سردار علی کی ادبی وصحافتی خدمات

اب سماج کاآئینہ ہوتاہے۔یہ زمانے کی روش ورفتار ،معاشرے کے میلان ورجحان ،تہذیبی ثقافتوں اور عمرانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اردو زبان وادب نے ہردورمیں رفتار زمانہ کا ساتھ دیا ہے۔اس نے زندگی کے اچھے پہلوؤں اور اخلاقی تصورات کوابھارنے میں بھی اہم رول ادا کیا ہے۔اور قدم قدم پر خارجی محرکات سے متاثر ہوئے بغیربھی نہیں رہاہے ۔اور شعروادب صرف قلعوں اور محلوں کی فیصلوں کے اندر پروان نہیں چڑھا اورنہ ہی دریاؤں تک محدود رہا بلکہ اس نے نے عوام کے دل کی دھڑکنوں سے ہمیشہ رشتہ قائم رکھا۔

بزم ہستی میں رب کی قدرت کے مظاہر کا شمار نہیں۔ہر صدی اور ہر زمانے میں ایسی ملتی ہیں ۔جو انفرادی شان کے ساتھ اس کارگاہ حیات میں جلوہ افروز ہوئی ہیں۔ان میں کوئی ایسا امتیازی جو ہر ہوتا ہے۔جو نمایاں نظر آتاہے اوروہ اسی جو ہرکے باعث اپنے معاصرین سے ممتاز نظرآتے ہیں۔بیسوی صدی میں دنیا نے جتنی عظیم ہستیاں پیداکیں ہیں بلاشبہ سردار کو ان میں اک اہم مقام حاصل ہے۔میں اسی بالغۂ روزگار عیقری شخصیت پراپنے خام قلم کی روشنائی صرف کرنے جارہاہوں۔دنیا جنہیں بابائے قوم کے نام سے جانتی ہے ۔یہ ایک عقیدت مند کا غلو نہیں دور حاضر کے اہل نطر ،دانشور،نکتہ ہیں اور مردم شناس حضرات کا فن فقہ حتمی رائے ہے۔

سردار علی عالم اسلام ومسلمان کے ان دانشوروں میں ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کے علمی، مذہبی، اخلاقی، تمدنی اور سیاسی نظریوں اورانتظامی امور کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہے۔اور اخلاقیات کا ایک ایسا مکمل اورروشن خاکہ مرتب کیا ہے جورہتی دنیا تک اس کا شاہکار رہے گا۔ان کی نظریات نے ہندوستانی ذہن کی تعمیر میں غیر معمولی حصہ لیا ہے۔سردارعلی نے نہ صرف انسانی ذہن کی تعمیرکی بلکہ ان کے ادبی کارنامے کے مطالعہ کی روشنی میں کہا سکتا ہے کہ وہ اپنے کسی معاملے میں اپنی رائے جان بوجھ کر تبدیل کرتے ہیں تو تبدیلی صاف طور پر نظرآتی ہے البتہ دھیان سے دیکھنے والی آنکھ ہی ارتقاء کے اس عمل کودیکھ سکتی ہے ۔سردارعلی کی مقصد سچائی کی اس صورت حال سے مطابقت قائم رکھتا ہے جسے وہ کسی خاص لمحے میں دیکھتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں سچائی کی تلاش میں زیادہ کامیابی حاصلہ ہوتی ہے ۔انہوں نے مستقبل کو درخشاں بنانے کے لیے جس انداز فکر کواختیار کیا اس بارے میں وہ فرماتے ہیں میں مستقبل کا حال جاننے کا خواہش مند نہیں ہوں ۔میرا تعلق زمانۂ حال سے ہے۔خدانے مجھے آئندہ ہونے والے واقعات کوکنٹرول کرنے کی طاقت نہیں دی۔لیکن حال کے لمحوں کے سے عملی تعلقات ہی درخشاں مستقبل کی بنیاد ہے۔ہمارے چاروں طرف جو گہرا اندھیرا ہے ۔وہ لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے ۔خدا ہمیں صرف ایک قدم آگے تک دیکھنے کی طاقت دی ہے ۔اگر ہمیں خدا کی رحمت سے اتنی روشنی میسر آجائے کہ ہم اتنا فاصلہ دیکھ لیں تو یہ ہمارے لیے کافی ہوگا۔دوسرے الفاظ میں یہ اندھیرا اتنا گہرا نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں یہ اسی وقت زیادہ گہرا نظرآتا ہے ۔جب ہم بے صبری کے عالم میں ایک قدم آگے کاحال معلوم کرنا چاہتے ہیں۔وہ اعتقاد رکھنے والا انسان ہے اس کا بھروسہ خدا پر ہے ۔اس کے لیے ایک قدم بڑھانا ہی کافی ہے۔اور جب وقت یاد آتا ہے تو خدا خود ان پر یہ بات واضح کردیتا ہے کہ اس کا دوسرا اقدام کیا ہونا چاہئے ۔
وہ خود کو ایک ادنی انسان سمجھتا ہے۔ جو پوری طرح اچھا،سچابنے کی اورخیال ،قول اورعمل میں ہمیشہ عدم تشدد پرکاربندرہنے کی جدوجہد کردیا ہے۔ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی طاقت نہیں جوکہ سچائی پر زوردینے سے حاصل ہوتی ہے۔وہ خوبصورتی کو سچائی میں اورسچائی کے ذریعہ ہی سے دیکھتا ہے ۔تمام سچائیاں نہ صرف سچے خیال ہیں بلکہ سچے چہرے سچی تصویریں دیکھ نہیں پاتے ۔عام انسان اس سے دور بھاگتا ہے ۔ اوراس میں پہنچان اور خوبصورتی اسے نظر نہیں آتی جب لوگ سچائی میں خوبصورتی پہنچاننا شروع کردیں گے تو صحیح آرٹ پیدا ہوگا ۔

