امیر دوست بجٹ

طنز ومزاح بھی ادب کا ایک مقدس حصہ ہے اورچونکہ اس حصے کا بہت سا حصہ بے ادب ہوتاہے اسلیئے ارباب بست وکشاد سے دردمندانہ اپیل ہے کہ میرے عنوان ”امیر دوست بجٹ “کو طنزومزاح اور غریبوں کے دلوں کی صداسمجھتے ہوئے پوری قوت سے نظرانداز کردیں جس طرح” ڈرون حملوں “کوگزشتہ حکومت پروقار انداز سے نظر انداز کرتی آئی ہے۔اور شکستہ حکومت کی ڈرون پالیسی یہ ہوتی ہے کہ وہ خود اٹیک کرتی ہے ‘جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں (ماراںتے سہی پر مارن نہ دیواں)۔

لیجئے اب کالم شروع ہونے لگاہے ۔جس طرح ہردور غریبوں کے نام سے شروع ہوتاہے اوراس دور کا انجام انہیں مزید غریب کیئے دیتاہے۔ایک صاحب کو دیکھابجٹ سن کر انکی باچھیں کھلی ہوئی اور ایسے لگتاتھاکہ وہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے‘استفسار پر انہوں نے بتایاکہ میں گوالا ہوں اور موجودہ بجٹ نے امیروں کی کنڈ لگادی ہے اسی واسطے خوش ہوں‘ایک لمباساگھونٹ پانی کا پیااور بڑے پُروقارانداز سے پھرراقم سے مخاطب ہواکہ جناب اب دودھ ہی کی مثال لیجئے :غریب پرور حکومت نے کھلے دودھ پر ٹیکس نہیں لگایاجس کی وجہ سے میرے کاروبار کوزک پہنچنے کاخدشہ نہیں ۔اور دودھ کے ڈبے کی جوکمپنیاں ہیں وہ امیرلوگوں کی ہیں اُن پردرددل رکھنے والوں نے سینہ ٹھونک کہ ٹیکس لگایاہے تو اب بھی ہم خوش نہ ہوں تو کب ہوں گے؟راقم کو چونکہ بجٹ کی سمجھ نہیں ہے اسلیئے گوالا کہ آگے بولنے کی جراءت نہیں ہوئی حالانکہ دماغ میں بار باریہ بات ہتھوڑے کی مانند چوٹ لگارہی تھی کہ چلو کمپنی تو امیر کی ہوتی ہے لیکن ڈبے تو گریب بھی استعمال کرتے ہیں۔جناب لفظ”غریب“کوگریب لکھناراقم کی عادت ہے کیونکہ گریب جو ہے گریبی کھاتاہے شکرہے مولاکاکہ گریبی پرٹیکس نہیں لگا!لوجی خوش نصیبی۔۔۔

اب شام پڑچکی تھی لیکن تجسس کی عادت نے گھرکہ بجائے ایک چھپرنماہوٹل میں جاکھڑاکیا۔سفیدے کہ سہارے کھڑے ہوٹل کی چھت کانوں کی بنی تھی ‘کانوں کہ اوپرکلی اور کلی کہ اوپر لال مٹی سے لیپ کیاگیاتھاکہ اندر پانی نہ آئے۔لیکن غریب کہ گھروندے برسنے سے انکارکریں یہ انکی سرشت میں ہی شامل نہیں ۔لہذا اس میں بھی ٹپ ٹپ ہورہی تھی ۔قاری کو بتاتاچلوں کہ یہ لفظ ”ٹ “پر زبرلگاکرپڑھیئے کیونکہ اگرعام انداز سے پڑھاگیاتو خوف ہے کہ کہیں کوئی اعدادوشمار کاگھورکھ دھندہ سمجھنے والے نہ سن لیاتو وہ فٹ سے ہوٹل کہ غریب ملازم کی ”ٹپ “پربھی ۔۔۔لگادے گا‘گھبرائیے نہیں لگان لگائے گاٹیکس نہیں ۔ہوٹل میں چاراشخاص براجمان تھے ۔دوکہ سفید کپڑے ‘جبکہ ایک نے لال رنگ کاکرتااورسفیدشلوار اورچوتھے اورآخری شخص کی بات رہنے دیجئے وہ اس ہوٹل کی سیٹھ تھا۔اُن میں سے لال رنگ میں ملبوس شخص جاہلوں کاباپ لگ رہاتھا۔کیونکہ سخت گرمی میں اُس نے مفلربھی گلے میں لٹکارکھاتھا اوربھاری بھرکم جوتے بھی اپنے پاﺅں کی زینت بنارکھے تھے۔

