کہاوت ہے کہ ایک کسان رات کو
گندم کی بوری اٹھا کر چھت پر جارہا تھا۔ اندھیرے کی وجہ سے اسکے دوست نے
ماچس جلائی ہوئی تھی جو اچانک بجھ گئی۔کچھ لمحوں بعد ماچس بجھ گئی۔ کسان
دھاڑا تم نے مجھ سے میرا اندھیر بھی چھین لیا ہے۔ ماچس بجھی تو کسان جسکی
انکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہوگئی تھیں مگر اب وہ پہلے کی طرح
اندھیروں میں دیکھنے سے قاصر ہوگئیں۔ ہمارے ہاں عوام اور پی پی پی کے ساتھ
یہی معاملہ ہے۔ گیارہ مئی کے الیکشن میں عبرت ناک کے بعد بھٹو خاندان کے
دوستوں اور پی پی پی کے خیر خواہوں نے بھٹو فیملی کو یکجا کرنے کی کو ششیں
کیں مگر یہ کاوشیں ثمراور ثابت نہ ہوسکیں۔ گارجین میں چھپنے والی رپورٹ کے
مطابق بھٹو قبیلے کے بڑوں نے بھٹو خاندان کے ہر چھوٹے بڑے کو یکجا کرنے کی
کوشش کی مگر وہ نام ہوگئے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ فیملی
اتحاد کو ناممکن بنانے کے پس پردہ پر اسرار لوگ اور خفیہ ہاتھ ہیں۔ صنم
بھٹو واحد خاتون ہیں جو زیڈ اے بھٹو فیملی کی واحد زندہ خاتون ہیں۔ زیڈ اے
بھٹو عدالتی مرڈر کا نشانہ بنے۔میرمرتضی بھٹو کو بہن کی سکھا شاہی کے دوران
پولیس مقابلے میں بھون دیا گیا۔شاہنواز زہر خوانی کا شکار بنے جبکہ دختر
مشرق کو بھرے چوک میں خود کش حملے میں مار دیا گیا۔قائد عوام کی اگلی نسل
میں فاطمہ بھٹو جونیر زوالفقار اور شاہنواز بھٹو کی بیٹی سسی شامل ہیں۔ان
تینوں کی پرورش مرتضی بھٹو کی بیوی غنوی بھٹو نے کی مگر اب سسی بھٹو امریکہ
میں اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پزیر ہے۔آصفہ بختاور اور بلاول بھٹو ppp کے
بانی چیرمین زیڈاے بھٹو کی چہیتی بیٹی پنکی ک یعنی دختر مشرق کے بطن سے
پیدا ہوئے۔زیڈ اے بھٹو کی دوسری بیٹی صنم بھٹو ہیں جو اپنے بچوں سمیت لندن
میں مقیم ہیں۔ صنم بھٹو واحد متاثرہ خاتون ہیں کیونکہ اسے بھٹو فیملی کی
جاگیرجائیداد و وراثت میں سے پھوٹی کوڑی نہیں ملی۔قائدعوام کی خاندانی
جاگیر بھٹو کے بعد مرتضی بھٹو کے پاس تھی وہ اجکل غنوی بھٹو کے زیر تسلط ہے۔
بنظیر بھٹو کے پاس جو جائیداد تھی وہ اب صدر مملکت زرداری اور انکی بہن
فریال تالپورکے پاس ہے۔زرداری صاحب کا موقف ہے کہ بی بی نے انکی بہن فریال
تالپور کو بچوں کا گارڈین مقرر کیا تھا۔ تھا۔فریال تالپور لاڑکانہ کے اس
گھر کی مالکن بنی ہوئی ہے جہاں بنظیر بھٹو رہائش رکھتی تھی۔یہ گھر دختر
مشرق کو انکی سوتیلی اور بڑی ماں امیر بیگم نے دیا تھا۔ امیر بیگم کی ساری
زمینی جاگیر بنظیر بھٹو کو مل گئی۔ وہ امیر بیگم کی بیٹی بنی ہوئی تھی۔
کراچی میں 70اور 71 کلفٹن غنوی بھٹو کے قبضے میں ہیں۔صنم بھٹو نے کراچی
ہائیکورٹ میں جائداد کی وراثتی تقسیم کا ایک دعوی دائر کررکھا ہے مگر تاحال
وہاں اسکی شنوائی نہیں ہوئی۔صنم بھٹو اپنے حق کے لئے در در کی ٹھوکریں