میری رائے میں سردارعلی کی شخصیت ایسی ہے کہ جو اپنی طبعی اورجسمانی سفرکے بعد بھی رہتی دنیا لاتعداد آدمیوں ،تصویروں اور صحیفوں کی ہیئت میں زندہ رہیں گے ۔ان کا عقیدہ ہے کہ ہرمذہب کے ماننے والے اپنے مذہب کا تبلیغ کرنے کا حق ہے ۔مذہب کی بنا پر کسی سے امیتاز نہیں بھرسکتا ۔گو عمل ک دنیا میں یہ بات آسان نہیں ہے مگر اصول زندگ کا نصب العین ہوتو عملی دنیا میں اس خیال کو رفتہ رفتہ رائج کیا جاسکتا ہے۔وہ ہمارے ان قومی رہنماؤں اورمشاہیر میں سے ہیں جواپنے پیشے میں انہماک اورامتیاز کے باوجود قومی کاموں میں دل کھول کر حصہ لیتے ہیں ۔انہوں نے مسلمانوں کی فلاح وبہودگی کی پے ہر تحریک میں ہرگام پرحصہ لیا ہے وہ جداگانہ انتخابات اوراقلیتوں کی مناسب تحفظات کے حامی ہیں۔شعر وسخن چونکہ قومی اورادبی تعلیم کی نصب العین لے کر سامنے آئی اس لیے وہ اس کی دامے ،درمے سخنے،قدمے خدمت کررہے ہیں۔قومی نقطہ ٔ نظر کے ساتھ وہ اردو ادب مسلمانوں کے جائز مطالبات کی برابر حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے شعر وسخن کے نام سے انسانوں کو ایک ایسا نسخہ عطا کیا ہے جو بلاشبہ عالم انسانیت اور اردو ادب کے لیے آیت نجات ہے وہ ایک عملی لانسان ہیں ماضی پرستی ان کے یہاں آخور کا تحفہ ہے اوروہ نہ ہی ٹھوس اور ناقابل تردید حقائق سے روگردانی کرتے ہیں ۔زمانے کی برق رفتاری اور بھاگ دوڑنے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی اجازت ہی نہیں دیتی اورہوتا بھی یہی چاہے اس لیے کہ تیز رفتار افراد اورقوموں کی نگاہیں ہمیشہ مستقبل کے لاففناہی امکانات ہیں۔نئے منزلوں کی متلاشی رہنی ہیں۔ان کی شخصیت بااثر ہے کہ ان کی رائے کونظر انداز کرنا آسان نہیں۔سردارعلی انسانیت کے پرستاد ہی نہیں علمبردار ہیں وہ عالمی قومیت پر یقین رکھتے ہیں مگرقومیت کا ان کا تصور ہندوستانی کا نہیں ہے وہ ہماری مشترکہ تہذیب کے شاندار مظہر ہیں۔وہ ہندو مسلم سکھ اور عیسائی اتحاد کے لیے مدام کوشاں رہتے ہیں ۔مسلمانوں کو علیحدگی پسندی سے بچنے کی ہمیشہ تلقین کرتے ہیں ۔ اردومسلمانوں کے مسائل سے ان کی گہری دلچسپی ان کا نصب العین بن گیا ہے۔ان کا عقیدہ ہے کہ سچی قوم پرستی اور سچی ادب اور جمہوریت ،اقلیتوں کے ساتھ انصاف کر ہے اور قومی رہنماؤں زندگی کا نصب العین بنائیں۔جو ہماری قومی زندگی ی تعمیر میں نمایاں حصہ لے رہے ہیں۔خصوصاً مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری ان کی فلاح وبہبود گی کے امکانات کو ضروری سمجھا ہے ۔سیکولر تصور رفتہ رفتہ وظیفہ لب سے بڑھ کر طرز زندگی بننے لگا ہے ۔اس سے انسانوں خاص کر مسلمانوں کوسردار علی کی زندگی اور کارنامے سے ولولہ اورامنگ حاصل کرنا چاہئے تاکہ سچی قومیت اور سچی جمہوریت کی منزل تک پہنچ سکیں ۔

