بین الاقوامی سطح پر یہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے کہ دنیا
کے تمام ممالک میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے سرکاری
ملازمین ہیں جن کا ٹیکس حکومت تنخواہ ادا کرنے سے پہلے ہی حاصل کرلیتی ہے
۔۔ بجٹ جون دوہزار تیرہ تا مئی دوہزارچودہ نئی کامیاب وزیر اعظم میاں
نوازشریف کی حکومت نے پیش کیا ، جسے وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی
میں بارہ جون کی شام کو پیش کیا جس میں خودوزیر اعظم میاں نوازشریف بھی
شریک تھے۔۔۔ یاد رہے کہ الیکشن سے قبل جو وعدے اور اعلانات پاکستان مسلم
لیگ نواز شریف نے کیئے تھے موجودہ بجٹ ان وعدوں کا عکس نظر نہیں آتا۔حیرت و
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس بجٹ میں بڑی گاڑیوں سے چھوٹ کیا معنی ۔۔؟؟ہونا
تو یہ چاہیئے تھا کہ ہر آسائش کی اشیاءمیں ٹیکس کا اضافہ کردیا جاتا اور
لازم ضروریات میں ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ چھوٹ دی جاتی تاکہ عوامی ریلیف
بجٹ بن جاتا ، سرکاری ملازمین بھی عوام کا حصہ ہیں بنیادی اشیاءکی کمی
کیلئے بین الاقوامی مارکیٹ کے توازن سے پیٹرول اور پیٹرول کی اشیاءکے نرخ
متوازن رکھے جاتے اور گیس کی مد میں کمی کی جاتی، ادویات اور اجناس کو
کنٹرول کرتے ہوئے ان میں واضع کمی کی جاتی اور سرکاری ملازمین کیلئے سستے
آسان اقساط پر رہائش کا سلسلہ دیا جاتا لیکن جمہوری حکومت کیوں سرکاری
ملازمین سے چشم پوشی سے کام لیتی ہے جبکہ حکومتی مشنری میں سرکاری ملازمین
کا اہم ترین کردار ہوتا ہے ۔۔ سرکاری ملازمین کی مراعات میں اضافہ سے کرپشن
اور بد عنوانی پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن جب ان پر مراعات کے دروازے بند
کردیئے جائیں گے ،تبادلوں اور ترقیوں کے نظام کو مکمل اہلیت و قابلیت پر
مشروط کردیا جائے تو یقینا حکومتی مشنری میں بہتر نتائج نظر آئیں گے ۔۔۔
یاد رکھیئے نا اہل افسر ہمیشہ غلط راہ پر چلے گا کیونکہ وہ اہل لوگوں کے
حقوق کو غصب کیئے ہوتا ہے اور اب اس بجٹ میں تو سرکاری سطح پر اور زیادہ بد
عنوانی، کرپشن، رشوت ستانی،نا انصافیاں، اقربہ پروریاں، چاپلوسی، جعل سازی
جیسے زہریلے عوامل مزید بڑھیں گے وہیں دفتری امور میں کام کی رفتار کی سست
ہوجائیگی۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پزیر کسی بھی ملک میں
سرکاری ملازمین کو اس قدر بجٹ میں نظر انداز نہیں کیا جاتا جو پاکستان میں
اس سال بجٹ میں کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی ضروریات زندگی پر یہ بجٹ
براہ راست منفی اثرات مرتب کریگا۔ سابقہ حالات اور قومی خذانے کو مستحکم
کرنے کیلئے یہ طریقہ قطعی درست نہیں !! اس بجٹ میں کاروباری حضرات، صنعت
کار، ذمہ دار اور بلند طبقہ کو بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوگا ۔۔یہ کس طرح یقین
کرسکتے ہیں کہ اس بجٹ سے عوام کے آنسو رک سکیں گے گویا یہ بجٹ آنسو کے
بجائے اب خون بہنے کا باعث بنیں گا۔ ایک سرکاری ملازم کی مخصوص تنخواہ ہوتی
ہے وہ اسی تنخواہ میں حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرتا ہے اور تمام ٹوٹیلیٹی بلز
بھی اس کے ساتھ بچوں کی تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور ماہانہ گھر کا راشن کس
قدر مہنگا ہوگا وہ کس طرح پورا کریگا۔۔۔کیا وزیر اسحاق ڈار
۔ پاکستان زنادہ باد، پاکستان پائیندہ باد۔۔۔٭٭ |