اُن تمام اشخاص کی باتیں سننے کیلئے میں اینٹوں کے بنے بینچ پر بیٹھ چکاتھااورظاہر ہے کہ مروت بھی کچھ چیز ہوتی ہے ۔ایویںتونہیں بیٹھارہ سکتاتھا‘چائے کاآڈر دینالازم تھا۔ایک کپ کہہ کر خاموش ہوگیا۔سفید کپڑے والاشخص کہہ رہاتھاکہ اب اُن ساڑھے چھ لاکھ وفاقی ملازمین کا کیابنے گاجنکی تنخواہ نہیں بڑھائی گئی ۔بیچ میں ہوٹل والے نے لقمہ دیاابے ناشکرے میں بھی توہوں جو سوپچاس پرگزاراکرتاہوں ۔اب ظاہرسی بات ہے لال کپڑوں والاکیسے چپ رہ سکتاتھااُس نے اپنے دائیں بازوسے سامنے کے بال سنوارے ‘چائے کاایک چھوٹاساگھونٹ اندرانڈیلااور پھرتی سے بولا”توپھرتم سب اپناحق کیلئے جدوجہد ٹھیک سے کیوں نہیں کرتے ‘جو عمارت تم بناتے ہواُس کی صرف مزدوری ہی تمہاراحق نہیں بلکہ اس میں تمہاراشیئر بھی ہوناچاہیئے ‘جان تم گھولتے ہواورفائدہ اے سی کمرے میں بیٹھاہوشخص اُٹھاتاہے ‘آخر کیوں؟کب تک؟“اب لال کپڑوں والے شخص کو جومیں نالائق سمجھ بیٹھاتھایہ میری غلط فہمی نکلی جیسے پچھلے پینسٹھ برس سے عوام کی اتنی غلط فہمیاں نکلی ہیں کہ بس اب تو جان ہی نکلے تونکلے ۔یہی باتیں سوچ رہاتھاکہ لال بھائی غرایا”کارل مارکس کہتاہے غریبوں تمہارے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں اور پانے کوساراجہان پڑاہے“۔میں یک دم ششدہ رہ گیاکہ میراثی کالباس پہننے والامسخرہ نماشخص دلائل میں بھاری ہوتاجارہاتھا۔میں کارل مارکس کاتومتعقد ہرگزنہیں لیکن وسعت نظری کی بناءپر لال شخص سے مرعوب بھی ہوااور شرمندہ بھی کہ کسی کہ بارے میں پہلے ہی سے غلط خاکہ نہیں بنالیناچاہیئے اورکسی کوجانچنے کاپیمانہ اسکے ظاہر سے ہرگزنہیں لگاناچاہیئے ۔مولاناروم فرماتے ہیں:
نورباید پاک از تقلید و عول
تاشناسامردرابے فعل وقول

(کسی کو پہچاننے کیلئے نور قلبی درکارہے ‘جس کے توسط سے گفت وشنید اور ظاہری افعال کودیکھے بناانسان کے اصل سے واقفیت ممکن ہے۔شاید کپتان کی جماعت کے کارکنوں کوبھی اس شعر کی ضرورت ہے کیونکہ جو سلوک جاوید ہاشمی سے ہوااس کا قلق ہر خاص وعام کوہے اورمعذرت کے ساتھ کپتان سے بھی گزارش ہے کہ مثنوی رومی ضرور پڑھیئے ویسے اگرمیاں صاحب بھی پڑھ لیں تومیری طرف سے کوئی پابندی نہیں )۔

