جتنا اہم یہ ہوتا ہے کہ بات کیا کہنی چاہیئے، اتنا ہی اہم
یہ ہونا چاہیئے کہ بات کیسے کہی جانی چاہیئے۔ لہجہ کرخت اور بھونڈا ہو تو
بات سچی بھی ہو تو کرخت اور بھونڈا ہی لگنے لگتی ہے۔ جس موضوع کی شروعات
کرنے جا رہا ہوں اس کے جلی حروفوں سے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ نیچے کتنی
اہم عبارات تحریر ہیں۔ اس موضوع کیلئے یہ ضروری ہے کہ میں یہ بات بار آور
کرا دوں کہ راقم نہ تو کسی کے حق میں بولنا چاہتا ہے اور نہ ہی کسی کی
مخالفت میں۔ راقم تو بس سچ کا پیکر ہے اور سچائی لکھنا ہی اس کی ذمہ داری
ہے اس لئے قلم اٹھانے پر مجبور ہوا۔ ویسے بھی 25سالہ دورِ ملازمت میں اتنی
ناانصافیاں دیکھ رکھی ہیں کہ اب تو خیر کی توقع کہیں سے بھی نظر نہیں آتی
ہے۔ لکھاری اور اس کے قلم کو بھی زور جب ہی میسر ہوتی ہے جب ناانصافیاں
اپنے حدوں کو پار کر جائیں۔ انشا جی کا یہ شعر بھی آپ کو اس مضمون کے آخر ی
لفظ تک کا احاطہ کرتا ہوا نطر آئے گا۔
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے
بات تو میرے بھائی بجٹ 2013-14کی ہے ،نئی حکومت کے وزیرِ خزانہ جناب اسحاق
ڈار صاحب نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قومی اسمبلی ہال میں اپنے حکومتی
دور کا پہلا بجٹ پیش کر دیاہے۔ یہ بجٹ پیش کرنے سے پہلے تک بہت شورمچا ہوا
تھاکہ یہ غریب دوست بجٹ ہوگا اور عوام دوست بھی؟ مگربجٹ کے پیش کیئے جانے
کے بعد حقیقتاً یہ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہی نظر آتاہے۔ ورنہ تو اس
بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں جو عوام دوست اور غریب دوست ہو۔ سرکاری ملازمین
تو الیکشن میں کئے گئے وعدے وعید اور روز روز کے حکومتی بیان سے اپنے آپ کو
خوش نصیب تصور کرنے لگے تھے کہ اس دفعہ واقعی ملازم دوست بجٹ پیش ہوگا ۔
اور بھی بے تحاشہ چیمہ گوئیاں کی گئیں لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ” کھودا پہاڑ
اور نکلا چوہا“لوگوں نے اپنے سارے کام ادھورے چھوڑ کر جب ٹی وی کے سامنے
بجٹ تقریر سننے کیلئے صفیں بچھا ئیں، بجٹ تقریر سنی تو ایک بازگشت سننے میں
آیا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی بڑھاوانہیں کیا جا رہا
ہے۔یہ سنتے ہی تمام ملازمین غم و اندوہ کی کیفیت میں سما گئے اور اپنے
بنائے ہوئے گھریلو بجٹ کا سر پیٹتے رہ گئے کہ اب کیا ہوگا۔ ووٹ بھی تنخواہ
