عراق جنگ کی دسویں سالگرہ

 bertrendercell نے کہا تھا جب تک دنیا میں جنگ کا تصور اور اسکے شوقین موجود ہیں ترقی و خوشحالی کا کوئی سفر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے جنگجو لوگوں کو عالمی عدالت انصاف کے دروازے پر گھسیٹ کر لایا جائے۔ اج سے 10سال قبل انہی دنوں میں عالمی سپرپاور لینڈ اور ائل مافیا کے سرغنے امریکہ اور اسکے دم چھلے برطانیہ نے صدام حسین کے فرضی کیمیائی ہتھیاروں کا شوشہ چھوڑ کر انبیائے اسلام کی سرزمین اور مشرق وسطی کے اہم ملک عراق پر شب خون مارا اور وہاں غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ نو دوگیارہ کا شعبدہ مڈل ایسٹ کے تیل و گیس کی لوٹ مار عرب خطے کی طاقتورمظبوط ترین عسکری قوت کو سروناش کرنا گریٹر اسرائیل کی راہ میں چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے عراقی صدر کو راندہ درگاہ بنانے اور امت مسلمہ کی عظیم دیدہ زیب اور مسلم اسلامک تہذیب کو چور چور کرنے کے بھونڈے عزائم پر مشتعمل تھا۔تین کروڑ کے لگ بھگ ابادی رکھنے والے عراق میں85٪ مسلمان جبکہ بقیہ اقلیتوں کی نمائندہ ہے۔2003 میں شروع ہونے والی دوسری خلیجی جنگ میں عالمی قاتلوں نے عراق کی اینٹ بجادی۔بیس لاکھ معصوم عراقی بارود کے قبرستان میں لحد نشین ہوگئے۔ عراق کا کوئی چپہ کارپٹ بمباری سے نہ بچ سکا۔ امریکیوں نے نہ صرف بغداد کو خون میں نہلا کر ہلاکو اور چنگیز خان کے ریکارڈ توڑ ڈالے بلکہ عراقیوں کو ایسی خون الودہ جمہوریت کا تحفہ دیا جس نے امریکہ کے نکل جانے کے بعد عراق کو طوائف الملوکی فرقہ واریت بم دھماکوں اور لسانی گروہ بندیوں مذہبی انتشار اور قتل و غارت کا گڑھ بنادیا۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق 2008 کے بعد اس اپریل کے مہینے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔اپریل میں712 لوگ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔1638 زخموں سے چور ہوئے۔ ہلاک شدگان میں سے 595 شہری اور117 سیکیورٹی فورسز کے لوگ تھے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے حال ہی میں عراق جنگ کا سارا پول کھول دیا یوں سامراجیوں کی بدنیتی سامنے اگئی۔ٹونی پوڈل نے کہا اگر صدام حسین کے پاس کیمیائی ہتھیار نہ بھی ہوتے تب بھی وہ جنگ سے نہ بچ پاتا۔بلیر نے حقیقت حال کی رہی سہی کسر بھی نکال دی۔امریکہ کو عراق جنگ میں معاشی طور پر ادھ موا کردیا۔امریکہ کو عراق کی جنگ 60 کھرب ڈالر میں پڑی۔ سنڈے ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق عراق جنگ کے سائنسدان بش جونیر سے لیکر کولن پاول تک اور امریکی فوجیوں سے لیکر امریکی اتحادیوں تک اب ہر کوئی حیرت پشیمانی اور شرمندگی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ بغداد میں صدام حسین کے مجسمے کو گرانے والے فوجیوں میں سے ایک کا نام جیوری ہے۔ وہ کہتا ہے کاش میںاس حرکت کا ارتکاب نہ کرتا۔ عراق جنگ کی ناکامی پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عراق جنگ کا بنیادی جواز جھوٹ پر مبنی تھا۔بش نے صدام حسین کے خلاف جو چارج شیٹ جاری کی اسکا حقیقت سے کوسوں دور تک کا کوئی واسطہ نہیں جیسا کہ ترکی میں کہا جاتا ہے جھوٹے کی جلائی ہوئی شمع نصف شب کو ہی گل ہوجاتی ہے۔اس جملے کی سیاسی تشریح انسانی تعلقات کی ایک حقیقت سے سمجھی جاسکتی ہے جس کے متعلق جنرل ڈیگال نے کہا تھا کہانسانی تعلقات کی طرح اقوام عالم کے بین المملکتی تعلقات میں بھی جھوٹ فریب دھوکہ دہی کی بنیاد پر کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔بین الااقوامی تعلقات کے تجربات اور نظریات اس حقیقت کو اشکار کرتے ہیں کہ عالمی جنگوں کے بل بوتے پر مطلوبہ اہداف اور نتائج حاصل کرنا ناممکن ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ چھیڑنے والا سوویت یونین کو انقلاب کے باعث ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ دوسری جنگ عظیم کے مرکزی کردار ہٹلر کو نہ صرف ایک طرف شکست کھانی پڑی تو دوسری طرف جرمنی کا بٹوارہ ہوگیا اور پھر جرمنی کو طویل عرصے تک امریکہ کے زیر تسلط رہنا پڑا۔