اگر درد کا علاج بس میں نہ رہا ہو تو انسان زیادہ درد کی
تمنا کرتا ہے تاکہ علاج کی فکر ہی ختم ہو جائے۔ بقول غالب
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
امریکا اور یورپ کے لیے چین بھی اب لاعلاج مرض یا درد کی حیثیت اختیار
کرگیا ہے۔ تین عشروں سے مغرب کو یہ فکر لاحق تھی کہ شیر جاگے گا اور سب کو
پھاڑ کھائے گا۔ شیر جاگ چُکا ہے اور دور دور تک نیند کے آثار بھی نہیں۔
امریکا اور یورپ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب ڈیڑھ دو سو سال تک کوئی اُن کے
پیر کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ اُن کی سوچ تھی اور قدرت کے اپنے
اُصول ہوتے ہیں۔ آپ ارادے باندھتے رہیے، قدرت اپنی چال چلتی رہے گی۔ جہاں
آپ آپے سے باہر ہوکر سزا کے مستحق ٹھہرے، قدرت آپ کی گردن میں ناکامی اور
ذِلّت کا طوق ڈال دے گی۔ قدرت کے اُصول کُلیے ہوتے ہیں اور کوئی کُلیہ کِسی
کے لیے بدلا نہیں کرتا۔ امریکا کے لیے بھی نہیں۔
مغرب کے سیاسی تجزیہ کاروں نے اپنی توپوں کا رُخ بیس پچیس سال قبل چین کی
طرف کردیا تھا۔ ایک طرف چین معاشی ترقی کے زینے چڑھتا گیا اور دوسری طرف
مغربی تجزیہ کار اُسے ترقی ہی سے ڈراتے گئے! کبھی یہ کہا گیا کہ غیر معمولی
ترقی سے ماحول کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ کبھی اِنسانی حقوق کے ریکارڈ کا
رونا رویا گیا۔ چین کی معاشی قوت میں تیز رفتار، بلکہ ہوش رُبا اِضافے نے
اہلِ مغرب کو پہلے حیران اور پھر پریشان کیا۔ امریکیوں نے ترقی ہی کو معاشی
بحران کی بنیاد اور جڑ بھی قرار دیا! اُن کے پاس اہلِ چین کو بدگمانیوں میں
مُبتلا کرنے کی کوشش کے سِوا چارا نہ رہا۔ مگر یہ سب کچھ خاصا مضحکہ خیز
تھا۔ امریکا اور یورپ سمجھ بیٹھے تھے کہ ترقی اور خوش حالی پر صرف اُن کا
استحقاق ہے، بہتر زندگی صرف اُن کی جاگیر ہے۔ پھر یوں ہوا کہ چینیوں پر
جُنون سوار ہوا تو وہ اِس دنیا میں ایک اور دنیا بسانے پر تُل گئے۔
افسوس اِس بات کا ہے کہ چینیوں نے امریکا اور یورپ کی ایک نہ سُنی۔ سُنتے
بھی کیسے؟ علامہ اقبال کہہ گئے ہیں ع
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
اب وہ سنبھل چکے ہیں اور عالمی معیشت کو سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
دوسری طرف کمزور پڑتے ہوئے عالمی حکمرانوں کو اب سنبھلنے کی تیاری کرنی پڑ
رہی ہے۔
1958 میں ریلیز ہونے والی فلم ”مدھومتی“ کے ایک منظر میں دلیپ کمار جب
دوسرے گاؤں کے میلے میں جانے کی تیاری کرتا ہے تو جانی واکر اُس سے کہتا
ہے۔ ”بابو جی! میلے میں مت جانا۔ سُنا ہے اُس گاؤں میں کوئی جادو ہے۔ جو
جاتا ہے وہ وہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ سُندریاں اُسے اپنے بس میں کرلیتی
ہیں۔ میں آپ کو وہاں نہیں جانے دوں گا۔“
جب دلیپ کمار نہیں مانتا اور جانے پر بضد رہتا ہے تو جانی واکر کہتا ہے۔
”اچھا، یہ بات ہے تو پھر میں بھی چلوں گا۔“
چین اور امریکا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ پہلے تو چینیوں کو ترقی سے
ڈرایا گیا۔ جس راہ پر گامزن ہوکر مغرب نے منزل پائی ہے اُسی راہ کو چین کے
لیے ناموافق قرار دیا گیا! یہ بھی خوب رہی۔ جب امریکیوں نے دیکھا کہ چین
ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے مجتنب ہونے کا نام نہیں لے رہا تو اُسے اِسی
حالت میں قبول کرلیا۔ کچھ لوگ اپنی بات نہ ماننے کی صورت میں ”ورنہ“ کے
ذریعے دھمکی دیتے ہیں۔ دو تین بار دھمکی ملنے پر جب فریقِ ثانی استفسار
کرتا ہے ورنہ کیا تو فریقِ اوّل بھیگی بِلّی کی طرح کہتا ہے۔ ”ورنہ کیا، آپ
جو چاہیں گے وہی ہوگا!“ یعنی امریکا بھی پُرانی تنخواہ پر کام کرنے کو راضی
ہوگیا ہے۔
امریکی صدر نے چینی ہم منصب سے حالیہ ملاقات میں ایسی ہی بات کہی ہے۔ کل تک
