بر صغیر ہند و پاک میں فروغ و تحفظِ دین و سنت اوراحیاے
اسلام کے لیے مجددِ اسلام امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ اور ان سے
وابستگان، تلامذہ و خلفا و مریدین نے جو خدمات انجام دیں اس کے فیضان سے آج
بھی گلشنِ اسلام کو خونِ تازہ فراہم ہورہا ہے۔ یہ علمی و روحانی فیضان
مختلف صورتوں میں عوام و خواص کو مستفیض کرتا آرہا ہے۔اسی کا ایک روشن اور
تاب ناک پہلو حضور محدثِ کبیر علامہ مفتی محمد ضیاء المصطفیٰ قادری امجدی
مدظلہٗ العالی کی دینی و علمی اور تعلیمی و سماجی خدمات کا پہلو بھی ہے۔
علم و عمل، زہد و تقویٰ، حلم و بردباری اورحق گوئی و بے باکی ، استقامت
وتصلب فی الدین کے پیکر جمیل کا نام علامہ ضیاء المصطفیٰ ہے۔نمونۂ اسلاف
اور رہ نماے اخلاف ہیں حضور محدثِ کبیر۔ آپ دور حاضر میں مسلمانوں کے مذہبی
قائد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ولادت اور خاندان:حضور محدثِ کبیرکی ولادت ۲ شوال المکرم ۱۳۵۴ھ بروز اتوار
طیبۃ العلماء گھوسی اتر پردیش میں صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی
رضوی علیہ الرحمہ (مصنف بہارِ شریعت) کے یہاں ہوئی۔آپ کا خاندان علم و فضل
کے اعتبار سے مشہور و معروف ہے۔ والد ماجد صدرالشریعہ کو امام احمد رضا
محدثِ بریلوی سے شرفِ تلمذ اور خلافت بھی ہے۔ جد امجد مولاناحکیم جمال
الدین ابن مولانا خدا بخش ابن مولانا خیرالدین علیہم الرحمہ بھی اپنے وقت
کے ماہر حکیم اور عالمِ باعمل گزرے ہیں۔
تعلیم و تربیت:ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔بچپن ہی سے تحصیلِ
علم اور علمی مباحث میں حصہ لینے کا شوق تھا۔آپ کی ذہانت و فطانت اور علمی
و فکری دل چسپی کو ملاحظہ کرنے کے بعد صدر الشریعہ نے فرمایاتھا : ’’ انشاء
اﷲ! میرا یہ بیٹا مستقبل میں ایک بڑا عالم بنے گا۔‘‘جب صدرالشریعہدوسرے سفرِ
حج پر جانے لگے تو آپ کو فیض العارفین علامہ غلام آسی علیہ الرحمہ کے پاس
تحصیل علم کے لیے ناگپور بھیجا جہاں آپ نے عربی کی بنیادی کتابیں پڑھیں۔پھر
شوال ۱۳۶۹ھ سے برصغیر کی عظیم دینی درس گاہ الجامعۃالاشرفیہ مبارک پور میں
حافظ ملت علامہ عبدالعزیز مبارک پوری محدثِ مرادآبادی علیہ الرحمہ کی
نگرانی میں تعلیمی و تربیتی مراحل طے کیے۔
آپ کی دل چسپی اور ذہانت کے مدِ نظر حافظِ ملت آپ پر خاص توجہ فرماتے۔۱۳۷۷ھ
میں درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد بھی حضور حافظِ ملت نے آپ کی مزید خصوصی
طور پر تعلیم و تربیت فرمائی۔آپ کی تعلیمی صلاحیت سے متعلق حافظ ملت فرمایا
کرتے تھے :’’مَیں اس طالبِ علم(حضور محدثِ کبیر) کو اتنا پڑھا سکتا ہوں
جتنا دوسرے سَو طلبا کوبھی نہیں پڑھا سکتا۔‘‘یعنی حضور محدثِ کبیر اتنی
قابلیت رکھتے ہیں کہ دیگر سو طلبا سے زیادہ علم حاصل کر سکتے ہیں۔چناں چہ
ان کے والد اور استاذِ گرامی کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی اور آج ان کی علمی
شان و شوکت اور محدثانہ عظمت سے اہل علم واقف ہیں۔حضور حافظ ملت اکثر کہا
