سفر اگر وسیلۂ ظفر ہے تو زبان
مبارک سے اسے عذاب کاٹکڑابھی قرار دیاگیا ہے۔ سفر عام گاڑی کاہو، ریل گاڑی
کا ہویاہوائی جہازکاتکلیف سے خالی نہیں ہوتا۔ موت کاخوف بھی سر پر منڈلارہا
ہوتا ہے۔ اور اگر سفر سرکاری ریل میں ہورہاہو تو’لطف کے حسین لمحات‘ہمیشہ
یاد رہتے ہیں۔
برادر صغیر سجاد احمد کی شادی سر پر تھی، فیصلہ ہواپشاور سے مہمانوں کو
کراچی لانے کے لیے عابدی جائیں گے، شش وپنج میں پڑگیاکہ پشاور کے لیے رخت
سفر کس سواری پر باندھا جائے، عموماًاس نوع کے اسفار بسوں میں ہی ہوتے ہیں۔
اے سی کلاس میں سفر قدرے بہتر ہوتا ہے، مگر چھبیس یاتیس گھنٹے ایک ہی ماحول
سے نتھی رہنا، گوانتاناموبے قیدی کی یاد میں سیٹ میں دھنسے رہنااور بیت
الخلاء کی عدم سہولت جیسے اسباب بس میں سفر کرنے سے ڈرارہے تھے۔ کہتے ہیں
کبھی زحمت بھی رحمت کا پیغام لے کر آتی ہے اور چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت کی
راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوااتوار والے دن موٹر
سائیکل سے گرپڑاہاتھوں اور ٹانگوں میں معمولی خراشیں آئیں۔ بڑی معصوم سی
صورت بناکر والدہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اپنے زخم دکھائے، ہمدردانہ نظروں
سے دیکھا، والد کے دربار میں درخواست پیش کی گئی’زخم خوردہ عابدی بسوں میں
سفر کا متحمل نہیں جہاز کے لیے اجازت مرحمت فرمائی جائے‘۔ یوں بغیر کسی بحث
وتمحیص کے جہازمیں سفر کی اجازت کا پروانہ جاری ہوگیا۔شام ساڑھے ساتھ کی
فلائٹ تھی ،تیاری شروع کی گئی، پچھلی جہاز میں سفر کی روداد بھول چکا تھا،
خیال تھا مغرب کی نماز کا وقت سات بج کر بیس منٹ پر داخل ہوتاہے، دخول وقت
کے ساتھ ہی اﷲ کے حضور قیام کرلیا جائے گا، مگر عملے کو ہماری یاد بہت بے
چین کیے دے رہی تھی، پورے سات بجے اپنے پاس بلایا گیا، جہاز میں نمازکی جگہ
ندارد، تھوڑی سی جگہ خالی تھی، پشاور کے پٹھان بھائیوں نے زور آزمائی کی
مگر کوشش رائیگاں گئی، دہشت گردی کے پیش نظر ان کی خواہش ٹھکرادی گئی، یوں
بلا سمت قبلہ وسجدہ نماز اد کی گئی۔
کچھ دیر بعد ایک مشروب پلایا جانے لگا، سوچاکوئی اعلیٰ قسم ہوگی ،ہم نے بھی
ہاتھ اوپر کیا، جب گلاس منہ سے لگایا، سادا پانی کاذائقہ، غصہ سے لڑکے
بالوں والی لڑکی نما شے کو دیکھااور یہ کہہ کر واپس کردیا’بہت میٹھا ہے پیا
نہیں جارہا۔تھینک یو۔‘اپنے لیے اخبار کی فرمائش کی جواب ملا جبداخل ہورہے
تھے وہیں اخبار کا ڈھیر تھا اپنے لیے منتخب کرلیتے ۔ شکل اچھی نہ ہو بات تو
ڈھنگ کی کرنی چاہیے ۔ دوبارہ متادبانہ انداز میں اپنی درخواست پیش کی،
ہماری انگریزی درستی کے لیے انگریزی اخبار تھمایاگیا ، ہم نے بھی یوں اچکا
جیسے اسی کا تو انتظار تھااور اس وقت تک اپنی انگریزی دانی کااظہار کرتے
رہے جب تک ڈنر کے لیے ہمیں کاندھوں سے جھنجھوڑا نہ گیا۔ ایک شامیکباب، بن ،
کیچپ اور چائے تین حصوں میں تقسیم دی گئی۔ یعنی گرم پتی ملاپانی،چینی، اور
خشک دودھ سب اشیاء الگ الگ ۔اب یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے بغیر چینی کے
چائے بناتے ہیں، کم چینی کے یا دودھ کے بغیر گرم پتی ملا پانی نوش جان کرتے
ہیں۔
