بیٹابہتریابیٹی؟

ہماری سوسائٹی میں یہ ایک عام رویہ ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ عام طور پر بیٹا ہونے پر خوشی منائی جاتی اور بیٹی پر منہ بنایا جاتا ہے۔اگر عقل وفطرت اور اسلام کے لحاظ سے لڑکا لڑکی سے بہتر ہے تو اس روئیے میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو روئیے کی اصلاح ضروری ہے۔ آئیے اس مسئلے کاسنجیدگی سے جائزہ لیتے ہیں:

ماضی کی داستان: اس مسئلہ کا اگر دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم ہی سے بیٹوں کو فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ اس ترجیح کی کچھ معاشی،سماجی اور نفسیاتی بنیادیں ہیں۔ انسان کا ابتدائی دور قبائلی اور زرعئی نظاموں پرمشتمل تھا۔ غذا کاحصول یا تو شکار کرنے پر منحصر تھا یا پھر کھیتی باڑی کے ذریعےغلہ اگانے پر۔ دونوں ہی صورتوں میں بڑی تعداد میں کام کرنے والی لیبر فورس یعنی مزدوروں کی ضرورت ہوتی تھی۔ بیٹا ہونے کی صورت میں ایک فرد کو مفت کےمزدور ہاتھ آجاتے اور بیٹی ہونے کی صورت میں وہ ان کماؤ پوتوں سے محروم رہ جاتا تھا۔یہ بات واضح رہے کہ قدیم زمانے میں باپ کو اپنے بیٹوں پر تشدد، انہیں خاندان سے خارج کردینے، یہاں تک کہ انہیں قتل تک کرنے کے اختیارات بھی بعض صورتوں میں حاصل تھے ۔ چنانچہ بیٹے اپنی معاشی اور سماجی بقا کے لئے باپ
کی حکم ماننے اور مشترکہ جائداد سے جڑے رہنے پر مجبور تھے ۔

ماضی میں بیٹے کو ترجیح دینے کی ایک سماجی وجہ بھی تھی وہ یہ کہ بیٹوں اور پوتوں کی کثرت سماج میں ایک احساس تحفظ فراہم کرتی اور مبینہ دشمنوں سے دفاع میں معاون ثابت ہوتی تھی۔اس کے برعکس بیٹی کی ولادت کی صورت میں ایک طرف تو محافظوں کی نفری میں کمی واقع ہوجاتی اور دوسری جانب لڑکی کی بلوغت اور شادی تک حفاظت کا بار بھی بڑھ جاتا تھا۔

بیٹو ں کو ترجیح دینے کا ایک پہلو نفسیاتی بھی تھا ۔ جب لڑکے کے اس قدر دنیاوی فائدے نظر آنے لگے تو لوگ مرد کو برتر اور عورت کو کمتر مخلوق سمجھنے لگے۔ اسی طرح نسل کے تسلسل کا سلسلہ بیٹے سے جوڑ دیا گیااور ایک غلط تصور پیدا ہوگیا کہ اگر بیٹا نہ ہو ا تو نسل ختم ہوجائے گی۔ ان سب باتوں کا لازمی نتیجہ یہ نکلا بیٹی کی ولادت نفسیاتی طور پر ناپسند کی جانے لگی۔ پھر بعد میں پیدا ہونے والی نسلوں نے اس ناپسندیدگی کو ایک روایت کے طور پر قبول کرلیا۔

موجودہ صورت حال: موجودہ دور صنعتی معاشرے ، منظم ریاست اور شخصی آزادی کا دور ہے۔ اس پروفیشنلزم کےدور میں کوئی باپ مزدوروں کی فراہمی کے لئےبیٹوں کا محتاج نہیں بلکہ اس مقابلے کی اکانومی میں پروفیشنل اور قابل ملازم کو نا اہل بیٹے پر ترجیح دینا لازم ہوتا ہے۔ اسی طرح ریاستی نظم کی موجودگی میں تحفظ کی ذمہ داری حکومتی اداروں پر ہے ناکہ خاندانوں پر۔ نیز اس شخصی آزادی کے دور میں ایک باپ کو اپنے بچوں پر انتہائی محدود اختیارات ہیں ۔چنانچہ آج کوئی باپ قانونی طور پر اپنے بچوں پر تشدد نہیں کرسکتا، انکی مرضی کے خلاف انکی شادی نہیں کرسکتا اور انکی کمائی پر اپنا تسلط نہیں کرسکتا۔ جہاں تک نفسیاتی طور پر عورت کو کمتر سمجھنےکی بات ہے تو اسلام کے علاوہ جدید سماجی علم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عورت اور مرد بحیثیت انسان برابر ہیں۔ البتہ یہ دونوں اپنی طبعی ساخت اور ذمہ داریوں کی بنا پرمختلف ہیں تو ان کے حقوق و فرائض میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ اسی طرح نسل چلنے کا قدیم نظام جس میں شجرہ وغیرہ بھی محفوظ رکھا جاتا تھا وہ اب ختم ہوچکاہے۔ اور آج لوگوں کو اپنے داد ایا پردادا تک کا نام معلوم نہیں ہوتا۔ چنانچہ نسل کا تسلسل کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

