شب برأت میں زیارت قبوروایصال ثواب کااہتمام کریں
(از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں, MALEGAON DIST:NASHIK MAHARASHTRA INDIA)
اہلیان شہر سے سنّی دعوت اسلامی کی اپیل:
شب برأت میں زیارت قبوروایصال ثواب کااہتما م کریں
شبِ برأ ت میں ایصالِ ثواب کی شرعی حیثیت
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
ماہ شعبان المعظم وہ با عظمت اور مبارک و مسعود مہینہ ہے جسے حضور اکرم ﷺ
نے اپنا مہینہ قرار دیا۔ حضور اکرم ﷺ اس ماہ مبارک سے بہت محبت فرمایا کرتے،
کثرت سے عبادت وریاضت کا اہتمام فرمایا کرتے ، آپ کی اتباع و پیروی میں
صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی مقدس جماعت بھی اس ماہ سعید کا ادب و احترام
کرتیں نیز اس ماہ کی پندرھویں شب کو عبادات کا اہتمام بھی۔ چوں کہ سید عالم
حضور اکرم ﷺ ’’شب برأت ‘ ‘ کوشب بیداری کا اہتمام فرماتے، قبرستان تشریف
لے جاتے اور اپنی امت کی بخشش کی دعا فرماتے اسی لیے اہل ایمان اس رات میں
شب بیداری کرتے ہیں۔ اپنے برے اعمال سے توبہ و ندامت نیز استغفار کرتے ہیں۔
رب تعالیٰ کی بارگاہ بے نیاز میںپیشانیوں کو خم کر کے اپنی نیازمندی کا
اظہار کرتے ہیں۔ اس شب میں مسلمان اپنے آقا حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ بے کس
پناہ میں درود وسلام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ نعت و منقبت کی روح پرور
محفلیں سجاتے ہیں۔ وعظ و نصیحت کی محافل خیرکااہتمام کرتے ہیں۔ اپنے اقارب
و افرادخاندان کی قبروں پر جا کر ان کے لیے انسیت و محبت کا سامان کرتے ہیں۔
اور ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں، بزرگان دین کے مزارات مطہرات کی زیارت
سے اپنے قلوب کو منور و مجلیٰ کرتے ہیںاور ایمان و ایقان کی جلا کا سامان
کرتے ہیں۔ صدقہ و خیرات کر کے غربا و مساکین کی امداد و اعانت کرتے ہیں۔ دن
میں روزہ، شب میںاعمال صالح اور ایسے امور کی انجام دہی کی جاتی ہے جن سے
اللہ عزوجل اور رسول کونین حضور اکرم ﷺ کی رضا و خوش نودی حاصل ہو۔ایسے
مبارک موقع پر چند ایسے سوالات معاشرے میں گردش کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے
ایک عام مسلمان شش وپنج میں مبتلاہوجاتاہے۔اس ذہنی خلجان کودور کرنے لے لئے
چند روایتیں سپرد قلم ہیں۔غیراللہ سے مددمانگنے کاثبوت قرآنی آیات اور
احادیثِ صحیحہ اور اقوال فقہاء ومحدثین اور خودمخالفین کے اقوال سے ہے۔
قرآن کریم میں ہے:کہامسیح نے کون ہے جومددکرے میری طرف اللہ کے دین
میں،کہاحواریوں نے ہم مددکریں گے اللہ کے دین کی۔اس میں فرمایاگیاکہ حضرت
عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے خطاب کرکے فرمایاکہ میرامددگارکون
ہے؟یعنی حضرت مسیح نے غیراللہ سے مددطلب کی۔ایک اور مقام پر ارشادِ ربانی