اردو کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم چندسکہ رائج الوقت قسم کے ناموں کے پیچھے دوڑتے ہیں ان کی طرف کم دیکھتے ہیں۔جوشہرت بلندیوں پرنہیں ہوتے مگر ایک خاص پیدایہ ٔ اظہار ایک خاص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اوریہ کہ ’’خوش درخشید والے مستعجمل بود‘‘کے مصداق سردار علی اسی زمرے کے اسکالر ہیں انہوں نے اپنی تخلیقات میں سبینۂ صحرا لبوکی لکیر کھینچ کر بہار کے یہ راستہ ہموار کیا ہے یعنی انہوں نے اپنی ادبی کارنامے کے ذریعہ انسانوں کواس قدر محنت کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ مفلسی کا خاتمہ ہوا اور ہرگھرمیں دن عید رات شب برات ہو اقبال نے عصر جدید کے شامی مسلمان کا جو تصور مردمومن کے نام سے اپنے کلام میں اور گاندھی جی نے مرد حق کا جو نمونہ اپنی زندگی میں پیش کیا ہے ۔ان دونوں کی جیتی جاگتی شبیہ مجھے اور میری طرح اور بہت سے لوگوں کو سردار علی کی شخصیت میں نظرآتی ہے۔ سردارعلی فقہہ کے میدان میں بھی مجتہدانہ فکرکے حامل ہیں۔انہوں نے ہمیشہ انسانوں کو اس جانب متوجہ کیا ہے اور اس بات پرزور دیتے ہیں کہ ہر زمانہ میں نئے نئے مسائل ابھرتے ہیں ۔ان کے بارے میں شریعت کا نقطۂ نظر متعین کرنے کے لیے اجتہاد کا طریقہ اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔اسلامی تاریخ کے اولین ادوار مے فقہی مسائل کے حل کے لیے اجتماعی غور وفکر کا معمول پر رہاہے ۔اوریہ کہ فقہی مذاہب کے ظہور کے بعد اس میدان میں امام ابوحنیفہ کی خدمات سب سے زیادہ نمایاں رہی ہیں ۔انہوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ آج کے دنیا میں درپیش مسائل کے حل کے لیے مسلم پرسنل لاء بورڈ اسلامی فقہہ اکادمی کے توسط سے یہ طریقہ اختیار کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے ۔ماضی میں فقہانے مسائل کے حل کے لیے اجتماعی غوروفکر اور اجتہاد کا طریقہ اختیار کرنے کی بہت سی مثالیں چھوڑی ہیں۔بہترہوگا کہ موجودہ دور کے علما ان سے سبق حاصل کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کے لیے درپیش مسائل کا حل تلاش کریں اور ثابت کریں کہ شریعت ہر دور میں قابل عمل ہے ۔اور اس کی اتباع میں ہی انسان کی بھلائی اورکامیابی ہے۔

