خوف یا انتقام

گوگل ارتھ کے اس جدید دور میں جب دنیا چاند ستاروں کو تسخیر کر چکی ہے وہاں نیلم کی عوام کواس جدید دور میں جان بوجھ کر موبائل جیسی بنیادی سہولت سے محروم رکھا گیا ہے جس کے پس پردہ کئی محرکات ہیں ایس سی او جو نیم فوجی ادارہ ہے ٹیلی کمیونیکشن کی نام نہاد سروس کے زریعہ نیلم سے بہت بڑا ریونیو حاصل کر رہا ہے اگر نیلم میں پرائیویٹ کمپنوں کو اجازت مل گی تو ادارہ کی دوکان بند ہوجائے گئی اس آمدہ فاقہ کشی کی ہولناکی سے بچنے کے لیے آئے روز ادارہ اپنے معزز صارفین کی خدمت میں لوٹ کھسوٹ ،مار دھاڑ میں مصروف عمل ہے دور دراز علاقوں میں بہم سہولت پہنچانے کا دعویدار کی نیلم سے بکری بیٹھ گی تو ادارہ کے اہلکاران پاکستان ریلوئے کی پٹریاں دھونے اور اور ٹرینوں کے انجن مرمتی کا کاروبار کر سکتے ہیں اس خوف کے مارئے انہوں نے اپنے بزنس کے پنجے نیلم میں گاڑ رکھے ہیں جن کا اطلاق وقتا فوقتا وہ اپنے معزز صارفین پہ لاگو کرتے رہتے ہیں ۔معزز شہری اپنے میزبانوں کی خدمت اپنی تمام تر جمع پونجی ہر ماہ اصالتا بلات کی مد میں دئے دیتے ہیں اس سے بڑی شرافت کیا ہو گی ؟بادشاہ نے شاہی فرمان جاری کیا جو بھی اس شہر میں داخل ہو گا بطور ٹیکس اس کو 50کوڑئے مارئے جائیں گئے حاکم وقت کے حکم پہ شہر میں داخل ہونے والے ہر شخص کو پچاس کوڑئے کھانے پڑتے ایک دن رعایا کو سخت غصہ آیا وہ وفد کی صورت اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر ہوئے درباریوں نے بادشاہ کو بتایا باہر عوام کا وفد آیا ہے اور کوڑئے مارئے جانے کی وجہ سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے بادشاہ خوش ہو گیا چلو عوام کی غیرت جاگ گی اب میرا مقصود مجھے مل گیا درحقیقت بادشاہ اپنی رعایا کو غیرت مند ،با جرت ،باضمیر دیکھنا چاہتا تھا ،خوشی میں باہر آیا عوام کے وفد کی بڑی تعداد دیکھی اور گرج دار آواز میں کہنے لگا کیسے آئے ہو ؟عوامی وفد نے سر جھکائے نہایت عاجزی سے کہا بادشاہ سلامت ہم آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے ہیں شہر کے مین گیٹ پہ کوڑئے مارنے والے دربانوں کی تعداد کم ہے ہم شہر میں کاروبار کرتے ہیں اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے بہت زیادہ وقت ضائع ہو جاتا ہے آپ وہاں پہ بھاری نفری تعینات کر دیں تاکہ ہم جلدی کوڑئے کھا کر شہر میں داخل ہو سکیں چنانچہ بادشاہ نے ان کا عوامی مطالبہ پورا کر دیا وہاں مین گیٹ پہ ایکسڑا نفری تعینات کر دی تاکہ کوڑئے برسانے کے دوران عوام کو انتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑئے ۔