ہم کس گلی جا رہے ہیں؟ یومِ پدران | فادرز ڈے

 جس طرح ایک مالی اپنے باغ کے پودوں کو اگاتا ہے، ان کو پانی دیتا ہے، اپنا وقت، محنت اور پیسہ خرچ کر کے ان کی آبیاری کرتا ہے، اسی طرح شادی کے بعد بچوں کی پیدائش کے بعد ایک باپ بالکل باغبان کی طرح اپنے خون پسینے اور محنت سے کمائی ہوئی رقم خرچ کر کے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرتا ہے، ان کو زندگی کی تمام سہولیات بہم پہنچاتا ہے، اس کے لئے نہ وہ دن دیکھتا ہے نہ رات دیکھتا ہے، نہ اپنی صحت دیکھتا ہے نہ اپنی ذات، اس کا ہر ہر لمحہ اس فکر میں گزرتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے بچوں کی اچھی پرورش کر سکتا ہے، کس طرح ان کو زندگی گزارنے کے لئے دنیا جہان کی نعمتیں دے سکتا ہے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی باپ اور ماں کو بچپن میں ان کی اولاد کے لئے پالنے والا قرار دیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام جہانوں کو پالنے والی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اولاد کے لئے والدین خصوصاً باپ کو ایسی ذمہ داریاں سونپی ہیں جس میں ”ربوبیت“ کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی جگہ جگہ والدین کی عزت و تکریم کے حوالے سے ارشادات کئے ہیں، احادیث نبوی میں بھی والدین کے حقوق کا بہت ذکر ہے یہاں تک کہ ایک باپ کو حق دیا گیا ہے کہ وہ تین بار اپنے بیٹوں کے گھر کا مکمل صفایا کر سکتا ہے یعنی جو چیز بھی وہ مانگے اس کا حق ہے اور وہ بیٹے کی اجازت کے بغیر بھی اس کا تمام مال تین بار لے سکتا ہے۔ ہمارے مشرقی اور خصوصاً اسلامی معاشرے میں بھی والدین کے حقوق ادا کرنے کی بہت تاکید کی جاتی ہے۔

آج پھر فادرز ڈے ہے اور میں سوچتا ہوں کہ کتنے بدنصیب بیٹے ہوں گے جو فادرز ڈے پر کوئی تحفہ نہ دے سکیں گے، کوئی کارڈ نہ بھیج سکیں گے، اپنے والد سے "I Love You" نہ کہہ سکیں گے کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جن سے ان کے باپ کا سایہ چھن گیا، وہ باغبان چھن گیا جس کے ہوتے ہوئے کوئی غم پاس نہیں آتا، کوئی دکھ پاس نہیں پھٹکتا۔ہر والد، ہر باپ اپنی اولاد کے لئے باغبان کا درجہ رکھتا ہے۔ یتیمی کی زندگی بہت قابل رحم ہوتی ہے، یہ کوئی ان سے پوچھے جو ایسی زندگی بسر کررہے ہیں۔

مجھے فادرز ڈے کے حوالے سے ایک ٹی وی چینل پر ایک پروگرام دیکھ کر بہت دکھ اور تکلیف سے گزرنا پڑا۔ مغرب کہ جہاں سے ایسے دن منانے کی رسم ہمارے یہاں وارد ہوئی ہے اسی مغرب کی اندھی تقلید میں اب پاکستان میں بھی اولڈ ہوم (دار الکفالہ) بننے شروع ہوگئے ہیں۔ اس میں چند بوڑھے اشخاص کو وہاں زندگی گزارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس میں ایک صاحب رو بھی رہے تھے اور اپنی دکھ بھری کہانی بھی سنا رہے تھے کہ کس طرح ان کے جوان بیٹوں نے ان کو اپنے گھر میں رکھنے کی بجائے اولڈ ہوم میں ”جمع “کرا رکھا ہے اور وہ کیسے اپنے پوتوں اور پوتیوں کو دیکھنے کو ترس جاتے ہیں، ان صاحب کی باتیں سن کر روح تک لرز گئی کہ یا الٰہی ایسی اولاد بھی ہے جو اپنے والد کے ساتھ ایسا سلوک کرے؟ کوئی ”یتیموں“ سے پوچھے کہ والد کی کیا اہمیت اور حیثیت ہوتی ہے، ارے بدبختو! بچو اس دن سے جب تمہارے بچے بھی تمہارے ساتھ ایسا کریں گے؟ اللہ کی لاٹھی بہت بے آواز ہے، اس کے یہاں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن اندھیر ہرگز نہیں۔ آج جو بویا جائے گا، کل وہی کاٹا بھی جائے گا۔ اس لئے ڈرنا چاہئے اس وقت سے جب اسی دنیا میں اعمال کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ ہمیں چاہئے کہ صرف سال بعد ہی ایسے دن نہ منائیں بلکہ سارا سال اپنے والدین کی خدمت کریں، ان کے دکھ سکھ بانٹیں اور ان کی دعائیں لیں۔ ہر دن کو فادرز ڈے اور مدرز ڈے سمجھیں۔ ہماری دنیا اور آخرت کی بھلائی اسی میں ہے۔

Chaudhry Tahir Ubaid Taj
About the Author: Chaudhry Tahir Ubaid Taj Read More Articles by Chaudhry Tahir Ubaid Taj: 38 Articles with 65978 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.