سردار علی کی شاعری کا انتخاب بھی بہت خوبصورت انداز میں شائع کیا گیا ہے ۔اس انتخاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سردار علی آزادانہ انتخاب ہے۔شعری یا نثری ادب کا انتخاب ہمیشہ آزادانہ ہی ہونا چاہئے ۔انتخاب کے لیے مزید اچھا اورنہ ضروری ہے کہ ادبگ کا ہر قاری یا ادیب انتخاب کی جانب سے ہمیشہ آزادانہ مطمئن ہو کیونکہ اس طور پر آزادانہ انتخاب کے پاؤں میں بیڑیاں پڑجاتی ہیں ۔اورانتخاب کے پاؤں میں بیڑیاں پڑجائیں تو وہ انتخاب نہیں بلکہ مخصوص لکھنے والوں کا اشتہار بن کر رہ جاتا ہے ۔سردار علی انتخاب اشتہار نہیں ہے واقعی انتخاب ہے ہماری نظر میں شاعری کا یہ بڑاہی نمائندہ اور مستند انتخاب ہے۔سردار علی ادبی دنیا میں ادیب ،صحافی،نقاد،مصلح اوران تھک اصلاحی کم کرنے والوں میں خود ہی ایک انتخاب کی حیثیت رکھتے ہیں وہ باہر سے نہیں اندر سے شاعر ہیں ان کے لیے بڑے واقعات کے ساتھ ساتھ معمولی سی معمولی چند علامت بن کر وسیع شاعری کا موـضوع بن جا تا ہے ۔

خدایان سخن وپیمبر ان فن سرداعلی نے صرف زبان وادب کی بڑی خدمتیں انجام نہیں دیں۔بلکہ انتہائی عظیم الشان انسانی،اخلاقی اور تہذیبی خدمتیں بھی انجام دی ہیں۔ان کی عظیم شعری اور نثری روایت ۔ایمانی استحکام کے ساتھ ساتھ روحانی،روشن فکری،رواداری اورعام انسانی ہمدردی کے اقدار کی حامل اورانہیں پروان چڑھانے والی ادبی وشعری روایت ہے۔جس کی بطور خاص آج دنیا کو شدید ضرورت ہے۔لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم موصوف اوران کی طرح دیگر عظیم فنکاروں کے لسانی،ادبی،شعری اور فنی عطیات کی حقیقی فکر ذاتی کا ثبوت دیں اور اپنی جانب سے عرفان جمیل کا قرار واقعی حق ادا کریں۔