دار طبقہ اور غریبوں نے دیا اور وہی بجٹ کے اچھے پہلو سے محروم ہوگئے۔ جب
کہ ذرعی ٹیکس اس بار بھی نہیں لگایا گیا۔ اور امیر پھر سے ٹیکسوں سے آزاد
ہو گئے۔ یہ ہے ہمارے ملک کا المیہ....جہاں سارے ظلم غریبوں پر ہی ڈھائے
جاتے ہیں۔ اور امیر ، صنعتکار، وڈیرے، جاگیردار سب آزاد گھومتے نظر آتے
ہیں۔
بات ابھی یہیں ختم نہیں ہوئی کیونکہ GSTپر ایک فیصد ٹیکس بھی لگا دیا گیا
ہے جس کی وجہ سے بجائے مہنگائی کم ہونے کے بجائے مزیدبڑھ جانے کا شدید
اندیشہ ہو گیا ہے۔ بلکہ ابھی سے ہی مہنگائی کا جن پھر بے قابو نظر آرہا ہے۔
دہی 110اور دودھ 80روپے کلو ہو چکا ہے۔ پیٹرول کی قمیت کو واپس 100روپے سے
بھی بلندی پر پہنچا دیا گیا ہے۔لگتا ہے کہ ابھی ان ملازمین کے امتحاں اور
بھی ہیں۔کیونکہ ملازمین کو کوئی دو ٹیکس سلیب میںتقسیم بھی کیا گیا ہے۔اور
انکم ٹیکس بھی ان کے آڑے آئے گا کیونکہ انکم ٹیکس سلیب میں بھی کافی رد
وبدل کر دیا گیا ہے ۔
اگر مہنگائی کا موازنہ تنخواہوں سے کیا جائے تو تنخواہ تو پہلی تاریخ کو ہی
ختم ہو جاتی ہے۔کیونکہ روپئے کی قدر ہی کہیں کھو گئی ہے۔ ہزار کا نوٹ لیکر
مارکیٹ میں جاﺅ تو ایسے ختم ہوجاتا ہے جیسے گنجے کے سر سے بال!
اب دیکھئے کہ روپئے کی قدر 2008کے مقابلے میں 45%مزیدکم ہو گئی ہے۔ 2008میں
ڈالر 62/=روپئے کا تھا اور 2012میں ڈالر 90/=روپئے کا رہا۔ مگر اب یہ
100روپے کو بھی پر گیا ہے۔اس سے اندازہ کیجئے کہ ہمارا روپیہ کس قدر سستا
ہو گیا ہے ۔اس کے ساتھ آٹا، دالیں، چاول، مرچ مصالحہ، سبزیاں، گوشت،غرض کہ
ہر چیز کے نرخ تقریباً دُگنے ہو چکے ہیں مگر افسوس کہ اس طرف بھی کان نہیں
دھرے گئے اور غریبوں کا سبزی اور دال کھانا بھی اب ممکن نہیں رہا۔ویسے بھی
جس ملک میں روزآنہ کی بنیاد پر بنیادی چیز تو کُجا ہر چیز پر ہی ریٹوں میں
اضافہ ہوتا ہو وہاں بجٹ پیش کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جہاں عوام ہی
خوشحال نہیں ہے وہ ملک کیسے ترقی کے منازل طے کر سکتا ہے۔ ریلوے سے لیکر پی
آئی اے تک جیسے بڑے ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ہمارے یہاں تو حال یہ ہے
کہ صبح اگر مارکیٹ سے کوئی چیز خریدی جائے تو ریٹ کچھ ہوتا ہے اور شام کو
وہی چیز خریدی جائے تو ریٹ کچھ اور؟آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ پھر ہم کیسے
اپنے آپ کو ترقی یافتہ ملک کی فہرست میں شامل کریں۔
لوگ لٹنے لگیں گے پھر بجٹ کے بعد
اب کہ دوکانداروں کا دُگنا منافع ہوگیا!