کرتے تھے:’’ مَیں نے جو کچھ اپنے استاد صدرالشریعہ سے حاصل کیا، سب ضیاء
المصطفیٰ ( محدثِ کبیر) کو دیا۔‘‘حضور محدثِ کبیر پر ان کے اساتذہ کی یہ
عنایت و مہربانی کسی ذاتی منفعت کے لیے نہیں تھی بلکہ ان کی پیشانی سے
چمکنے والی خوش بختی و سعادت مندی کی کرنوں کا مشاہدہ کرنے کے بعدانہوں نے
خصوصی توجہات سے نوازا۔
معاصرین میں انفرادیت: قحط الرجال کے اس دور میں باعمل علما کا ملنا مشکل
ہے۔ تکبر و ریا، بغض و کینہ و حسد کے جرثوموں نے فکری و عملی بے راہ روی کی
بیماری سے اہلِ علم کو بھی متاثر کردیا اور دین میں فتنہ و فساد ، شریعت کے
مقابلے میں طبیعت پسندی کو شعار بنایا جارہاہے۔ایسے دور میں خوفِ الٰہی سے
لرزاں دل لیے اپنے اقوال و افعال اور زبان و قلم سے شریعت کا تحفظ کرنا
یقینا جہاد سے کم نہیں۔حضور محدثِ کبیرکا شمار ان اکابر علما میں ہوتا ہے
جو آج کے اس پرفتن دور میں بھی شریعت پسندی کے قائل ہیں۔آپ نے ہمیشہ اسلامی
افکار و خیالات اورعقائد و نظریات کی پاسبانی کی۔ خلافِ اسلام اُٹھنے والی
ہر تحریک،نظریہ اور مہم کی سرکوبی کے لیے مردِ میدان بنے رہے۔احقاقِ حق اور
ابطالِ باطل آپ کا طغرۂ امتیاز ہے۔ آپ بہ یک وقت مفتی بھی ہیں،محدث بھی ،
مفکر بھی ہیں، مدرس بھی، شارح و حافظِ احادیث بھی ہیں، فقیہ بھی، مناظر بھی
ہیں، مقرر بھی، مصلح بھی ہیں، پیرِ طریقت اور عظمت و ناموسِ رسالت کے سچے
پاسبان بھی۔
درس و تدریس:۲۲ سال کی عمر ہی سے آپ نے درس و تدریس کا آغاز کردیا تھا۔
مادرِ علمی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں کئی سال درس دیا ۔اس کے بعد وطنِ
مالوف گھوسی میں ایک عظیم تعلیمی ادارہ ’’جامعہ امجدیہ‘‘ قائم کیا۔ آپ کی
تدریسی خدمات کا عرصہ تقریباً نصف صدی پر محیط ہے اس میں انہوں نے مسلسل
۴۰؍ سال احادیث پڑھائی، فتاوے لکھے،دنیا کے مختلف جامعات میں درسِ حدیث کے
افتتاح و اختتام میں دروس دیتے آرہے ہیں۔ آپ کے ہزاروں تلامذہ ہیں جودنیا
کے مختلف گوشوں میں مصروفِ خدمت دین ہیں۔برصغیر میں علماے اہلِ سنت کی ہر
سال تقریباً ایک ہزار نئی کتابیں اور رسالے منظرِ عام پر آتے ہیں۔اسلامک
لیٹریچر بورڈ لکھنؤ کے مطابق ان کتب و رسائل کے مصنفین میں ۹۵فی صد حضور
محدثِ کبیرکے شاگرد ہوتے ہیں۔آپ کے تلامذہ میں بہت سارے شیخ
الحدیث،صدرالمدرسین اوراستاذالاساتذہ ہوئے ۔معاصرین میں آپ کی بے لوث
تدریسی خدمات کے پیشِ نظر آپ کو’’سلطان الاساتذہ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا
ہے۔
تبلیغ و ارشاد: آپ دنیا کے مختلف ممالک میں تبلیغی دورے بھی فرماتے
ہیں۔برصغیر کے علاوہ یورپ و افریقا اور امریکا وغیرہ میں متعدد غیر مسلموں
نے آپ کی تبلیغی مساعی سے اسلام قبول کیا نیز ہزاروں ایسے افراد ہیں جنہوں
نے آپ کی مجلس وعظ میں شرکت کی اور بدعقیدگی اور بد عملی سے توبہ کر کے نیک
انسان بن گئے۔آپ کو حضور حافظِ ملت اور حضور مفتی اعظم علیہم الرحمہ سے