انہوں نے اردو کے جملہ اصناف کے پیرایہ میں مناظر قدرت کی تمام موضوعات مثلاً کثیر مات،نباتات،جمادات پر طبع آزمائی کی ہے اور بنی نوع انسان سے متعلق مسائل خوشی وغم ہرلمحات کوبڑی چبکدستی اور خوبصورتی سے پرویا ہے۔موصوف نیاپنی شاعری میں بے شمارموضات قائم کئے ۔مثلاً لغت،تندبسی ،داستاں دلیرودلدار…… ہرموضوع کے تحت آنے والے اشعار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ہمارا شعر ہر ایک عالم دیوان رکھتا ہے یہ ایک ایسا مرقع ہے جس میں ذی فہم کے ساتھ ساتھ خاص وعام مسائلوں کا حل موجودہے ۔
سردارعلی نے اپنی شاعری کے ذریعہ اردو مثنوی میں جاری جمود تعطل کو اپنے نوک قلم سے توڑا ہے جو جو ئے شیرلانے سے یاہفت خورہ طے کرنے سے کم مشکل کام نہیں جبکہ پرانی تہذیب دم توڑ رہی ہے ۔اورنئی تہذیب ابھی قائم نہیں ہوسکتی ہے۔اس نیم تعطل کی وجہ طبیعتوں میں انتشار پیدا ہوگیا ہے۔اس انتشار کے ہوتے ہوئے مثنوی لکھنا مشکل ہوگیا ہے۔

منظوم افسانے یا کہانیاں مثنویوں کی شکل میں یا تو لکھے ہی نہیں گئے ۔لکھی گئی ان کی ادبی خوبیوں سے افکار نہیں کیا جاسکتا۔یہ مثنویاں منظوم افسانوی ادب کی ایسی مثالیں ہیں جس میں سادگی تسلسل اورروانی کے ساتھ ساتھ ایک سرحد اور یانکین معصومہ ہے ۔

انجیل مقدس میں کہا گیا ہے کہ ہواجس سمت چاہتی ہے کہ اپنا رخ کرتی ہے ہم اس کی سنسنا ہٹ سنتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ آکہاں سے رہی ہے ۔یہی حال ادب کا ہے منظوم افسانوں یا مثنوی کونیند ضرور آگئی ہے اوریہ عبدیت بھی رہی ہے کہ پھر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔اورکہا جائے تو شایدغلط ہوتا کہ یہ خواب مثنوی خواب دائمی ہے۔کون جانے مثنوی کب جاگ اٹھے اور کس کروٹ سے جاگ اٹھے۔مثنوی کی پرانی تکنیک اورموجودہ تقاــضوں کے مطابق نئی تکنیک پرعبور حاصل ہے۔انہوں نے نئے مطالبوں سے بھر اور مثنویاں قلم بند کئے ہیں۔ادب آزاد ہائے بازگشت کا ایک سلسلہ ہے۔سردار علی کی مثنویاں میر حسن اور نسیم کی مثنویاں سے مختلف ہیں۔سردار علی ہومر،ورجل،ڈانٹے،ملٹن،فردوسی اور تلسی دام کے کارناموں سے بخوبی واقف ہیں اس کے علاوہ غیر انسانی بلند شاعری اورمنظوم ڈراموں کا بھی انہوں نے گہرا مطالعہ کیا ہے۔مثنوی کی نشاۃ ثانیہ کے خلاف صرف ایک امکان ہے اردومیں جس طرح آزاد نظم ترقی کررہی اسے دیکھتے ہوئے اس کا امکان زیادہ نظر آتا ہے کہ مستقبل میں منظوم افسانہ لکھنے والا شاعر اپنے کارنامے کے لیے آزاد نظم کا سہارا لے۔

اس مختصر مضمون میں راقم کے لیے ممکن نہیں کہ سردار علی کی طویل ادبی خدمات کا جائزہ لے سکوں۔انہوں نے اردو تحریک اور اردو زبان کی بقا اور ترقی کے لیے اہم ترین خدمات انجام دی ہیں اور اردو والوں کی رہنمائی کی ہیں۔اردوکے سلسلے میں وہ کسی سے بھی نہ تو مفاہمت اور مصالحت کا تصور روا رکھتے ہیں۔اورنہ کسی طرح کی مصالحت کو بروئے کار لاتے ہیں اردو سے انہیں جنون کی حد تک محبت سے شعروسخن کا ذوق انہیں ورثہ میں ملا ہے۔موصوف کا شمار صف اول کے شعراء میں ممکن نظر آتا ہے۔انہوں نے گہوارۂ علم وادب میں آنکھ کھولی۔بہت ہی کم عمر سے وہ دنیائے شعرا وادب سے متعارف ہوچکے ہیں۔نثر نگاری میں ان کی تحریریں اپنی سادگی اور پرکاری کی بنا پر عام موضوعات پر لکھنے ان کے مضامین کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے۔ان کی نثر نگاری پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔سردار علی بحیثیت شاعر بڑے مثنوی نگار،نظم نگاریا غزل گوہیں ۔اس کا تعین آنے والا وقت کرے گا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ قومی،وطنی اورسیاسی نظموں پر مشتمل ہے۔اردو ہمیشہ سے عوامی زبان رہی ہے اور اس زبان نے ہر عہد اور ہردور میں عوام کا ساتھ دیا ہے۔ اردو شاعری کا وہ باب جو قومی وطنی اور سیاسی نظموں پرمشتمل ہے۔ اس وقت تک جگمگاتا رہے گا جب تک اردو زباں زندہ ہے جو کبھی فنا نہیں ہوسکتا ۔اردو شاعری کا یہ حصہ ہمیشہ امر رہے گا۔

اردو شاعری اپنے ہردور میں وطن دوست رہی ہے۔اور اردو شاعر ہے جب وطن سے سرشار اردو شاعری میں ہندستانیت اتنی زیادہ رچی بسی ہوتی ہے اور بڑی تعداد میں ایسی نادر مثالیں موجود ہیں۔جو زبانوں کے تعلق سے ہندوستان کے لیے انتہائی فخر وناز کی بات ہے۔ہندستان کی تمام زبانوں میں مشترکہ تہذیب وتمدن قومی یکجہتی اوروطن دوستی کی بنیادڈالنے اس کی لے کو بام عروج پر پہنچانے اورنئے گنگا جمنی معاشرہ کو جنم دینے والی اردو زبان ہی ہے۔اردو شاعری نے عوام اور خواص کے احساس غلامی کو بہت بڑھا دے دئیے۔ہر موڑ پراردو شاعروں نے نہایت زودار نظمیں لکھیں چاہے وہ سب سے بڑی جنگ عظیم جنگ آزادی ہویا اس کے دوسری جنگ عظیم،سیاسی مذاکرات اور ہمہ گیر بغاوت کے رجحان ومیلان پر اردو میں موثر ترین نظمیں لکھی گئیں انقلاب زندہ باد کا نعرہ جس شدت سے اردو شاعری میں گونجا وہ ہندوستان کی تاریخ جنگ آزاد کا نہایت زریں باب ہے۔

اردو کی قومی اورسیاسی شاعری کا تیسرا رخ اورباب ہائے کے بعد شروع ہوتا ہے۔سردار علی کی یہ وطنی قومی اور سیاسی نظمیں اسی تیسرے دور کی پیداوار ہیں۔سردار علی نے بھی اس روایت کو آگے بڑھانے کی مقدور بھر پور کوشش کی ہے۔آزادی ملنے کے بعد قومی ملکی اورسیاسی مسائل کچھ زیادہ ہی ہنگامی تشویشناک اور فکر انگیز اور المناک رہے ہیں۔سردار علی قومی ملکی اورسیاسی مسائل میں کچھ زیادہ ہی زور رنج واقع ہوئے ہیں۔ان شاعری میں شامل عوام الناس کی پسندیدگی کے حامل اور مقبول نظمیں اور مثنویاں انا کے ان ہی احساسات کا ایک جاوداں روپ ہیں۔میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں پاتاکہ موصوف کی شاعری پر کوئی سیرحاصل نقدوتبصرہ کرسکوں۔سردار علی اس بزم ہستی کے ہر دلعزیز ہیں اور ہندوستانی عوام کے محبوب بنکر جی رہے ہیں۔