پھر پسیں گے آج سے اس چکی میں ہم
لو، آج قیمتوں میں پھر سے اضافہ ہوگیا
یہاں تو سب کچھ ہی سمجھ سے بالاتر ہو تا جا رہا ہے ، چہرے تبدیل کرنے سے
اور وزارت کی تبدیلی سے ملک ترقی نہیں کر سکتا اس کے لئے ٹھوس حکمتِ عملی
کی ضرورت ہے۔ عوام سے ووٹ لیکر ان کے اپنے ہی حقوق کے ساتھ پامالی حقوق کا
کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ملک میں پچاس فیصد آبادی اب بھی ایسی ہے جنہیں دو وقت
کی روٹی بھی میسر نہیںان میں سے اکثر کو دن بھر میں صرف ایک وقت کی روٹی ہی
میسر ہوتی ہے وہ بھی بمشکل!مہنگائی کی وجہ سے ہی خودکشیاں اور جرائم کی
وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہر روز درجنوں ڈاکے
،قتل، ہر روز اغوا برائے تاوان کی وارداتیں لازمی ہو گئی ہیں۔ بجلی کا
بحران ، گیس کا بحران ، بے روزگاری جیسے اژدھے منہ کھولے ہوئے ہے ۔ شیطانیت
اپنے عروج پر ہے۔ کراچی کے حالات ویسے ہی روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں۔ آج
مہنگائی کے باعث حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ گذشتہ دنوں کئی شہروں میں
گھاس کھانے جیسے فعل کے ساتھ مظاہرہ کیا گیا۔یہ لمحہ فکریہ نہیں تو اور کیا
ہے۔
بجٹ میں ہوتا کیا ہے اس سے تو آپ سب بخوبی واقف ہی ہونگے جناب! جی ہاں
ہندسوں کا انبار جسے لفظِ عام میں لفظوں کا گورکھ دھندہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
اور ہندسوں کا کیا ہے ۔ پاکستان کے قائم ہونے سے اب تک تمام ہی حکومتیںاپنی
ہی رہی ہیں اور سب ہی عوام دوست بجٹ ہی پیش کرتی رہی ہیں۔ فرق ہے تو صرف
اعداد و شمار کا ، ہندسوں کا ، اور ہندسوں کا کیا ہے جیسے چاہو لکھ لو رہی
بجٹ کی بات تو کیا آپ سب نہیں جانتے کہ بجٹ تو وہی ہوتا ہے جسے منظورِ نظر
محکمہ تحریر کر دے۔ بجٹ پیش بھی ہوگیا اور لاگو بھی ہو جائے گا ، مرے گی
عوام، مریں گے نوکری پیشہ لوگ، مریں گے اس ملک کے ناتواں لوگ! اور مرنے کے
بعد کیا ہوتا ہے وہ بھی ہماری عوام بخوبی جانتی ہے مگر میں یہاں بہت معذرت
کے ساتھ یہ شعر تحریر کرنا چاہوں گا تاکہ سادہ طریقے سے سمجھنے میں آسانی
ہو۔
ہمیں معلوم ہے مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاﺅ کھائیں گے احباب اور فاتحہ ہوگا
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ سیاست اور موجودہ مہنگائی کا بحران
ٹلنے والا نہیں ہے۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ابھی تو اسمبلی میں بجٹ پر ڈیبیٹ
باقی ہے اپوزیشن کے لوگوں کی رائے بھی باقی ہے۔ بجٹ ڈیبیٹ سمیٹنے سے پہلے
بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔راقمِ تحریر تو مشورہ ہی دے سکتا ہے اس پر عمل کرنا
یا نا کرنا اس کے اختیار سے باہر ہے۔کیونکہ اب تو عوام صبر اور برداشت کے
گھونٹ پی پی کر تھک چکی ہے۔ اور قریب ہے کہ ان کے صبر کا بندھن ٹوٹ جائے
۔لوگ ایک دوسرے کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھ رہے ہیں یہ شاید یہ پوچھنے
کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس طرح پچھلی حکومتوں نے ان کے صبر کو ثبوتاش کیا
تھا کیانئی حکومت بھی اسی ڈگر پر چل نکلی ہے۔ اختتامِ کلام بس اس شعر سے
کرنا چاہوں گاکہ:
منصف ہو تو حشر اُٹھا کیوں نہیں لیتے
مَر جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے |