15 جون 2013 بلوچستان کے لیے
انتہائی بھاری دن تھا لیکن دل ہر پاکستانی کا رویا۔ چودہ جواں سال طالبات
کو ان کی یونیورسٹی بس کے اندر جھلس دیا گیا۔ ان کی مائیں جو اُن کے گھر
بسانے کے لیے اُن کی تعلیم ختم ہونے کے انتظار میں تھیں اُنہوں نے ان لائق
فائق بیٹیوں کو مٹی کے سپر د کیا اور پاکستان کے مستقبل کے چودہ روشن ستارے
صبح ہونے سے پہلے ہی بجھ گئے۔ سردار بہادر خان یونیورسٹی کا قیام عمل میں
آیا تو مجھے یاد ہے کہ کوئٹہ کی طالبات نے کس خوشی کا اظہار کیا تھا چاہے
وہ لڑکیا ں بلوچ تھیں پٹھان تھیں ہزارہ تھیں یا پنجابی سب اس بات پر خوش
تھیں کہ اب انہیں گھروں سے آسانی سے اعلیٰ تعلیم کی اجازت مل سکے گی اور کل
اسی امیدوں کے مرکز میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا۔ امید محبت اور عظمت
کا ایک اور مرکز بلوچستان میں زیارت کے مقام پر با با ئے قوم کی ریزیڈنسی
تھی جسے قوم نے بھی سنبھال کر رکھا تھا اور زیارت کے لوگوں نے تو دل سے لگا
کر رکھا تھا ان کی اس محبت کا احساس قوم کو تب ہوا جب چودہ اور پندرہ جون
کی درمیانی شب دہشت گردوں نے اس پر بموں سے حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا اور
اگلے دن اہلیان زیارت سراپا احتجاج بن گئے ۔ محبت کی اس یادگار کی حفاظت
کرتے ہوئے اس کا ایک محافظ شہید ہو گیا۔ زیارت ریزیڈنسی پر حملہ دراصل
نظریہ پاکستان پر حملہ تھا حملہ آوروں نے عمارت کو تباہ کر کے پاکستان کے
خلاف دشمنی کا کھلا ثبوت دیا دونوں واقعات اتنے افسوس ناک تھے کہ سارا دن
ایک دکھ کی کیفیت میں گزرا۔ اگر چہ اب ہم بحیثیت قوم اس طرح کی خبروں کے اس
قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہم ایک افسوس زدہ آہ کرنے کے بعد معمولات زندگی میں
مشعول ہو جاتے ہیں لیکن اُس دن ایسا نہ تھا حتیٰ کہ ٹیلی ویژن کے پروگرام
بھی اداس اور متاثر تھے ،ہاں پاک بھارت میچ سے پہلے ایک ٹی وی چینل پر ٹاکر
اکے نام سے ایک پروگرام میں ہنسی مذاق اور مصنوعی نوک جھونک کا مقابلہ جاری
رہا اور یہ غمگسارانِ وطن عین اُس وقت یہ سب کچھ کر رہے تھے جب کوئٹہ میں
تیئس گھرانے آہ و بکا میں مشغول تھے۔ اگر چہ کراچی میں روز اور پشاور میں
بھی دوسرے چوتھے روز یہی منظر ہوتا ہے لیکن یہ وہی کوئٹہ اور بلوچستان تھا
جس کے گمشدہ لوگوں سے یکجہتی کے نام پر یہی اینکرز اپنا کا روبار چمکاتے
ہیں ہاں شام کو انہوں نے پروگرام’’ آپس کی بات ‘‘میں اپنے روایتی لہجے میں
اپنا روایتی تجزیہ کیا اور چند مفروضوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور ان
واقعات کی ذمہ داری سے بی ایل اے اور ملک دشمن عناصر کو بری الذمہ قرار دے
کر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور آئی ایس آئی کو ذمہ دارقرار دیا۔ یہ
کہنا کہ ہماری فوج اور آئی ایس آئی میں ہر ایک فرشتہ ہے بھی غلط ہے، ایسا
ممکن نہیں کیوں کہ یہ لوگ اسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جس سے ایک عام شہری
تعلق رکھتا ہے اس لیے وہ اپنے ذاتی کردار میں تو قابلِ اعتراض ہو سکتے ہیں
اور یہی وجہ ہے کہ میں اِن چند لوگوں کا دفاع کرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں
کروں گی اور اگر اِن میں کوئی قصور وار ہے چاہے غفلت کا چاہے مخبری کا تو
ان کو بھی ایک عام پاکستانی کی طرح سزا دی جائے لیکن بحیثیت ادارہ ایسا
الزام لگانا بذات خود ملک دشمنی ہے اور اس الزام میں کوئی حقیقت کسی طرح
نظر نہیں آتی کہ ملک دشمنوں کے خلاف لڑتی ہوئی یہ فوج اور یہ ادارے معصوم
لڑکیوں اور پھر مریضوں اور معالجوں کو آخرکیوں قتل کر یں ، با بائے قوم کی
رہائش گاہ بھی کیا اِن کے مقاصد کی راہ میں کوئی رکاوٹ تھی۔ ایک غیر معقول
دلیل یہ دی گئی کہ بلوچستان کی نئی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے یہ سب کچھ
کیا گیا کیونکہ ڈاکٹر عبدالمالک کے مطالبات اِن ایجنسیوں لیے نا پسندیدہ
ہیں کیونکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ :۔
