انڈین ترنگا کشمیر میں

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابوطفیل ؒ کہتے ہیں میں نے حضرت حذیفہ ؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! اور لوگ تو حضور ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا تو کیا تم لوگ زندوں میں سے مردہ کے بارے میں نہیں پوچھتے؟ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا انہوں نے لوگوں کو گمراہی سے ہدایت کی طرف اور کفر سے ایمان کی طرف بلایا پھر جس کا مقدر اچھا تھا اس نے حضور ﷺ کی دعوت کو قبول کر لیا اور جولوگ مردہ تھے وہ حق کو قبول کر کے زندہ ہو گئے اور جو زندہ تھے وہ باطل پر چلتے رہنے کی وجہ سے مردہ ہو گئے پھر (حضور ﷺ کے انتقال سے)نبوت چلی گئی پھر نبوت کے نہج پر خلافت آ گئی اب اس کے بعد ظلم والی بادشاہت ہو گی جو ان کے ظلم پر دل زبان اور ہاتھ سے انکار کرے گا تو وہ پورے حق پر عمل کرنے والا ہو گا اور جو ہاتھ کو روک لے گا اور صرف دل اور زبان سے انکار کرے گا وہ حق کے ایک حصہ کو چھوڑنے والا ہو گا اور جو ہاتھ اور زبان کو روک لے گا اور صرف دل سے انکار کرے گا وہ حق کے دو حصوں کو چھوڑنے والا ہو گا او رجو دل سے بھی انکار نہیں کرے گا وہ انسان زندوں میں سے مردہ ہے۔

