے مسائل
کے حل کےلئے اپنی زبان و قوم کے افراد پر تکیہ کرتی ہیں اسی لئے پاکستان
میں موجودہ انتخابات ، برادریوں ، قومیتوں ، نسلی ، لسانی اور فرقہ وارنہ
بنیادوں پر لڑے گئے اور جہاں جہاں سے جن قومی یا علاقائی جماعتوں کو
کامیابی ملی وہ اپنی قوم کے مسائل کے لئے کیا کریں گے ، یہ سوال بعد میں
پیدا ہوگا ، کیونکہ پاکستانی قوم کے نام پر بڑی سیاسی جماعتوں نے اشتہارات
تو بہت چلائے لیکن عملی طور پر صوبائیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ جس کا ثبوت
بلوچستان میں گورنر شپ ، پشتونوں اور وزارت بلوچوں کو دے دی گئی جیسے مسلم
لیگ (ن) میں شامل بلوچوں کا تعلق ، بلوچ قوم سے نہیں تھا ۔بلوچستان میں
دونوں قومیتوں کو نماندگی دینے اہم قد م ضرور ہے لیکن اس نے صوبائیت کے
مفروضے کو پختہ کردیا ہے۔جبکہ سندھ میں آباد ستر لاکھ پختونوں کا مستقبل
کیا ہوگا ، اس پر ملک کی تمام قومی سیاسی جماعتوں کو ضرور سوچنا ہوگا۔خاص
طور پر کراچی ، جو مختلف النسل قومیتوں کا مجموعہ ہے اور پوری دنیا میں سب
سے زیادہ پختون کراچی میں رہتے ہیں انھیں ، ان کے 65سالہ احساس محرومی سے
نجات دلانے کے لئے کون سی جماعت پہل کرے گی۔ کیونکہ پی پی پی حکومت سندھ کی
حکمران جماعت ہے لیکن بد قسمتی سے ان کے چہروں پر قدامت پسندی کی مہر اس
قدر ثبت ہے کہ وفاق کی علامت کہلانے والی اس جماعت میں بھی پختون قوم کےلئے
کوئی جگہ سندھ میں نہیں ہے۔مسلم لیگ(ن) کےلئے پنجاب میں نہیں ہے۔دونوں
صوبوں میں ان دونوں جماعتوں کو اکثریت اور بھاری مینڈیٹ حاصل ہے لیکن
قومیتوں کو جوڑنے کا رجحان ان دونوں بڑی جماعتوں میں نہیں ہے۔پاکستان کی
پہچان اگر پاکستانی قوم کے حوالے سے ہوتی تو یقینی طور پر ہمیں اپنی پہچان
کےلئے صوبائیت کا سہارا نہیں لینا پڑتا ۔ لیکن جب پاکستانیت پر صوبائیت
غالب ہے تو پھر کیا ، کیا جاسکتا ہے۔ |