ہے:مددکروایک دوسرے کی اوپر نیک کاموں کے اور تقویٰ کے اور نہ مددکرو ایک
دوسرے کی اوپرگناہ اور زیادتی کے۔اس آیت میں ایک دوسرے کی مددکاحکم
دیاگیا۔مزیدفرمایا:اگرمدد کروگے تم اللہ کے دین کی مدد کرے گاوہ تمہاری۔اس
میں خود رب تعالیٰ نے جوکہ غنی ہے اپنے بندوں سے مدد طلب فرمائی۔اس طرح کی
بہت سی آیات ہیں جن میں غیراللہ سے مددکاذکر ہے۔’’مشکوٰۃ باب السجود
وفضلہ‘‘ میںحضرت ربیعہ ابن کعب اسلمی سے بروایت مسلم حضور علیہ الصلوۃ
والسلام نے مجھ سے فرمایا:کچھ مانگ لومیں نے کہاکہ میں جنت میں آپ کی
ہمراہی مانگتاہوں۔فرمایاکچھ اور مانگنا ہے۔میں نے کہاصرف یہی، فرمایا اپنے
نفس پر زیادہ نوافل سے میری مددکر۔اس سے ثابت ہواکہ حضرت ربیعہ نے حضورﷺ سے
جنت مانگی تو یہ نہ فرمایاکہ تم نے خداکے سوامجھ سے جنت مانگی تم مشرک
ہوگئے،بلکہ فرمایاوہ تو منظورہے کچھ اور بھی مانگو۔یہ غیرِ خدا سے
مددمانگناہے۔پھرلطف یہ ہے کہ حضور ﷺبھی فرماتے ہیں:اے ربیعہ تم بھی اس کام
میری اتنی مددکروکہ زیادہ نوافل پڑھاکرو۔یہ بھی غیراللہ سے طلبِ مددہے۔
تفسیر کبیرمیںہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
کہ جوکوئی جنگل میں پھنس جائے تو کہے اے اللہ کے بندو!میری مددکرورب تم
پررحم فرمائے۔تفسیر روح البیان سورۂ مائدہ پارہ۶؍زیرآیت’’ویسعون فی الارض
فسادا‘‘کہ شیخ صلاح الدین فرماتے ہیں کہ مجھ کورب نے قدرت دی ہے کہ میں
آسمان کوزمین پرگرادوں،اگر میں چاہوں توتمام دنیاوالوں کوہلاک کردوں اللہ
کی قدرت سے لیکن ہم اصلاح کی دعاکرتے ہیں۔شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر فتح
العزیز صفحہ ۲۰؍ پرفرماتے ہیں:سمجھناچاہئے کہ کسی غیر سے مددمانگنابھروسہ
کے طریقہ پر کہ اس کومددالٰہی نہ سمجھے حرام ہے اور اگرتوجہ حق تعالیٰ کی
طرف ہے اور اس کواللہ کی مددکاایک مظہرجان کراور اللہ کی حکمت اور کارخانہ
اسباب جان کراس سے ظاہری مددمانگی توعرفان سے دور نہیں ہے اور شریعت میں
بھی جائز ہے اور اس قسم کی استعانت بالغیرانبیاء واولیاء نے بھی کی ہے لیکن
حقیقت میںیہ حق تعالیٰ کے غیر سے مانگنانہیں ہے بلکہ اس کی مدد ہے۔
اللہ پاک نے اپنے مقبول بندوں کے سپرد بھی عالم کاانتظام کیا اور ان
کوخصوصی اختیارات عطافرمائے۔کتب تصوف دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ اولیاء اللہ
کے کتنے طبقے ہیں اور کس کے ذمے کون کون سے کام ہیں۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ
رب تعالیٰ ان کا محتاج ہے،نہیں بلکہ آئینِ سلطنت کایہی تقاضاہے۔پھر ان
حضرات کوخصوصی اختیارات دیئے جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ فرماتے ہیں کہ ہم یہ
کرسکتے ہیں۔یہ محض ہمارا قیاس نہیں ہے بلکہ قرآن وحدیث اس پرشاہدہیں۔حضرت
جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم سے کہا:اے مریم! تمہارے رب کاقاصد