جب نیلم کی عوام نے دیکھا ہر لحاظ سے نیلم ویلی کو پسماندہ رکھنے کی منظم سازش ہو رہی ہے تو نوجوانوں و صحافی برادری نے نیلم ویلی کی آواز میڈیا کے زریعے سٹیج کی وساطت سے حکام تک پہچائی اور اپنی زمہ داریوں کو فرض و قرض سمجھا ابتدائی مرحلہ میں موبائل سروس کی فراہمی کے لیے ایس سی او کے خلاف نوجوان طبقہ سڑکوں پہ نکل پڑا اپنے حقوق کے لیے جدو جہد شروع کی غیور باسیوں نے دور حاضر میں ایک نئی تاریخ رقم کی ،نئی اس لیے اس سے قبل نیلم کی عوام کا مطالبہ تھا مین گیٹ پہ ایکسڑا نفری تعینات کی جائے ایسے مطالبات کے دوران پر تشدد ہڑتالیں منظر عام پہ آئیں تو یقینا یہ ایک نئی تاریخ رقم کی گی نوجوان جب سڑکوں پہ اپنے حقوق کے لیے مرنے مارنے پہ تل گئے تونیلم انتظامیہ جس کا کام انتظامی امور چلانا ہے تاکہ عوام کو سستا ریلیف مل سکے انہوں نے فرعون کے درباریوں کا کردار ادا کیا بجائے عوام کا حق انھیں دلاتے مگر اپنے آقاﺅں کو خوش کرنے کے لیے نہتے نوجوانوں پہ وحشیانہ تشدد کروایا مگر نیلم کی وہ غیور عوام جو کل بھی سراپا احتجاج تھی اور آج بھی سراپا احتجاج ہے اپنے موقف سے دسبردار نہ ہوئی خواہ ان پہ ڈھائے جانے والے مظالم میں لاٹھی چارج ہو ،گرفتاریاں ،ایس سی او کی جانب سے جھوٹے مقدمات ہوں ہر کھٹن دور سے گزر رہے ہیں یہ حکومت وقت کی بوکھلاہٹ تھی یا دیگر کسی ادارہ کی سازش جو پرامن احتجاج کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔بہر حال وجہ کوئی بھی ہو یہ ایک اٹل حقیقت ہے نیلم انتظامیہ مکمل طور پہ اس سلسلہ میں ناکام اور بے بسی کی تصویر بنی رہی اور بنی ہوئی ہے ۔ادھر ایس سی او نے اپنی اس بات کو توہین سمجھا بوگس بلات جس دوران آپٹیکل فائبر بریک رہتی تھی ان دنوں کے بھی چارجز شامل کر نے شروع کر دیئے یہاں تک ہی محدود نہیں انتقامی ادارہ نے اپنی جنونیت اور انتہا پسندی کے تحت 10/12سال قبل بند ہونے والے ٹیلی فون کے بقایا جات مخصوص ادارہ کی نشاندہی پہ مجسڑیٹ درجہ دوئم نیلم کو ریکوری کے لیے بھیج دیئے ،انتہائی شرمناک اور افسوس ناک بات نیلم انتظامیہ نے ایس سی او کے ادارہ سے یہ پوچھنے کی جسارت نہ کر سکی دس سال قبل آپ کہاں تھے ؟کہاں سو رہے تھے ،سیکورٹی فیس سے بلات تجاوز کر چکی آپ خاموش رہے اور آج ماورائے آئین بقایا جات کی ریکوری کر رہے ہیں ؟سیکورٹی فیس کے قانون کے تحت جب واجبات سیکورٹی فیس سے زائد ہو جائیں تو ادارہ فون عدم ادائیگی بند کردیتا ہے آج تک یہی ہوتا آیا ہے مگر ادارہ کی عجیب و غریب منطق سمجھ سے بالا تر ہے ۔ظلم در ظلم گواہ چست مدعی سست ،ریکوری مجسڑیٹ صاحب نے ایسے حکم کی تعمیل کی جیسے وہ ایس سی او کے ماتحت ہوں سوال یہ پیدا ہوتا ہے نیلم کی عوام کو انصاف کہاں سے ملے گا حکومت کے اوپر حکومت ،آئین سے بالا تر باہر سے مسلط کردہ قانوں ملک کے اندر ملک ریاست کے اندر ریاست ،ہر طبقہ عوام کش پالیسی اپنائے ہوئے ہے عوام گلستان نیلم کے حقوق کو غصب کرنے کی پالیسی اپناکر وہ کون سے لوگ ہیں جن کی خوشنودی حاصل کی جا رہی ہے ۔