پی آئی اے جہاز میں جو کیچپ مسافروں کو پیش کیا گیامشہور قادیانی کمپنی
شیزان کا بناہواتھا، جہاز کے عملے سے بات کی ، ہماری بات سن کر انہوں نے جس
ردعمل کا اظہار کیاوہ انتہائی افسوسناک تھا، ان کا مدعیٰ تھاہمارے ملک میں
تقریباً نوے فیصد مصنوعات غیر مسلم ممالک کی ہیں،نہ جائے رفتن نہ پائے
ماندن استعمال کرنے پڑتے ہیں، ہم نے عرض کیا کافراورکافر میں بڑافرق ہے،
دیگر کفاریہودی، عیسائی وغیرہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے ببانگ دہل
اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں، جبکہ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان احمدی باور
کراتے ہیں ، مسلمانوں جیسے اعمال کرکے دھوکادہی میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایک بڑا
فرق یہ بھی ہے کہ عیسائی، یہودی وغیرہ قبل از اسلام کسی دین کی پیروی کرتے
ہیں اور قادیانی ارتداد کی چادر اوڑھ کر خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی
نبوت پر ڈاکاڈالتے ہیں، مرزا جیسے شخص کی نبوت کا پرچار کرتے ہیں جس کی
زندگی عیوب سے بھرپور ہیں، شکل بھی ایسی پائی دور سے ہی سلام ، کانی آنکھ،
بھدی صورت۔ ایک دکاندار خنزیر کا گوشت خنزیر کالیبل لگاکر بیچتا ہے اور
دوسرا خنزیر کاگوشت بکرے کا آواز لگاکر دھڑلے سے فروخت کرتا ہے، بس یہی فرق
قادیانی اور دوسرے کافروں میں ہے۔ میرا ’لیکچر‘ وہ ’روشن خیال‘ ناخوش گوار
اندازمیں سنتے رہیں ۔ نئی حکومت سے گزارش ہے اس حساس معاملے پر بھی ضرور
ایکشن لے۔
نو بج کر بیس منٹ پرپشاور ائیرپورٹ پہنچے، ’حسن گڑھی‘ روانی کے لیے ٹیکسی
پکڑی، ٹیکسی میں بیٹھے ہی تھے کہ پولیس اہلکار نے آلیا، شناختی کارڈ مانگا،
دیکھ کر اپنے ساتھی کوآواز دی جو شکل سے ہی ایک نمبریالگ
رہاتھا،پورانٹرویولیاکہاں سے آئے ہو،کیوں آئے ہو، کس کے پاس جاناہے، اصل
تعلق کہاں سے ہے؟جب کسی طور وہ نامانا، ہرصورت تعلق طالبان یا افغان
مہاجرین سے جوڑنے پر بضد دکھائی دیاتوآخری پتامیں نے پریس کارڈ کا پھینکا،
دیکھ کر بولا یہ تو ہر جگہ بن جاتے ہیں، عرض کیااس پر ایڈریس اورفون نمبر
لکھاہے، آپ کے پیٹی بند بھائی وہاں ہیں ان سے رابطہ کر کے معلومات لے لیں۔
جب لاجواب ہواتوکہنے لگاشریف معلوم ہوتے ہو ورنہ اندر کروادیتا، ہم نے
کہاطالبان کی تعداد کم نہیں اور افغان مہاجر بھی وافر مقدار میں پائے جاتے
ہیں آپ خواہ مخواہ مزید کا اضافہ نہ کریں۔ پریس کارڈ دیکھنے کے بعد اس میں
اور روکنے کی ہمت نہ رہی تھی، ڈرائیور کوجانے کااشارہ دیا۔ بعد میں معلوم
ہواافغان مہاجر سے تعلق ثابت ہونے پر چھ ہزار سے کم رشوت قبول نہیں
کرتے۔تھوڑاآگے جوان فوجی نے بھی روکا، پوچھاکہاں سے آئے ہو اور کہاں
جاناہے، جواب پاکر عقابی نظروں سے گھورااور جانے دیا۔ کراچی اور پشاور کی
پولیس ایک جیسی دکھائی دی، ان کا کام امن وامان کی رکھوالی نہیں، چوروں سے
مک مکا اور شریف شہریوں کو تنگ کرناہے۔ اگر ان کی اصلاح کی جائے تو یقین
کیجیے نصف سے زائد جرائم ختم ہوجائیں گے۔
چار دن پشاور میں گزارے، کراچی میں گرمی تینتیس چونتیس سینٹی گریڈ تھی اور
پشاور میں تینتالیس چوالیس یعنی دس گریڈزیادہ۔ دھوپ میں باہر نکلنا محال