نمبر۱ ۔ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور گمشدگیوں کا سلسلہ بند ہو۔
نمبر۲ ۔ مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بند ہو۔
نمبر۳ ۔ اکبر بگٹی کے قاتلوں کو سزادی جائے ۔
کیا اِن مطالبات میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی ایسا ہے جس کی مخالفت کوئی بھی
معقول شخص یا ادارہ کرے گا اور ایک جرنیل جسے اس ملک کے سیاستدانوں نے
منتخب صدر کا درجہ دیا، اس کو عدالتوں نے آئین معطل کرنے کا اختیار دیا اس
کو بچانے کے لیے یوں درجنوں لوگوں کو شہید کیا جائے گا ، ان کے خاندانوں کو
رلایا جائے گا اور کیا بلوچستان میں پنجابیوں کا قتل عام جس کی ذمہ داری بی
ایل اے قبول کرتی ہے اس کی اصل ذمہ دار بھی یہ ایجنسیاں ہیں۔ خدارا قوم کو
گمراہ مت کیجئے۔ یہ لوگ اس پروگرام میں بار بار فرماتے رہے کہ وہ بی ایل اے
کے بھی دشمن بن جاتے ہیں اور آئی ایس آئی اور فوج کے بھی کیونکہ وہ حق کی
بات کرتے ہیں انہوں نے خدا جانے طنز یہ کہا یا نہیں لیکن محسوس طنز یہ ہی
ہوا جب وہ بی ایل اے کو پاکستان دشمن کہہ رہے تھے۔ جب اس طرح کے تجزیے کئے
جاتے ہیں تو ہم اصل مجرموں کو ایک سیف پیسج فراہم کر دیتے ہیں کہ لوگوں کا
دھیان کہیں اور لگ جائے اور اصل مجرم بھاگ نکلے ۔ بلوچستان کے بارے میں سب
جانتے ہیں کہ وہاں تعلیم کا عام نہ ہونا سرداروں کے حق میں ہے حکومت اور
فوج کے نہیں، کیونکہ جب یہ مجبور و مظلوم لوگ پڑھیں گے لکھیں گے تو ظاہر ہے
کہ مقابلہ کرنا سیکھیں گے اور مقابلہ طاقتور اور حاکموں کے کبھی بھی حق میں
نہیں ہوتا مبادا کہ مقابلہ کرتے کرتے کوئی مقہور خود ظلم کے آگے قہر نہ بن
جائے ۔بی ایل اے ، براہمداغ، حربیار، اللہ نذربلوچ یہ سب حاکم ہیں جو اپنے
مفا دات کے لیے لڑرہے ہیں بلوچستان کے لوگ تو وہ ہیں جو زیارت ریزیڈنسی کی
تباہی پر احتجاجی نعرے لگا رہے تھے جانتے بھی تھے کہ وہ بھی دشمن کے حملے
کا نشانہ بن سکتے ہیں پھر بھی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
بگٹی کے قتل کو کسی بھی پاکستانی نے مبنی برانصاف نہیں کہا تھا نہ ہی مسخ
شدہ لاشوں کا ملنا قابل قبول ہے نہ ہی لاپتہ افراد کا معاملہ پسندیدہ ۔
لیکن اس کو اپنی شہرت کے لیے استعمال کر کے اِن لوگوں کو اور زیادہ ریاست
اور حکومت کے خلاف کرنا بھی ایک بڑا جرم ہے بلکہ قوم اور وطن سے غداری ہے
جو قابل سزا ہے آزادی اظہار نہیں۔ آزادی اظہار کے تو جتنے یہ لوگ قائل ہیں
وہ سب جانتے ہیں کہ اپنی مرضی اور ادارے اور ارادوں کے خلاف بولنے والوں کے
تو یہ منہ بند کر دیتے ہیں ان کے پروگراموں میں صرف وہی لوگ ہوتے ہیں یا
بولتے ہیں جو ان کی مرضی کے مطابق بولیں دوسری رائے یا دوسرا نظریہ بہت کم
سننے کو ملتا ہے اور اب تو بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ یہ لوگ اپنے تجارتی
پارٹنرز کی خوشنودی کے لیے کھلم کھلا نظریہ پاکستا ن کے خلاف بھی بولتے ہیں
بلکہ دو قومی نظریے کا ہی انکار کر دیتے ہیں ۔ قوم کو اس وقت مثبت نظریے
یکجہتی اور سا لمیت کی ضرورت ہے نہ کہ شک کے بیج بونے کی اور نہ ہی اداروں
کو ذلیل کرنے کی۔ اگر اِن تجزیہ نگاروں کو ایک مخصوص ذہنیت کے میڈیا نے’’
عظیم تجزیہ نگار ‘‘بنا دیا ہے تو گذارش ہے کہ حقائق سے پردہ پوشی مت کیجئے
پاکستان اور اس کے لوگوں پر رحم کیجئے اس کی تاریخ اور قائد سے غداری مت
کیجئے کم از کم اس کی یاد گار پر حملہ کرنے والوں کو فرار کا موقع مت دیں
اگر آپ کی پہنچ اسامہ بن لادن ، بیت اللہ محسود اور مولوی فضل اللہ تک ہو
سکتی ہے تو پاکستان دشمنوں کو تلاش کیجئے اور جب یہ آپ کو ملیں تو انہیں
قوم کے حوالے کیجئے ۔عدالت میں ثبوتوں کے بغیر سزا نہیں ہوتی اور یہ مجرم
ثبوت نہیں چھوڑتے کہ یہ تو خود کو ہی اڑادیتے ہیں لہٰذا یہ ثبوت عدالت کو آ
فراہم کیجئے تا کہ قوم اِن کے شر سے محفوظ ہو سکے ۔ یہ خدمت سر انجام دیجئے
اس معصوم خون کے بدلے جو پندرہ جون کو کوئٹہ میں بہا اور ہر روز پاکستان کے
ہر شہر میں بہتا ہے ۔ اللہ پاکستان کی ہر دشمن سے حفاظت کرے چاہے وہ
اندرونی ہو یا بیرونی آمین۔ |