ہوں،آیاہوںتاکہ تم کوپاک فرزند دوں۔معلوم ہواکہ حضرت جبریل بیٹادیتے
ہیں۔حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل
بناکراس میں پھونکتاہوںتووہ خداکے حکم سے پرندہ بن جاتاہے۔معلوم ہواکہ حضرت
مسیح باذن الٰہی بے جان کوجان بخشتے ہیں۔ایک مقام پرفرمایاگیا:فرمادوکہ تم
کوملک الموت وفات دیں گے جوتم پرمقرر کئے گئے ہیں۔معلوم ہواکہ حضرت عزرائیل
جاندار کوبے جان کرتے ہیں۔اور بھی اس قسم کی بہت سی آیات ملیں گی جس
میںخدائی کاموں کوبندوںکی طرف نسبت کیاگیاہے۔قرآن وحدیث کے مطالعے سے
معلوم ہوتاہے کہ انبیاء واولیاء سے مددمانگنایاان کوحاجت رواجاننانہ شرک ہے
اورنہ خداکی بغاوت ۔ بلکہ عین قانون اسلامی اور منشاء الٰہی کے بالکل مطابق
ہے۔شب معراج میںقت کی نماز فرض ہوئی مگرحضرت موسیٰ علیہ السلام کی عرض پرکم
کرتے کرتے پانچ رکھیں،آخریہ کیوں؟؟اسی لئے کہ مخلوق جانے کہ نمازپچاس کی
پانچ رہیں اس میںموسیٰ علیہ السلام کی مددشامل ہے یعنی اللہ کے مقبول
بعدوفات بھی مددفرماتے ہیں۔
بزرگانِ دین کی ارواح کو ایصال ثواب کرناجائز ہے،خواہ تاریخ و دن کی تعیین
کے ساتھ ہو یابغیر تعیین کے،دونوںصورتیں جائز ہیں،اسی طرح شب برأت کی
فاتحہ جائز ہے، چاہے اسی رات کو یا اس کے بعد ،دن اور تاریخ کو اس لیے
متعین کیاجاتاہے تاکہ لوگوں کویادرہے،مگر کچھ منکرین تعیین تاریخ کے ساتھ
فاتحہ اورایصال ثواب کو منع کرتے ہیں،اور کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے،حالانکہ
اس پر شریعت مطہرہ میںکوئی ممانعت نہیں آئی ہے ،کسی چیز کا شریعت میں منع
نہ ہونا ہی اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے،لہٰذا شب برأت میں حلوا یا دوسری
شیرینی پر فاتحہ دینابلاشبہ جائز ہے ،اصل مقصود اس سے ایصال ثواب
ہے۔(فیضانِ اعلیٰ حضرت ص۴۷۴)شبِ براء ت کی فاتحہ سے متعلق ایک سوال کے جواب
میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضابریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:شریعت اسلامیہ
میں،ایصال ثواب کی اصل ہے اورصدقات مالیہ کاثواب بہ اجماع اہل سنت پہنچتاہے
اورعرفی طورپردن اورتاریخ کی تخصیص کوحدیث نے جائز فرمایاہے۔منع کرنے والے
اسے بے دلیل شرعی منع کرتے ہیں ، ان سے پوچھئے تم جومنع کرتے ہوآیااللہ
ورسول نے منع کیاہے یااپنی طرف سے کہتے ہواوراللہ ورسول نے منع فرمایاہے تو
دکھاؤ کونسی آیت وحدیث میں ہے کہ حلو اممنوع ہے، یا شب برأت میں ممنوع
ہے، یا حضرت سیدالشہداء حمزہ ،یاحضرت خیرالتابعین اویس قرنی رضی اللہ
تعالیٰ عنہما کو ایصال ثواب پہنچانا ممنوع ہے ،یااعزہ واحبا میں اس کاتقسیم
کرنا ممنوع ہے۔ اور جب نہیں دکھا سکتے ،تو جو بات اللہ ورسول نے نہیں
فرمائی تم اس کے منع کرنے والے کون؟(فتاویٰ رضویہ ج۹؍ص۳۹۱)اللہ پاک عقل
سلیم عطافرمائے۔آمین |
|