اجازت و خلافت بھی ہے ۔ آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ کے شیخ طریقت بھی ہیں۔
ممتازالفقہا:آپ کی نمایاں خصوصیات میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ ایک نابغۂ
روزگار فقیہ ہیں۔فقاہت کا عطیہ ربانی ہوتا ہے جو خواص کو من جانب اﷲ عطا
کیا جاتا ہے۔محدثِ کبیر کو بھی یہ عطیۂ ربانی حاصل ہوا ہے۔آپ کی فقہی بصیرت
کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مبارک پور سے تکمیلِ درس کے بعداس نو
عمری میں آپ نے ایک کل ہند فقہی مقابلے میں حصہ لیا۔جس میں ہندستان کے بہت
سارے اسکالرز نے حصہ لیا۔اس میں محدثِ کبیر نے پہلا مقام حاصل کیا۔اسی موقع
پر آپ کو ’’ ممتازالفقہا‘‘ لقب دیا گیا۔
آپ نے مسلمانوں کے دینی، مسلکی، سماجی، عائلی،معاشی،معاشرتی، سیاسی اور
تعلیمی وغیرہ مسائل پرہزاروں فتوے صادر فرمائے،جو تشنۂ طباعت ہیں،(اہلِ علم
و ثروت کو چاہیے کہ اس جانب توجہ دیں تاکہ قوم کے لیے علمی سرمایہ منظرِعام
پر آسکے۔)آپ شرعی کونسل آف انڈیا بریلی کے صدر ہیں۔جس کے تحت حضور تاج
الشریعہ علامہ ازہری میاں کی نگرانی میں ہر سال فقہی سیمی نار منعقد کیا
جاتا ہے اور نَو پَید مسائل کا شرعی حل پیش کیا جاتا ہے۔
محدثِ کبیر: آپ کو سب سے زیادہ شہرت بطور’’محدث‘‘ملی۔ اس لیے کہ آپ دورِ
حاضر میں یقینا ایک عظیم ماہرِ علومِ احادیث اور حافظِ احادیثِ کثیرہ
ہیں۔گزشتہ سال ۲۰۱۲ء میں یورپ کے ایک تحقیقی ادارے نے مسلم قائدین اور
نمائندہ شخصیات کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں حضور محدثِ کبیر کو نمایاں
مقام دیا گیا تھا۔اس رپورٹ کے مطابق آپ کو کئی ہزار احادیث مع سند و متن
یاد ہے۔یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ ان کے درس اور تقریروں کو سننے والے حضرات
اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ ایک ایک موضوع پر کئی کئی احادیث سند کے ساتھ
زبانی پیش کردیتے ہیں۔اور سننے والے آپ کی حدیث دانی اور حافظے کے قائل
ہوئے بغیر نہیں رہتے۔محض احادیث بیان کرکے ان کا ترجمہ کردینا کسی کی حدیث
میں مہارت کی دلیل نہیں بلکہ ان میں پنہا احکام و عقائد اور اشارات تک
رسائی اور ان سے مسائل کا استنباط ایک محدث اور فقیہ کی حدیث دانی کی خوبی
ہے۔معاصرین میں حضور محدثِ کبیر کے یہاں یہ سب خوبیاں بدرجۂ اتم موجود
ہے۔علمِ حدیث کے حوالے سے آپ کا ایک اہم اور منفرد کام یہ ہے کہ آپ ترمذی
شریف کی شرح تحریرفرمارہے ہیں،اہلِ سنت میں اس کتاب کی شرح کی کمی تھی وہ
آپ کی ذات سے پوری ہوجائے گی۔انشاء اﷲ!
حضور محدثِ کبیر کی حیات و خدمات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ان کی
حیات کے تفصیلی حالات اور ان کی خدمات کے کئی گوشے ابھی پردہ میں ہیں۔ اہلِ
علم اور صاحبانِ قلم و تلامذۂ محدثِ کبیر کی یہ ذمہ داری ہے کہ حضرت کی
پہلودار شخصیت اور دینی وعلمی اور تبلیغی خدمات کا مطالعہ کرکے منظرِ عام
پر لائیں تاکہ ان کی بے باک اور صداقت شعار زندگی سے آنے والی نسلیں نشانِ
منزل پاسکے۔ |