تھا، اس لیے جلد وہاں سے فرار میں عافیت سمجھی۔بس کی نسبت ریل کا سفر آرام
دہ محسوس ہوا،ہفتے کے دن رات دس بجے ریل کے سلیپر بزنس کے ٹکٹ ملے، ٹکٹی
جاننے والاتھا، فرمائش کی اگر ہفتے والے دن نہ جاناہوتوبتادینااتواریاپیر
کے دن بھی مل سکتے ہیں، گھر والوں سے فون پر رائے معلوم کی تو انہوں نیہفتے
کی جگہ اتوار کاکہا۔ دوبارہ ٹکٹی سے رابطہ کر کے دن بدلی کروایااور تلقین
کی کہ آگے بھی بات کرلیں اس نے کہا آپ بے فکر رہیں وہ میرمسئلہ ہے۔ یہ جمعے
کے دن کے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ دوپہر کوبلاکر خبر دی کہ آپ کے ہفتے والے
دن کے ٹکٹ کمپیوٹرائز سسٹم کی وجہ سے جلدکٹ چکے ہیں آپ ناراض نہ ہو اورمیں
نے آپ کے لیے کافی بھاگ دوڑ کی ہے ، چرب زبانی سے اپنا چائے پانی وصول کیا۔
دوسرے دن دوبارہ کال آئی ’تکلیف کے لیے انتہائی معذرت ، گاڑی کا اے سی
پلانٹ جل گیاہے، اب آپ حکم دیں کیاکریں اکانومی کلاس میں جاناہے ؟جوبغیر اے
سی کے ہوتاہے یااگلے دن جاناپسندفرمائیں گے جب تک پلانٹ صحیح
ہوچکاہوگا؟غوروخوض کے بعد طے ہواکہ کل پر ہی بات چھوڑدی جائے ، اس گرمی میں
بغیر اے سی کے سفر مشکل ہے ، بس میں بھی باوجود اے سی کے متلی، الٹیاں اور
کئی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
پشاور کی دوپہر کی سخت گرمی سے چھپ چھپاکر کسی ٹھنڈے غار میں پناہ لے کر
سونے ہی والاتھاکہ فون کی گھنٹی نے نیند خراب کردی ، دوسری طرف ریلوے
والاتھا، نویدسنائی کہ سسٹم ٹھیک ہوچکاہے آپ ہفتے والے دن ہی سفر کے لیے
تیار رہے، جلدی جلدی تیاری کی ،دس سے پہلے پہلے ریلوے اسٹیشن پہنچے ،اپنا
ڈبہ معلوم کرکے سامان چڑھانے ہی والے تھے کہ ایک اور بیڈنیوزمنہ کھولے کھڑی
تھی ، ریلوے حکام نے تحکمانہ لہجے میں حکم صادر فرمایاکہ اس ڈبے میں اے سی
نہیں لگے گی۔ اس کو پوراماجراکہہ سنایاآپ ہی کے لوگوں نے پہلے کہااے سی
پلانٹ خراب ہے اور پھر صحیح ہونے کی خبر دی، اب آپ کوئی اور راگ الاپ رہے
ہیں؟بڑی لے دے ہوئی، برادر نسبتی بھی آئے تھے، کافی تکرار کے بعد اے سی
کھولنے کی منظوری دی گئی۔ رات بخیروعافیت کٹی ، پنجاب کاسورج جو سر چڑھ کر
بولاتواے سی کی ایسی کی تیسی کرڈالی، مسافروں نے شدید احتجاج کیاکہ ٹکٹ
دیتے وقت تو آپ لوگوں کاکہناتھااتنی تیز اے سی ہے کہ چادر اوڑھنے کی ضرورت
پڑے گی؟جواب ملا ایساہی ہوتااب یہ آپ کی قسمت ہی ہے ہم کیاکہہ سکتے ہیں،
شدید احتجاج کے بعد عملہ مسافروں کو متبادل جگہ دینے پرآمادہ ہوا، ہم نے
معذرت کرلی ، تین فیملیوں کادوسری جگہ مع سامان کے منتقل ہونا کارِدارد
تھا۔خداخداکرکے ریل چل پڑی ، اگلے دن چھ بجے پہنچنے کاٹائم تھا، خانیوال تک
تیز چلی اس کے بعد لگانانی فوت ہوگئی ہو، چیونٹی کی چال اور جگہ بے جگہ
ٹھہرنے نے مسافروں کی طبیعت مکدر کردی۔ صبح چھ کی بجائے رات دس بجے گاڑی
کراچی پہنچی، یعنی مکمل دودن میں سفر طے ہوا۔ سید ضمیر جعفری اگرزندہ ہوتے
وہ کراچی کی بس کی جگہ یوں دل کادکھڑاسناتے۔
نہیں ہورہا ہے مگر ہورہا ہے
جودامن تھاپسینے سے تربترہورہاہے
سفینہ جو زیر وزبر ہور ہا ہے
مسافر کا حال برا ہور ہاہے
سرکاری ٹرین میں سفر ہور ہا ہے |