بھارت پاکستان کے ساتھ تو سینگ
اڑائے ہی رکھتا ہے لیکن اس کے باقی پڑوسی بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں، سر ی
لنکا میں بد امنی اور خانہ جنگی پیدا کرنے کے لیے وہ سمندر کے پانی عبور
کرتا تھا ، پاکستان کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کر نا،سال میں دو چارمرتبہ
سرحدی خلاف ورزیاں کرنا اور دو تین دیہاتیوں کو شہیدکر دینا تو اس کے فرائض
میں شامل ہے۔ ابھی حال ہی میں اُس کے دو جنگی جہازوں نے پاکستان کی فضائی
حدود کی خلاف ورزی کی اب یا تو وہ مان لے کہ اُس کی نیت بری تھی یا پھر
اُسکے ہوا باز اس قدر غیر تجربہ کا رہیں کہ اپنی اور پرائی سرحدوں کا تعین
نہیں کر پاتے ۔ معاملہ جو بھی ہو لیکن جب پاکستانی ہو اباز اڑتے ہیں تو پھر
بھارت کے جہاز مڑ کر نہیں دیکھتے اور بھاگ جاتے ہیں یعنی ان کی سمجھ میں
صرف طاقت کی زبان آتی ہے۔ یہی کچھ بھارت کے ساتھ تب ہوا جب اُس نے چین کے
سا تھ اپنی سرحد پر اپنی طاقت کا نا جائز مظاہرہ کر نے کے لیے پرانے مورچوں
کو مضبوط کرنا شروع کیا اور اسی کی آڑ میں نئے مورچے بھی بنانے شروع کیے۔
لداخ کی بین الاقوامی سر حد چمار سیکٹر پر ہونے والی اس غیر معمولی سر گرمی
کا چین نے سختی سے نوٹس لیا اور بھارت پر واضح کیا کہ اس متنازعہ سرحد پر
وہ کوئی بھی مستقل مورچہ بندی نہیں کر سکتا۔ چین مک موہن لائن پر واقع اس
علاقے کو اپنا حصہ گردانتا ہے جبکہ بھارت اسے اپنا حصہ قرار دیتا ہے ۔ مک
موہن لائن برطانوی ہند کے برطانوی سیکرٹری خارجہ سر ہنری مک موہن نے
ہندوستان اور چین کے درمیان1914 میںکھینچی جسے چین نے تسلیم نہ کیالیکن
بھارت نے اپنے قیام کے بعد اپنی ہٹ دھرمی سے اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیا،
چین نے اپنے آزادی کے بعد اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی اور 1950 میں چو
این لائی نے بھارت کو پیش کش کی کہ اگر وہ اکسائی پر چین کا حق تسلیم کر لے
تو چین مک مو ہن لائن کو تسلیم کرلے گا لیکن بھارت نے ایسا نہ کیا بلکہ
1960 میں پوری متنازعہ ہما لائی ریاست کا کنٹرول سنبھال لیا اور ماہرین کے
نزدیک یہی 1962 کی چین بھارت جنگ کی وجہ بنی۔وقتاََ فوقتاََ یہ 90,000 مربع
کلومیٹر علاقہ چین اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بنتا رہتا ہے لیکن
بھارت چونکہ طاقت کی زبان سمجھتا ہے اور چین اس پر دبائو ڈالتا ہے تو وہ
خود بخود اپنی پچھلی پوزیشن پر پہنچ جاتا ہے۔ 1980 کی دہائی میں بھی جب
حالات خراب ہوئے تو بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی بیجنگ پہنچ گئے اور
معاملات کو قابوکیا ، اب جب کہ چین بزورِ بازو بھارت کو نئے مورچے بنانے
اور پرانے زیادہ مضبوط بنانے سے روک چکا ہے تو ارونا چل پردیش کے گورنر
جنرل ریٹائرڈ جے جے سنگھ نے کچھ لو اور کچھ دو کو مسئلے کا حل قرار دیا ہے
ظاہر ہے ایک گورنر خود سے کوئی ایسا حل نہیں دے سکتا یقینا مرکزی حکومت کی
مرضی اس بیان میں شامل رہی ہے جس کا ثبوت وزیراعظم من موہن سنگھ کا رویہ
بھی ہے جنہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو بخوبی حل کیا جائے گا اور آپس میں ہی
طے کر لیا جائے گا ۔ جبکہ انڈین میڈیا اپنے سیاستدانوں پر بھی چیخ اٹھا کہ
وہ اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور ان کے مطابق چینی افواج نے اپنے
کچھ درجن سپاہی بھارتی سرحد کے اندر بھیجے اورخیمے لگائے مگر یہ نہیں بتایا
کہ چین نے ایسا کیوں کیا، کیوں بھارت کو اپنی سر حد پر ہونے والی گشت کو
روکنا پڑا اور اُسے چین کے مطالبات کیوں تسلیم کرنا پڑے۔ اُس نے چین کو
پاکستان سمجھ کر یہ ساری کاروائی کی تھی جہاں وہ اپنے جہاز بھیجتا ہے کہ
فضائی سرحد کی خلاف ورزی کرے ،کبھی زمینی سرحدی خلاف ورزی کرتا ہے اور کبھی
دہشت گرد کاروائیاں اور پھر دنیا کو یہ باور کرا دیتا ہے کہ سارا قصور
پاکستان کا ہے بھارت تو صرف اپنا بچائو کر رہا ہے۔ اگر چہ یہی تاثر اُس نے
چین کے ساتھ تنازعے پر بھی دیا اور یہی وجہ ہے کہ کچھ بین الاقوامی اخبارات
اور رسالوں نے چین کے خیمے گاڑھنے کی خبر کو زیادہ اچھالا ۔چاہے جو بھی ہوا
پہل جس نے بھی کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور وہ بھی
چینی شرائط پر اور یہ دراصل چینی شرائط نہیں طاقت کی زبان تھی جس نے کوئی
بڑا سانحہ، کوئی بڑی جنگ ہونے سے روک دی۔ اگر پاکستان بھی بھارت کو اسی
لہجے میں جواب دے تو شاید ہر روز کی بھارتی شرارتوں سے بچا رہے اور علاقے
میں زیادہ پائیدار امن قائم ہو لیکن یہاں تو بجٹ پاس ہو تو ہمارا ہر چغادی
تجزیہ نگار اپنی تمام تر توانائیاں اور سمجھ بوجھ اس بات پر ضائع کر دیتا
ہے کہ دفاع کی مد میں زیادہ پیسے کیوں رکھے گئے اس کا دکھ ہربا شعور
پاکستانی کو ہوتا ہے لیکن کاش اس کا پڑوسی بھارت نہ ہوتا اور یا وہ ایسا
دشمن نہ ہوتا جو کھلم کھلا اور چھپ کر دونوں طرح سے وار کرنا اپنا فرض
سمجھتا ہے امن کی بات اچھی ہے لیکن طاقتور اور کمزور کے مابین امن نہیں
مجبوری ہوتی ہے۔ بھارت اپنی فوجی طاقت ہمہ وقت بڑھائے رکھتا ہے اگر وہ یہی
توانائی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن قائم رکھنے پر صرف کرتا اور انہیں اپنے
اپنے ملک میں سکون اور آرام سے رہنے دیتا تو جنوبی ایشیا دنیا کا بہترین
خطہ ہوتا اور نہ خود بھارت سے کوئی طاقت کے ذریعے فیصلے منواتا اور اس کی
فوج کی عوام میں سبکی ہوتی اور نہ دوسرے ممالک اپنی عوامی خوشحالی کو چھوڑ
کر اسلحہ بنا تے اور خریدتے اس سب کچھ کے لیے اُسے علاقے کا چودھری نہیں
صرف ایک ذمہ دار ملک بننا پڑے گا اور اپنے شر سے اپنے ہر پڑوسی کو محفوط
بنانا ہوگا۔ |