قارئین آج کا کالم بھی گزشتہ کالم کی طرح انتہائی مجبوری کے عالم میں آپ کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہیں ۔ آج کے کالم کے دو حصے ہیں اور دونوں حصوں میں اختصار کے ساتھ دو اہم ترین باتیں آپ کے گوش گزار کرنا ہیں ۔ مظفرآباد جو تحریک آزاد ی کشمیر کے بیس کیمپ کا دارالحکومت ہے وہاں کی غلام گردشوں میں سیاست کا انتہائی بے رحم کھیل بھی کھیلا جاتا ہے اور گزشتہ چھ سے زائد عشروں کے دوران مختلف حکومتیں جس بات کا سب سے زیادہ دعویٰ کرتی رہی ہیں وہ کشمیر کو بھارت کے پنجہ استبداد سے آزاد کرانے کا دعویٰ ہے۔ مسلم کانفرنس ، پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں نے جب کبھی بھی کشمیریوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی تو بھارت کے ہاتھوں شہید ہونے والے لاکھوں کشمیریوں کے خون کا بدلہ لینے کی باتیں سر فہرست رہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ کون اپنے دعوﺅں اور وعدوں میں کتنا سچا تھا اور کس نے قوم کے ساتھ جھوٹ بولا تاریخ ان تمام باتوں کو تول کر حقائق سب کے سامنے رکھ دے گی۔ اس وقت ایک انتہائی کرب ناک قسم کی بات آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں کشمیر انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ نام کا ایک ادارہ سول سرونٹس اور بیوروکریٹس کی تربیت کے لیے مظفرآباد میں کام کر رہا ہے اس ادارے کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں اس ادارے میں آزاد کشمیر کا نظام چلانے والے ذہین ترین لوگوں کو اعلیٰ تربیت فراہم کی جاتی ہے اسے اگر ہم آزاد کشمیر کا ”تھنک ٹینک یا پنٹا گون“کا نام دے لیں تو غلط نہ ہوگا۔ جس طرح پنٹا گون امریکہ کا ایک ایسا ادارہ ہے کہ جہاں سے پوری دنیا کے متعلق پالیسیاں مرتب کر کے دنیا کا نظام چلانے کی پیش بندی کی جاتی ہے اسی طرح آزاد کشمیر کا تمام نظام چلانے کی پیش بینی اور پیش بندی کرنے والے لوگوں کی تربیت کشمیرانسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ میں کی جاتی ہے۔ اس ادارے کے متعلق انتہائی افسوس ناک قسم کی باتیں میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہیں کہ بھارت جس نے 1947سے لے کر آج تک کشمیر کے ایک حصے پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور لاکھوں کشمیریوں کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں انسانوں کی بے حرمتی ،تذلیل اور تشدد کا ذمہ دار بھی ہے۔ اس بھارت کا ”ترنگا“یعنی پرچم جو تین رنگوں پر مشتمل ہے آزاد کشمیر کے اس انتہائی اہم اور حساس ادارے میں گزشتہ کچھ عرصے سے لہرا رہا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آزاد کشمیر میں موجود ہے وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید ، سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری، سینئر وزیر چودھری محمد یٰسین سے لے کر بھاری بھرکم کابینہ بھی موجود ہے اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی غلامی سے آز ادکروانے کے دعوے دار پونے دو سو کے قریب مشیر ، کوآرڈینٹرز اور دیگر عہدیداران بھی اپنی اپنی جگہ ابھی تک کام کر رہے ہیں لیکن کسی بھی حکومتی شخصیت کے کانوں پر اس حوالے سے کوئی جوں بھی نہ رینگی۔ اسی طرح آزاد کشمیر میں تبدیلی اور انقلاب کی آواز بن کر نمودار ہونے والے سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان، جرات مند رہنما سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ، سابق سپیکر شاہ غلام قادر،موجودہ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چودھری طارق فاروق، مظفرآباد کے نوجوان ایم ایل اے بیرسٹر افتخار گیلانی سے لے کر پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کی بھاری بھرکم پارٹی بھی موجود ہے اور ان کے مختلف رہنما اس ادارے کا وزٹ کرتے رہتے ہیں بھارتی ترنگے کے آزاد کشمیر کی دھرتی پر لہرائے جانے کے متعلق انہوں نے بھی ابھی تک کوئی نوٹس نہیں لیا۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان علیل ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جلداز جلد صحت یاب کرے (آمین) سوادِ اعظم کہلانے والی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس کے قائد سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان اور ان کے تمام ساتھی بھی ابھی تک خاموش ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ انصاف کی دہائی دیں تو کسے دیں ،بات کریں تو کس سے کریں۔ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ پر گیارہ ممالک کے پرچم لہرانا اپنی جگہ شاید کوئی اہمیت رکھتا ہے لیکن بھارت کے ترنگے کو آزاد کشمیر کی دھرتی پر لہرانے کی” جرات “ اگر تو غلطی ہے تو انتہائی سنگین غلطی ہے اور اگر جان بوجھ کر یہ کام کیا گیا تو تمام اہل پاکستان اور کشمیریوں کے لیے ”خطرے کی گھنٹی“ ہے۔ میاں محمد نواز شریف اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ کشمیری النسل ہیں اور کشمیریوں کی تحریک آزادی سے ان کی کمٹمنٹ کسی بھی شک و شبے سے بالا تر ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ کشمیریوں کو مایوس نہیں کریں گے اسی طرح موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید متعدد بار راقم کے آزاد کشمیر کے مقبول ترین ریڈیو پروگرام ”لائیو ٹاک ود جنید انصاری“میں ایف ایم 93کے پلیٹ فارم سے استادمحترم راجہ حبیب اللہ خان کے ہمراہ کیے گئے انٹرویوز میں اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی بھٹو شہید نے کشمیر کے نام پر قائم کی تھی اور پیپلز پارٹی کشمیر پر کسی بھی قسم کی سودے بازی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ جبکہ مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان بھی تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے جو باتیں کرتے ہیں وہ ان کے قلبی لگاﺅ اور وابستگی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تمام شخصیات اس انتہائی سنگین غلطی کی تلافی کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کے دارالحکومت مظفرآباد میں سول سرونٹس کے اس تربیتی ادارے کشمیر انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سے بھارتی ترنگے کو فوراً اتارنے کا کام کر کے کشمیریوں کے جذبات مشتعل ہونے کی تلافی کریں گے۔