دنیا بھر کے جنگی ماہرین کی اکثریت اس نظرئیے پر متفق ہے کہ نسلی بالادستی اور پھر حصول کامیابی کی جدوجہد میں ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے۔ناکامی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی سپرپاور کسی مملکت کو عسکری قوت کے بل بوتے پر زیر تو کرسکتی ہے مگر وہاں کے عوامی سوچ و افکار پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔عراق جنگ میں4522 امریکی فوجی جہنم رسید جبکہ33 ہزار زخمی ہوئے۔جنگ کے اخراجات اور تعمیر نو کے کاموں پر 20 کھرب ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوئی۔ عراق میں 2 کھرب ڈالر کا اسلحہ استعمال ہوا جو 40 سال بعد 6 ارب ڈالر کے خسارے میں بدل جائیگا۔ عراقی جنگ نے امریکن رول ماڈل مالیاتی نظام کا ستیاناس کردیا امریکہ نے عراق جنگ کے فوجیوں کو کلیم کی مد میں33 ارب ڈالر کے کلیم ادا کئے۔ امریکہ کی براون یونیورسٹی نے عراق جنگ پر ریسرچ کے بعد یہ اعداد و شمار جاری کئے۔ ریسرچ کے مطابق 1 لاکھ 91 ہزار انسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ امریکہ نے عراق جنگ کے تندور میں22 سو ارب ڈالر پھونک دئیے۔ جارج بش جونیر نے عراق جنگ کے اخراجات کا تخمینہ60 ارب ڈالر لگایا تھا۔ یونیورسٹی کے مطابق عراق میں مارے جانیوالے ایک لاکھ اکانوے ہزار لوگوں میں سے ایک لا34 کھ ہزار تھ عام شہری تھے۔ بش ضدی اور ہٹ دھرم تھے۔ اوبامہ صدر بنے تو وعدہ کیا تھا کہ 2011 میں امریکی فوج کو واپس بلالیں گے۔ اوبامہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اسی تناظر میں امریکی قوم نے اوبامہ کو دوسری مدت کے لئے وائٹ ہاوس کا تاج پہنادیا۔۔19اگست2010 کو امریکہ نے اپنا اخری فوجی دستہ بھی واپس بلالیا تھا۔ عراق میں50 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو وہاں منتقلی کے انتظامات کے لئے موجود ہیں۔برطانیہ کی لہو الود پلٹن46 ہزار فوجیوں پر مشتعمل تھی۔برطانیہ نے زبردست عوامی دباو پر 2009 میں اپنے فوجی واپس بلالئے تھے۔ اس وقت عراق میں رائل نیوی کے44 تربیتی افیسرز موجود ہیں جو عراقی بحریہ کی تربیت کے لئے ملٹری اکیڈمی میں تعینات ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع کے جاری کردہ اعداد و شمار میں19 مارچ 2003 سے شروع ہونے والے اپریشن فریڈم سے لیکر اب تک4488 امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں۔31 اگست2010 تک مرنے والوں کی تعداد4422 تھی جن میں3492 جنگی کاروائیوں میں ہلاک ہوئے۔ اپریشن فریڈم کا نام بعد میں نیو ڈان رکھا گیا جس میں 66 ہلاک ہوئے۔یکم ستمبر2010 سے305 افراد زخمی ہوئے.برطانیہ کے179 فوجی تابوت عراق سے واپس ائے جن میں126 میدان جنگ میں ٹونی بش کی ائل ہوس کی بھینٹ چڑھ گئے۔icasualties نامی ویب سائیٹ پر اتحادی ملکوں کے139 فوجی عراقی عسکریت پسندوں نے پھڑ کا ڈالے۔یواین او کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے اپنی اٹو بائیوگرافی کی تقریب رونمائی میں ٹائمز کو بتایا کہ دنیا میں واحد ٹونی بلیر ایسے انسان تھے جو بش کو عراقی جارہیت سے روک سکتے تھے۔ امریکہ نے ڈھٹائی کا ثبوت دیتے ہوئے یو این او کی اجازت کے بغیر بغداد پر ہلہ بول دیا۔سپین اور برطانیہ کی جانب سے یو این او میں عراق پر حملے کی اجازت سے متعلق دوسری قرارداد کو ویٹو کے خدشے کے پیش نظر واپس لے لیا گیا۔عراق جنگ میں حصہ لینے والے امریکی فوجی تھامس نے میڈیا کو بتایا کہ جنگ سیاسی اخلاقی عالمی قوانین کے منافی تھی۔