وہاں سے کوچ کیاتوراستے میں کئی باتیں سننے کو ملیں کوئی کہہ رہاتھاامیر کی گاڑی پرلگان نہیں ‘کوئی کہہ رہاتھاکہ ارباب اختیارکو مضمون the beauty industryپڑھ لیتے تو میک اب کاسامان سستانہ کرتے ۔جتنے منہ اتنی باتیں ۔میں سوچنے لگاکہ کہیں غریب مرتونہیں جائے گا؟تو فوراایک بھاری آواز کان میں گونجی” غریب مرے گانہیں مرمرکے جیئے گا“۔میاں صاحب کی سیاسی بصیرت اورملکی حالات کے فہم وادراک سے انکارنہیں لیکن بجٹ بھی تو ایک ناقابل تردید حقیقت ہے بلکہ معاف کیجئے گاشاید ڈراﺅنی حقیقت۔پُراُمید ہوں کہ بجٹ پر نظرثانی کی جائے گی۔اورقارئین سے گزارش ہے کہ میری اُمیدوں پرنہ جائیے گامجھے توبجٹ سے بھی اُمید تھی کہ غریب دوست ہوگالیکن یہ ایک امیر دوست بجٹ ہے۔

مولاناروم نے ایک حکایت نقل کی ہے کہ ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہاکہ تونیچے رہ میں امرود توڑ کرپھینکتی ہوں ۔جیسے ہی وہ درخت کہ اوپرپہنچی امرود توپھینکے ہی لیکن ساتھ ہی واویلاکرنے لگی اوراپنے خاوند سے سختی سے مخاطب ہوئی کہ توبدکاری کررہاہے۔خاوند نے کہاایساکچھ نہیں ہے تومکار عورت نے جواب دیامیں نیچے آتی ہوں توامرود توڑ کردے ۔خاوند نے جیسے ہی امرود کے درخت پر چڑھاتواُس عورت نے اپنے آشناکوبلاکر دنیاکامذموم ترین فعل شروع کردیا۔خاوند چلایاکہ یہ کیاہورہاہے جواباً عورت نے کہایہ اس پیڑ کا اثر ہے کہ جوبھی اوپرجاتاہے وہ ایسے سمجھتاہے کہ نیچے والابدکاری کررہاہے۔اس حکایت سے تین باتیں اخذ کی ہیں ۔اول ممکن ہے اگر گزشتہ امراءحکومت وقت پر چلائے تو وہ اسی عورت والاجواب دے گی۔دوم:بجٹ ایک ایساگورکھ دھندہ ہے جس میں خاوند کی طرح عوام کو چکمہ دیاجاتاہے کہ ایساہرگزنہیں ہے جیساآپ سمجھ رہے ہیں ۔سوم:اگر اپوزیشن متحد نہ ہوئی تو حکومت کی غلطیاں بڑھتی جائیں گی اور عوام کانقصان ہوگا۔یہ بات نہ ہی موجودہ حکومت کے اگلے الیکشن کیلئے بہترہے اور نہ ہی عوام کیلئے ۔عوام تب ہی بچ سکتے ہیں جب اپوزیشن مفاہمت کے درخت پر نہ چڑھے۔جنہیں بُرالگے وہ اپناتئیں درست فرمالیں۔یعنی حکایت کو بدل دیں ‘حقیقت تو نہیں بدلاکرتی۔

طنز ومزاح بھی ادب کا ایک مقدس حصہ ہے اورچونکہ اس حصے کا بہت سا حصہ بے ادب ہوتاہے اسلیئے ارباب بست وکشاد سے دردمندانہ اپیل ہے کہ میرے عنوان ”امیر دوست بجٹ “کو طنزومزاح اور غریبوں کے دلوں کی صداسمجھتے ہوئے پوری قوت سے نظرانداز کردیں جس طرح” ڈرون حملوں “کوگزشتہ حکومت پروقار انداز سے نظر انداز کرتی آئی ہے۔اور رہ گئی بات شکستہ حکومت کی تو اُ س کی ڈرون پالیسی یہ ہوتی ہے کہ وہ خود اٹیک کرتی ہے ‘جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں (ماراں تے سہی پر مارن نہ دیواں)۔

sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188482 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.