کھارہی ہے کیا یہ صنم بھٹو کی تذلیل نہیں؟ اگر جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ
حل ہوجاتا تو شائد فیملی رنجشوں کو ختم کرنا ممکن بن جاتا۔ کتنی بڑی ستم
ظریفی ہے کہ ایک طرف بھٹوز کی جائیداد سے گارڈین ہونے کے ناطے لطف اندوز
ہورہی ہے تو دوسری طرف غنوی بھٹو نے وسیع و عریض جائیداد اور جاگیر پر قبضہ
کررکھا ہے مگر صنم بھٹو کا حق مارا جارہا ہے۔صنم بھٹو بے بس ہوچکی
ہیں۔زرداریوں کے ساتھ بھٹو کا نام جوڑ کر تو بھٹوز کے مال وزر پر اللے
تھللے اور عیش و عشرت کی زندگیاں گزاری جارہی ہیں مگر یہ منطق سمجھ نہیں
اتی کہ قائدعوام کی حقیقی تصویر صنم بھٹو کے ساتھ کون کم بخت چیرہ دستیاں
کررہا ہے ؟بنظیر بھٹو کی انکھوں میں 2007 میں لاہور میں میڈیا بریفنگ کے
دوران اس وقت انسووں کے موتی جھڑنے لگے جب صحافیوں نے میر و شاہنواز کا زکر
چھیڑا۔بنظیر بھٹو ابدیدہ ہوگئیںمحترمہ نے کرب بھرے لہجے میں کہا کہ میں تو
شاہنواز بھٹو کی بیٹی سسی کو بھی جائیداد میں سے حصہ دینا چاہتی ہوں بھلے
مجھے سسی سے ملنے نہیں دیا جاتا وہ امریکہ میں مقیم ہے مگر وہ > سسی <میرے
بھائی شاہنواز بھٹوکی بیٹی تو ہے۔بی بی نے فاطمہ بھٹو اور جونیر بھٹو کے
ساتھ جذباتی لگاو کا اظہار کیا کہ وہ میرے پیارے بھائی میر مرتضی بھٹو کی
اولاد ہیں۔میر اور شاہنواز دونوں باہمت جوان تھے۔دونوں نے اپنے والد کو
بچانے کی خاطر کوششیں کیں ۔ سیاست اور دونوں بھائیوں کے ازہان میں نفرت
بھرنے والوں نے ہمارا خاندان ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔میر اور شاہنواز پر دہشت گردی
اور الذولفقار کی تخریبی کاروائیوں کے جو الزامات لگائے گئے وہ بھٹوز کو
کارزار سیاست سے ہمیشہ کے لئے نکالنے کی خاطر ہر وقت کمربستہ رہنے والے
رزیلوں اورppp دشمنان کا کیا دھرا ہے۔ جہاز کا اغوا بھی پراسرار معاملہ ہے۔
محترمہ شہید بنظیر بھٹو نے بتایا کہ میر مرتضی بھٹو اور میرے درمیان صلح
ہوچکی تھی وہ میری دعوت پر اسلام اباد انے والے تھے کہ ظالموں نے اسے مار
ڈالا۔میری>بنظیر بھٹو< تجویز پر ہی صنم بھٹو نے عدالت میں دعوی دائر کررکھا
ہے تاکہ ہر کسی کو اسکا حق مل سکے۔بی بی نے کہا کہ چند خاندانی رشتہ داروں
نے فاطمہ بھٹو اور جونیر بھٹو کو خودساختہ رام کہانیوں سے میرے خلاف کردیا
گیا ہے۔ سسی کی والدہ نے امریکہ میں ہم سے ملنے پر پابندی عائد کررکھی ہے۔
اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ محترمہ شہید باہمت خاتون تھیں جو اپنے
خاندان کو اکٹھا کرنے کا درد تو رکھتی تھی مگر خفیہ ہاتھوں نے بی بی کی ایک
نہ چلنے دی۔ کیا یہ ایک ہولناک سانحہ نہیں کہ میر مرتضی بھٹو کو ایسے وقت
پر مارا گیا جب وہ وزیراعظم اور سندھ میں پی پی پی کی حکمرانی کا افتاب نصف
النہار پر دمک رہا تھا۔محترمہ کی شہادت اور نصرت بھٹو کی موت اور تدفین کے