قرآن کا تبصرہ

سورہ شوریٰ کی درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:اللہ ہی کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے (نری) لڑکیاں دیتاہے اور جسے چاہتا ہے (نرے) لڑکے عنایت کرتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں (ملاجلا کر) دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔وہ (سب کچھ) جاننے والا (اور) قدرت والا ہے۔(الشوریٰ: ۴۹-۵۰:۴۲)

احادیث میں بیٹی کی اہمیت

1-حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس مرد کی بھی دو بیٹیاں بالغ ہو جائیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے (کھلائے پلائے اوردینی آداب سکھائے) جب تک وہ بیٹیاں اسکے ساتھ رہیں یا وہ مرد ان بیٹیوں کے ساتھ رہے (حسن سلوک میں کمی نہ آنے دے) تو یہ بیٹیاں اسے ضرور جنت میں داخل کروائیں گی ۔( سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 551)

2- حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا جسکی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے (جزع فزع نہ کرے کہ بیٹیاں ہیں)اور انہیں کھلائے پلائے۔ پہنائے اپنی طاقت اور کمائی کے مطابق تو یہ تین بیٹیاں (بھی) روز قیامت اس کے لئےدوزخ سے آڑ اور رکاوٹ کا سبب بن جائیں گی۔(سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 550)۔

3- عروہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ مانگتے ہوئی آئی، اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجورکےکچھ نہیں پایا، تو میں نے وہ کھجور اسے دیدی، اس عورت نے اس کھجور کو دونوں لڑکیوں میں بانٹ دیا اور خود کچھ نہیں کھایا، پھر کھڑی ہوئی اور چل دی، جب نبی ﷺ ہمارے پاس آئے تو میں نے آپ ﷺ سے بیان کیا آپ نے فرمایا کہ جو کوئی ان لڑکیوں کے سبب سے آزمائش میں ڈالا جائے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے آگ سے حجاب ہوں گی۔( صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 1333 )

ان آیات اور احادیث کی میں یہ بیان کردیا کہ بیٹا اور بیٹی کی پیدائش اور بانجھ پن سب کچھ اللہ کے چاہنے پر منحصر ہے اور اس کا چاہنا کوئی الل ٹپ نہیں کہ آنکھیں بند کرکے اولاد بانٹ دی۔ بلکہ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے ، کامل علم کے ساتھ، حکمتوں اور مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کام کرتا ہے۔ وہ حکمت اور مصلحت کیاہے؟ اس کا جواب اس آیت کے سباق میں موجود ہے کہ یہ دنیا جزا سزا اور نعمت و نقمت کا مقام نہیں بلکہ آزمائش کی جگہ ہے ۔ چنانچہ بیٹے یا بیٹی کا پیدا ہونا انسان کوشکر یا صبر کے امتحان میں ڈالتا ہے ۔نیز لڑکا ہو یا لڑکی ، اللہ تعالیٰ یہ دیکھتے ہیں کہ والدین کس طرح ان کی درست تربیت کرکے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں ۔ دوسری جانب بانجھ پن انسان کو صبر کی آزمائش میں لے آتا ہے ۔ چنانچہ اس سارے عمل میں انسان کی آزمائش یہی ہے کہ وہ کس خوبی سے محرومی پر صبر واستقامت کرتا، جزا فزا سے گریز کرتا ، اللہ کی حکمتوں پر بھروسہ کرتااور غیراللہ کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے خالص رب ہی سے رجوع کرتا ہے۔