قارئین اب چلتے ہیں کالم کے دوسرے حصے کی جانب جس کی صرف ایک جھلکی یا ٹریلر ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں ۔ تفصیل آئندہ کے کالم میں پیش کریں گے گزشتہ دنوں ممبر برٹش ایمپائر چیئرمین آگرہ گروپ و ڈائریکٹر الشفاءآئی ٹرسٹ ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل کی رہائش گاہ پر دیئے گئے ایک نجی ظہرانے میں راقم کو موجودہ وزیر تعلیم سکولز میاں عبدالوحید سے دو گھنٹے تفصیلی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ میاں عبدالوحید آزاد کشمیر کابینہ کے ان تین وزراءمیں شامل ہیں جنہوں نے ہر مشکل وقت میں وزیراعظم چودھری عبدالمجید کا اپنی بساط سے بڑھ کر بھرپور ساتھ دیا ہے۔ ہم نے میاں عبدالوحید سے آزاد کشمیر کی حکومت کے مستقبل کے متعلق کچھ باتیں دریافت کیں تو انہوں نے انتہائی بامعنی قسم کا تجزیہ ہمارے سامنے رکھا میاں عبدالوحید کا کہنا تھا کہ موجودہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بالکل اسی طرح ایک میچور سیاستدان بن چکے ہیں جس طرح بے نظیر بھٹو شہید جلا وطنی کے دوران مختلف مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بن چکی تھیں۔ میاں محمد نواز شریف اگر بلوچستان جیسا پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ دوسری جماعت کے حوالے کر سکتے ہیں اور اسی طرح خیبر پختون خواہ جیسا اہم صوبہ پاکستان تحریک انصاف کو دے سکتے ہیں تو اسی طرح وہ آزادکشمیر میں کسی بھی نوعیت کے غیر آئینی اقدام کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے۔ وزیراعظم چودھری عبدالمجید کا ساتھ دینے کے حوالے سے میاں عبدالوحید نے جو باتیں کہیں وہ آنکھیں کھولنے کے مترادف ہیں میاں عبدالوحید کا کہنا تھا کہ میں نے چودھری عبدالمجید کا ساتھ غیر مشروط انداز میں صرف اس لیے دیا ہے کہ میں دل سے یقین رکھتا ہوں کہ آزاد کشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی میں چودھری عبدالمجید سے بڑھ کر کوئی بھی وفادار نہیں ہے۔ اگر چودھری عبدالمجید چاہتے تو پارٹی میں موجود اپنے مختلف مخالفین کو اثبات کے ایک اشارے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے آﺅٹ کر دیتے لیکن زبان درازی اور مختلف الزامات عائد کرنے والے پیپلز پارٹی کے کابینہ کے اندر اور باہر موجود رہنماﺅں کو انہوں نے ہمیشہ پارٹی کا ایک اثاثہ سمجھا اور ان کی حفاظت کی۔ یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی اور اثاثہ ہے ۔ میاں عبدالوحید کی دیگر باتیں ہم تفصیل کے ساتھ اگلے کالم میں پیش کریں گے۔ یہاں بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ صرف اتنا کہتے چلیں کہ
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
کہ ہر لحظ ہے تازہ شانِ وجود
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز سے زندگی
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
زمانہ کہ زنجیر ایام ہے
دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے

ہم آزاد کشمیر کے حکمرانوں اور حزب اختلاف میں بیٹھے دوستوں سے یہی گزارش کرتے ہیں کہ اقتدار آنی جانی شے ہے اصل چیز انسان کا کردار ہے اسے داغ دار ہونے سے بچائیے کشمیر انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سے بھارتی ترنگا ہٹانا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔

آخر میں حسب روایت ایک چٹکلہ پیش خدمت ہے ۔
عبدالحمید عدم نے اپنے ایک ملاقاتی سے پوچھا ”کیا آپ ادب سے شوق رکھتے ہیں “
نیا ملاقاتی جو ایک مالدار تاجر تھا اس نے جواب دیا ”بس جی کبھی کبھی کوئی کتاب پڑھ لیتا ہوں ویسے مجھے ادب سے زیادہ شغف نہیں ہے“
اس پر عدم نے فوراً کہا
”اس کا مطلب ہے کہ آپ بے ادب ہیں “

قارئین ہم یقین رکھتے ہیں کہ آزاد کشمیر کے حکمران اور اپوزیشن کے لوگ با ادب بھی ہیں اور تحریک آزادی کشمیر سے محبت بھی کرتے ہیں۔ بھارتی ترنگا لہرانے کی بے ادبی دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374530 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More