شاعر نے اس موقع پہ کیا خوب کہا، میرئے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے ، میرئے سر پہ ظلم کا پھندا ہے،میں مرنے سے کب ڈرتا ہوں ،میں موت کی خاطر زندہ ہوں، مرئے خون کا سورج چمکے گا ، تو بچہ بچہ بولے گا ، میں باغی ہوں ،میں باغی ہوں،جو چاہے مجھ پر ظلم کرو۔ اب اگر کوئی فرد ، معاشرہ،ادارہ ایسے جارحانہ اقدام پہ اتر آئے اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیںوہ کسی خوف میں مبتلا ہے یا انتقام پہ اتر چکا ہے انتقامی صورت میں دونوں فریقین عملایا قانونی طور پہ جب دست و گربیاں ہوں تو اس کے نتائج ملک و قوم کے لیے بہتر نہیں ہوتے اس سے قبل کشمیر کے ایک حصہ جو پاکستان کے زیر تسلط ہے اس میں اس طرح کی کوئی سرگرمیاں ماضی میں نہیں ملی مگر اب کی بار حالات کسی اور ہی جانب اشارہ کر رہے ہیں ،شاعر یہاں پہ کہتا ہے لمحوں میں خطا کی تھی ،صدیوں میں سزا پائی ۔موجودہ اس انتقامی کاروائی کو مذاق کے بجائے سنجیدگی سے لیا جائے پر امن فضاءنا خوشگوار ہو جائے جس طرح جنرل یحیٰ خان سے معمولی سی لرزش ہوئی تو نتائج آج ہمارئے سامنے ہیں دوسری جانب نوجوانوں کے شاعر قتیل شفائی نے بھی غیور نیلم کے باسیوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ،دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں جو ظلم تو سہتا ہے مگر بغاﺅٹ نہیں کرتا۔یہ نوشتہ دیوار ہے جب بھی ظلم اپنے انتہا کو پہنچتا ہے تو بغاوت شروع ہو ہی جاتی ہے ضروت اس امر کی ہے نیلم انتظامیہ کو بھیجی جانے والی فہرست پہ جلد بازی کے بجائے ہر دو فریقین کو سماعت کیا جائے جس کا حقیقتااگر کوئی ایسا کیس ہے تو ادارہ سے سال ہا سال کے بعد ریکوری کے بارئے میں وضاعت طلب کی جائے آیا وہ کیا وجہ تھی ریکوری کے لیے دس سال کا عرصہ گزرگیا کوئی کسی کا بقایا نہیں تھاجب نیلم کی عوام اپنے بنیادی حقوق کے لیے اٹھی تو ریکوری یاد آگی دوسری جانب نا دہندگان سے ان کی ماہانہ آمدن و خرچ کے حساب کے بعد ماہانہ کتنی قسط میں ادائیگی ہو سکتی ہے اس کا تخمینہ لگایا جائے غربت کی ماری عوام پہ جب بیک وقت اضافی ناقابل برداشت بوجھ پڑئے گا تو عوامی رد عمل کس شکل میں سامنے آئے گا اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتانیلم انتظامیہ یک طرفہ فیصلہ دینے کے بجائے ہر دو فریقین کو ملزم سمجھے ۔

Zia Sarwar Qurashi
About the Author: Zia Sarwar Qurashi Read More Articles by Zia Sarwar Qurashi: 43 Articles with 45957 views

--
ZIA SARWAR QURASHI(JOURNALIST) AJK
JURA MEDIA CENTER ATHMUQAM (NEELUM) AZAD KASHMIR
VICE PRESIDENT NEELUM PRESS CLUB.
SECRETORY GENERAL C
.. View More