چین کو ترقی سے ڈرایا جارہا تھا۔ کیلی فورنیا میں چین ہم منصب شی جن پنگ سے
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں امریکی صدر براک اوباما نے کہا۔ ”چین کی
ترقی امریکا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان
مسابقت کے ساتھ ساتھ اشتراکِ عمل بھی جاری رہنا چاہیے۔ مسائل کا حل مل کر
تلاش کرنا ہوگا۔“
چین کی جس ترقی سے امریکا کو شدید خوف لاحق تھا اُسے روکنے میں ناکامی کے
بعد امریکا اُسے اپنے اور عالمی مفاد حق میں قرار دے رہا ہے! سپر پاورز کی
قلابازیاں واقعی بہت مضحکہ خیز ہوتی ہیں! سوال یہ ہے کہ جو مسائل امریکا نے
تنِ تنہا پیدا کئے ہیں اُن کا حل تلاش کرنے میں چین مدد کیوں کرے؟ جس نے
غلاظت پیدا کی ہے وہی صاف بھی کرے۔ ہاں، امریکا کو سائبر کرائمز کے حوالے
سے بھی چین سے شکایات ہیں۔ براک اوباما نے میڈیا سے گفتگو میں اِس کا ذکر
بھی کیا مگر چینی ہم منصب نے میڈیا سے گفتگو میں اِس پر ایک لفظ بھی کہنا
گوارا نہ کیا۔ امریکا کئی ممالک میں جاسوسی کے ذریعے اربوں معلومات حاصل
کرتا ہے۔ کیا وہ سلسلہ رُکنا نہیں چاہیے؟ اب اگر چین بھی ایسا ہی کر رہا ہے
تو حیرت کی بات کیا ہے؟
امریکا اور یورپ کے لیے چین کی ترقی سے کہیں بڑا دردِ سر یہ ہے کہ وہ دنیا
پر حکمرانی کے خبط میں مبتلا نہیں۔ اور دنیا تو کیا، چین علاقائی برتری و
بالا دستی میں بھی زیادہ دلچسپی لیتا دِکھائی نہیں دے رہا! یہ تو بہت بُری
بات ہوئی۔ امریکا چاہتا ہے کہ کوئی تو ہو جو اُس کی وحشتوں کا ساتھی ہو!
اور چین ہے کہ کہیں سے پکڑائی نہیں دے رہا۔ وہ علاقائی سطح پر بھی مناقشوں
کی محفل سجانے کے موڈ میں نہیں۔
چین کا بچ بچ کے چلنا امریکیوں کے لیے مستقل دردِ سر ہے، عذاب ہے۔ امریکی
پالیسی میکرز منفی سرگرمیوں میں اپنے لیے مثبت نتائج تلاش کرتے آئے ہیں۔
دوسروں کی خرابی میں اپنے لیے تعمیر کا سامان تلاش کرنا امریکیوں کا وتیرہ
رہا ہے۔ چین کا پیراڈائم یکسر مختلف ہے۔ وہ ایسی کوئی بھی حرکت نہیں کر رہا
جس سے اُس کے عزائم اور منصوبوں کے بارے میں دنیا تشویش یا شک میں مبتلا
ہو۔
چین کو الجھانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ
میں حالات خراب کرکے چین کو آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ لیبیا میں چین نے 25
ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اِس ملک کا استحکام داؤ پر
لگادیا گیا۔ مصر، تیونس اور شام میں بھی حالات کو ایسی نہج تک پہنچایا گیا
ہے کہ چین سرمایہ کاری کا خیال ذہن سے کھرچ کر پھینک دے۔
یورپ دانا نکلا۔ بہت پہلے ہی اُس نے امریکا سے راہیں الگ کرکے مختلف خطوں
سے تعلقات بہتر بنالیے۔ ہم آہنگی اور مفاہمت پیدا کرکے یورپ نے نرم قوت کے
ذریعے راستہ بنایا ہے۔ امریکا اب تک طاقت یعنی عسکری مہم جوئی کا پیراڈائم
اپنائے ہوئے ہے۔ روس میں تو حریف بننے کی سکت نہ تھی۔ چین منہ دے رہا ہے۔
اب امریکا کو تبدیل ہونا پڑے گا۔
ہر فرعون کے لیے مُوسٰی پیدا کیا جاتا ہے۔ امریکا کی اکڑی ہوئی گردن کو نرم
کرنے کا بھی قدرت نے اہتمام کردیا ہے۔ فیصلے کی گھڑی آچکی ہے۔ بیشتر
امریکیوں کے حلق سے یہ بات اُتر نہیں رہی کہ اب وہ حقیقی مفہوم میں نمبر ون
نہیں رہے۔ چین کو روکنے کی کوشش میں اُنہوں نے اپنی راہیں مسدود کرلی ہیں۔
امریکا اور کچھ نہیں کرسکتا تو کم از کم ڈھنگ سے جینا ہی سیکھ لے، حالات کے
مطابق تبدیل ہوجائے۔ اور عالمگیر حکمرانی کا خنّاس دِماغ سے نکال دے۔ یہی
راستہ اُسے خیر کی طرف لے جاسکتا ہے۔ چین کا بڑی طاقت بننا دنیا کے مفاد
میں ہو یا نہ ہو، امریکا کا تھوڑا بہت سُدھر جانا ضرور دنیا کے مفاد میں
ہوسکتا ہے۔ طاقت کی زندگی کو تو امریکی قابلِ احترام نہ بناسکے، طاقت کی
موت ہی کو باوقار بنالیں! |