موصوف کے اس شعری مجموعہ کی داد سچ مچ یوں دی جاسکتی ہے کہ اردو شاعری کا مطالعہ کرنے والے ہر گھر میں ان کی شاعری پڑھے اور اہل ذوق اپنی توجہ کا مرکزبنائے۔موصوف کے لیے اگر میں یہ کیوں کہ وہ اردو کے گنے چنے چند حقیقی شاعروں میں سے ایک ہیں تو مجھے کوئی خوف تردید نہیں ہے۔

جناب سردار علی اردو شاعری کا بے حد معتبر اور معزز نام ہے۔ان کی ادبی شخصیت کی کئی جہات ہیں کئی پہلو میں ایک سے ایک زیادہ تابناک اردو کے علاوہ وہ پنجابی شعر وادب میں بلند وبالا مقام مرتبے کوحاصل کرچکے ہیں انگریزی ادب کے وہ معلم رہے ہیں تاعمر اوراس زبان پر انہیں قدرت کاملہ حاصل ہے۔اسی نسبت سے ان کی رسائی دنیا بھرکی دیگر زبانوں کے ادب تک رہی ہے اورانہیں یہ کما حقہ طور پر معلوم ہے کہ ادبی دنیا میں نئے نئے رجحانات وان کی پیش رفت کس نوعیت کی ہے اس لحاظ سے وہ ایک عالم باعمل کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں ۔فی زمانہ وہ بے حد باقاعدگی اور بے انتہا انہماک سے اردو شاعری میں تخلیقی کام کرتے رہے ہیں اردو شاعری سے ان کی وابستگی بہت پرانی ہے اور یہ کہنا بالکل برحق ہے کہ عمر ’’عمر گزری ہے اسی دست کی شیاحی ہیں‘‘جن لوگوں کو ان کے اردوکلام کوسننے کی سعادت نصیب ہوئی ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ اس میدان کے شہہ سوار میں اوران کا کلام ایک استادانہ پختگی اور شان کا حامل ہے ان کے بیان کی بے ساختگی ورجستگی اورزبان کی سلاست اور روانی اس نوعیت کی ہے کہ اعتراف کرناپڑتاہے کہ ایسے شاعر کا کلام ہے جس نے خدا دادا استعداد کے ساتھ ساتھ بے پناہ ریاضت سے یہ کام انجام دیا ہے جس کی نظر شاعری میں حسن بیاں اور حسن معنی دونوں پہلوؤں پریکساں ہے اور جو اپنے اس کام کو اولیت دیتا ہے اورجس کے لیے یہ کام ایک Tabour of love ہے۔میں شہرہ آفاق فرانسیسی نقاد سینٹ بیو کے اس مقولے سے پوری طرح متفق ہوں کہ صرف ایک اعلیٰ شخصیت ہی اعلیٰ ادب تخلیق کرسکتی ہے۔اگر یہ بات ایک گلیے کے طور پر قابل قبول نہ بھی ہوتو بھی سردارعلی کی حالت میں یہ بات صدفی فیصد برحق ہے۔ان کی شخصیت اور شاعری میں کوئی تضاد نہیں ان کی شخصیت کی عکاسی ہے۔زندگی کی وہ اعلیٰ وارفع اقدار جن کی جھلک آپ کو بار بار ان کی شخصی زندگی میں ملتی ہے انہیں کاپر تو ان کے مروت ،وہی شائستگی وہی متانت ورواداری ،وہی شگفتگی اور حوصلہ مندی جو ا ن کی شخصیت کو اتنا دلپذیر اتنا پرکشش بناتی ہیں ان کی شاعری میں جگمگاتی دکھائی دیتی ہیں۔ان کی شخصی زندگی سے متعلق سوچتے ہوئے مجھے انگریزی ادیب Stevensonکا ایک فقرہ یاد ہوآیا ہے۔’ایک شخصیت جس کے کسی محفل میں آتے ہی یوں محسوس ہو کہ گویا ایک اور موم بتی روشن کر دی گئی ہے ۔اس کمر ے کی روشنی میں ان کی موجودگی ،صرف موجودگی سے اضافہ ہوگیا ہے۔‘

Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 121269 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More