اسکے سنگین نتائج بش اور ڈک چینی کو بھگتنے چاہیں۔ شکر میٹھی ہوتی ہے چاہے روشنی ہو یا اندھیرا تھامس نے درست کہا ہے۔ تھامس کو عراق جنگ کے تیسرے روز کمر میں گولی لگی اور وہ مفلوج ہوگیا۔ تھامس زندگی سے تنگ اور مرنے کی خواہش رکھتا ہے۔یواین او کے بانکی مون نہیں جانتے کہ اسمان کے جالے سے سرنہیں چھپتا۔بانکی مون نے عراقی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ فرقہ واریت اور دہشت گردی سے گریز کریں۔یہ بیان بانکی مون نے حال ہی میں اس وقت دیا جب عراق میں پرتشدد واقعات میں150 شہری ہلاک ہوگئے۔یہ حقیقت اظہر من الااتمش ہے کہ uno کا سیکریٹری جنرل بانکی مون ہو یا کوفی عنان یہ سارے وائٹ ہاوس کے پوڈل اور امریکی پے رول پر پلتے ہیں۔ uno ہمیشہ سے امریکی اشاروں پر ناچنے والی طوائف کا کردار ادا کرتی ارہی ہے۔ عراق و افغانستان میں مارے جانیوالے لاکھوں مسلمانوں کے خون میں uno کے ہاتھ بھی برابر کے رنگے ہوئے ہیں۔امریکی نوبل انعام یافتہ ماہر مالیات جوزف اور ہاورڈ یونیورسٹی کی لنڈا نے عراق جنگ کی مالیت3 کھرب سے زیادہ ڈالر لگائی ہے جس نے امریکی معیشت کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔وائٹ ہال نامی تھنک ٹینک نے تخمینہ لگایا ہے کہ برطانیہ نے9.26 ارب پاونڈ عراق جنگ میں خرچ کی ہے۔ علاوہ ازیں فوجیوں کو امداد کی مد میں55 کروڑ پاونڈ ادا کئے گئے ہیں یہ رقم وزارت دفاع کے فنڈ کے علاوہ ہے۔ عراق جنگ میں 16 لاکھ عراقی بے گھر ہوگئے۔ عراق جنگ غیر ضروری تھی۔ عالمی ائل مافیا کے سرغنے امریکہ اور اتحادیوں کو معاشی اور فوجی اعتبار سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے مگر قرائن سے یوں لگتا ہے کہ عراق جنگ میں سنگین نقصانات کے باوجود امریکہ اتحادی اور مسلمان ملکوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ امریکہ کو صہیونی ایران پر حملے کے لئے اکسا رہے ہیں۔ اگر امریکہ نے عراق کی طرح ایران پر حملے کی حماقت کی تو اس روز تاریخ کا مورخ یہودیوں کے خود ساختہ ہولوکاسٹ کے بعد امریکیوں کے حقیقی ہولوکاسٹ کی تاریخ قلمبند کریگا۔10ویں سالگرہ پر عراقی مائیں امت مسلمہ کو دہائی دے رہی ہیں کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر یہود و ہنود کے مقابلے پر ڈٹ جاو ورنہ یاد رکھو کہ امریکہ کے تلوے چاٹنے والے ہر مسلم بادشاہ کا حال بھی صدام حسین کی طرح ہوا کرتا ہے۔ بغداد پر امریکی شب خون کے 10ویں سال دنیا کے ڈیڈھ ارب مسلمان رب العالمین سے دعا کرتے ہیں کہ آئے قادر مطلق تو اپنے محبوب حضرت محمد صلعم کی امت کو زوال رسوائی پشیمانی اور شکست سے بچانے کے لئے اس بے اسرا قوم کو صلاح الدین ایوبی ٹیپو سلطان خالد بن ولید عطا کر جو کشمیر سے فلسطین تک بغداد سے سوڈان تک سامراجیوں کی ظلمت کو تہہ تیغ کردے۔ بحرف اخر کیا روئے ارض پر کوئی پارسی حکمران ہو یا گورا جرنیل اوبامہ ہو یا احمدنژاد کوئی مسلمان ہو یا حضرت موسی کا پجاری اوائی سی ہو یا یو این او برٹرینڈرسل کے ابتدائیہ کلمات کی روشنی میں عراق افغانستان کو ملیامیٹ کردینے والے بش جونیر ٹونی بلیر اور دیگر عالمی قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاسکے؟ اگر امریکہ اور دم چھلوں کے تخلیق کردہ اپریشن فریڈم سے لیکر نیو ڈان تک کا طائرانہ نگاہوں سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ امریکہ کے لئے دونوں اپریشن انتہائی مہلک ثابت ہوئے اور انشااللہ وہ دن دور نہیں جب قیصر و کسری فرعون نمرود کی طرح موجودہ سپرپاور بھی عراقیوں کے مقدس خون میں ہمیشہ کے لئے ہڑپہ کے کھنڈرات میں ڈوب کر غرق ہوجائے گی۔

Rauf Amir
About the Author: Rauf Amir Read More Articles by Rauf Amir: 5 Articles with 4011 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.