موقع پر بھٹوز کے یک جان و ہم سفر بننے کے امکانات تھے جن پر خفیہ ہاتھوں
نے پانی پھیر دیا۔ محترمہ کی ایک خواہش انکی زندگی میں پوری نہ ہوسکی وہ
میر مرتضی شاہنواز بھٹو اور صنم بھٹو کے بیٹے بیٹیوں اور اپنے بچوں کے ساتھ
ایک میز پر کھانا کھانا چاہتی تھیں مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ میر مرتضی بھٹو کے
قاتلوں کا اج تک کسی کو علم نہیں اس پر طرہ یہ کہ انہی خفیہ ہاتھوں نے
بنظیر بھٹو کو عالم بالہ روانہ کردیا۔ppp اور زرداری کی اس سے بڑی نااہلی
اور کیا ہوسکتی ہے کہ کہ پانچ سالہ دور اقتدار میں بی بی کیس کا فیصلہ نہ
ہوسکا۔میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں میں شائع ہونے والی خبریں درست
نہیں۔ایک طرف تو شکست کا اعتراف کرکے پارٹی کو ازسرنو منظم کرنے کی تدبیریں
سوچی جارہی ہیں جبکہ دوسری طرف سیاسی مفاہمت کے نام پر اپنے گھر کو اقتدار
سے نوازنے کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ کیا یہ زیادتی نہیں کہ صدر مملکت
نے ایک طرف اپنی بہن فریال تالپور کو پارٹی امور کی باگ ڈور تھمادی تو
دوسری طرف دوسری ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا پلیجو کو پارلیمان میں پبلک اکاوئنٹس
کمیٹی کی چیرمینی کے لئے نامزد کردیا؟ کیا یہ موروثی سیاست کی روز روشن
سچائی نہیں؟ پی پی پی سندھ میں اقتدار کا ہما پہن چکی ہے۔پی پی پی کو وہاں
گذ گورنس میرٹ اور قانون کی ائین کی عملداری قائم کرنا ہوگی ورنہ جلد ہی
سندھ سے رخصتی ہوسکتی ہے ۔ پارٹی کے وسیع تر مفاد میںزرداری صاحب خود خول
سے باہر ائیں۔پارٹی جمہوری روایات سے تہی داماں ہوچکی ہے۔ افکار بھٹو گم
ہوگئے۔پارٹی جمہوری روایات سے ہٹ رہی ہے۔ جیالے غائب جبکہ دھن دولت زر اور
جاگیرداریت کے پجاری پارٹی پر مسلط ہوگئے۔ پارٹی حقیقی لیڈرشپ سے محروم
ہے۔پاکستان کے سیاسی منظرنامے کی رو سے ppp کے مستقبل کا زائچہ بنایا جائے
تو بھٹوز کا اتحاد قائد عوام بھٹو اور بی بی شہید کے افکار کو پروان چڑھانے
کے لئے لازم و ملزوم بن چکاہے۔صدر مملکت زرداری ایک طرف مندرجہ بالہ کہاوت
کی روشنی میںصنم بھٹو کی وراثتی جائیداد فوری طور پر اسکے سپرد کرنے کے
انتظامات کریں تو دوسری طرف صنم بھٹو کو کم از کم پانچ سال کی خاطر پارٹی
چیرپرسن بنائیں۔اقرباپروری غیر جمہوری اقدارلوٹ مار کرپشن نے جیالوں اور
بھٹوز کے خون سے جلائی جانیوالی ماچسوں کو گل کردیا جس سے pppکے
امیدوارحالیہ الیکشن میں انتخابی شکست کے اندھیروں میں اتر گئے۔ بھٹو فیملی
کے اتحاد سے شکست و ریخت کے اندھیروں اور مایوسی و نراسیت کی تاریکیوں میں
غرق ہونے والے پارٹی ورکرز پارٹی اورقائدین فتح کی کرنوں کے ساتھ طلوع
ہوسکتے ہیں۔ صنم بھٹو کی سرکردگی میںبلاول بھٹو اور فاطمہ بھٹو ایک مٹھی
بنکر ppp کے تاریک مستقبل کو جمہوریت اورفتح کی روشنی سے ہمکنار کرسکتے
ہیں۔ |