خلاصہ

1-ماضی میں انسان معاشی فائدے حاصل کرنے لئے بیٹوں کو پسند کرتا تھا لیکن آج کے دور میں یہ صورت حال نہیں۔آ ج ایک بیٹا معاشی طورپرکمانےلگتاہےتووالدین کو اس کی کمائی پر کوئی اختیار نہیں۔نیز آج کے دور میں بیٹی بھی کما سکتی اور اپنی شادی اور تعلیم کے اخراجات اٹھا سکتی ہے۔

2-شخصی آزادی کی بنا پر والدین کا اولاد پر مطلق اختیار نہیں۔ چنانچہ اگر بیٹی نے اٹھ کر کسی دوسرے گھر چلے جانا ہے تو بیٹے نے نفسیاتی طور پر علحیدگی اختیارکرکےاپناالگ گھر بسانا ہے۔

3-ریاستی نظم کی موجودگی میں بیٹوں کی کثرت کا کوئی فائدہ نہیں۔ کسی دشمن سے نبٹنے کے لئے ہر فرد کو پولیس کی ضرورت ہے خواہ اسکی بیٹیاں ہوں یا بیٹے۔

4-جہاں تک بیٹی کے تحفظ اور اسکی ذمہ داری کا تعلق ہے تو یقیناََ اسکی تعلیم ، تربیت، عفت کی حفاظت اور شادی کے اخراجات وغیرہ بڑی ذمی داریاں ہیں۔ لیکن کم وبیش یہی ذمہ داریاں بیٹے کے کیس میں بھی ہیں۔اسکی تعلیم، تربیت میں وہی اخراجات ہیں۔اسکی عفت کی حفاطت کی بجائےبری صحبت سے بچانے کی ذمہ داری ہے ۔
یعنی اگر لڑکی کی حفاظت ایک داخلی معاملہ ہے تو لڑکے کو خارجی ماحول میں رہ کر کنٹرول کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح لڑکا اور لڑکی کی شادی میں اخراجات کی نوعیت کم
وبیش برابر ہی ہے۔ اگر لڑکی کو جہیز دینا پڑتا ہے تو لڑکے کو بری چڑھائی جاتی ہے۔اگر فرنیچر اور الیکٹرانک آئٹمز کو نظر انداز کردیا جائے تو بری اور جہیز میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔

5-نفسیاتی طور پر بیٹے کو ترجیح دینا ایک مغالطہ اور غلط روایت ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی چار صاحبزادیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ لیکن بیٹوں میں سے کوئی بچ نہیں پایا۔ اس کے باوجود آپ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ سے بہت زیادہ محبت اور تعلق کا اظہار کیا۔چنانچہ اسلام میں بیٹوں کو فوقیت دینے کی کوئی بنیاد نہیں ملتی بلکہ یہ تو جاہلی معاشر ے کی بنیاد ہے۔

6-نسل چلنے کا تصور انتہائی فرسودہ ہے۔ آج لوگوں کو اپنے دادا پرداد کا نام معلوم نہیں ہوتا ۔لہٰذا نسل چلانے کے لئے وارث کی خواہش کو طول دینا ، اسکےلئےعورت کی صحت کا خیال رکھے بنا بچوں کی فوج تیار کرلینا مناسب نہیں ۔ اسی طرح لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں عورت کو مورد الزام ٹہرانا یا دوسری شادی کرنا بھی خلاف عقل ہے کیونکہ آج سائنس نے ثابت کیا ہے کہ لڑکا یا لڑکی بننے کا انحصار مرد کے اسپرم میں ہوتا ہے ۔ مرد کے خارج کئے ہوئےکروموسومز میں سے اگر ایکس ولادت میں استعمال ہو تو لڑکی اور اگر وائی استعمال ہو تو لڑکا پیدا ہوتاہے۔چنانچہ عورت کا کردار اس ضمن میں ایک مفعول کا ہوتا ہے۔

7-بیٹے یا بیٹی کی خواہش کرنا اور اسکے لئے دعا کرنا کوئی بری بات نہیں البتہ جب ولادت ہوجائے اور اللہ کا فیصلہ صادر ہوجائے تو اس کی رضا پر راضی رہنااوراسکےفیصلےکو خوش دلی سے قبول کرنا ہی عبدیت اور دانش مندی کا تقاضا ہے۔
Chaudhry Tahir Ubaid Taj
About the Author: Chaudhry Tahir Ubaid Taj Read More Articles by Chaudhry Tahir Ubaid Taj: 38 Articles with 65962 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.