امن وامان قائم کرنے کا قرآنی فارمولا

امن امان پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ،جو گزشتہ کئی سالو ںسے سلجھنے کی بجائے الجھتا جارہاہے ۔دیکھاجائے تو ارباب حل وعقد اور ملک کی زمامِ اقتدار سنبھالے ہوئے حکمرانوں کی طرف سے ابھی تک اس مسئلہ کے حل کے لیے کوئی قابل رشک اورلائق تعریف کام نہیں کیا گیا،بلکہ ابھی تک اس مسئلہ کوحکومتی ترجیحات میںبھی شامل نہیں کیاگیا۔ پرویز دورِ آمریت میں بدامنی کی چنگاری سلگنا شروع ہوئی ،پی پی ”دور جمہوریت“ میںاس چنگاری پر پانی چھڑکنے کی بجائے مٹی کا تیل چھڑکا گیا۔نتیجتاًملک کے چاروں اطراف میں اس چنگاری کے شرارے پھیلے جو آج خطرناک آلاﺅ بن کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ۔پاکستان کے چاروں صوبوں کے باشندوں کو بدامنی ،قتل وغارت گری،ڈکیتی ،عزت نفس کی ڈاکہ زنی جیسے بیسیوں مسائل کا سامناہے ۔بالخصوص کراچی ،کوئٹہ ،پشاور اور قبائلی علاقوں کے لوگوں کے لیے تو آئے روز لاشیں اٹھانامعمول بن گیاہے ۔کہیں ڈرون حملوں کے چنگیزی لشکر نہتے معصوم بے گناہوںپر آگ کے گولے برساتے ہیں تو کہیںننھے منے بچوں کے لیے تلاش ِرزق میں پھرنے والے مزدوروں کو گولیوں سے بھون دیاجاتاہے ،کہیں قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں لگانے والے مہمانان رسول کے مبارک اجسام کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہیں،توکہیں قوم کے معماروں کو آلات صنعت وحرفت سمیت زندہ دفن کردیاجاتاہے ،کہیںدن دیہاڑے نسل ِانسانیت کی راہنمائی کرنے والے درویش صفت بے گناہ علماءکرام کی زندگیوں کے چراغ گل کردیے جاتے ہیں توکہیںروشنیوں کے دیپ جلانے والے معاشرے کی معزز ہستیوں کو سر عام خون میں نہلادیاجاتاہے ۔

آخرکیا وجہ ہے کہ اس قدر مظالم کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود حکمرانوں کے سروں پر جوں رینگتی ،نہ مظالم کی چکی میں پسنے والے مظلوم عوام اپنے ناحق خون کا حساب لینے کے لیے سراٹھاتے ہیں؟ قرآن کی زبانی اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ”جو قوم اپنی حالت خود نہیں بدلتی اللہ بھی اس کی حالت نہیں بدلتا“۔اگر حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اب تک صحیح معنوں میں عوام کی طرف سے ان پر ہونے والی زیادتیوں کے سد باب اور ازالے کے لیے کوئی خاص مزاحمت نہیں کی گئی ۔بدامنی کے تمام مسائل کے رد عمل میں زیادہ سے زیادہ بات چند گھنٹوں کے روایتی احتجاج ،توڑ پھوڑ،ہڑتالوں ،ڈیوٹیوں سے انکار،حکومت مخالف نعرے بازی اور اپنے ہی ہم وطن بھائیوںکے راستے اور کاروبار بندکراوانے تک جاتی ہے ۔دوسری طرف برسراقتدار حکمران اور انتظامیہ وقتی مذاکرات اور محض دلاسہ دینے کے لیے ”جھوٹے وعدوں“سے مظلوم عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر”مسئلہ“ کو داخل دفتر کردیتے ہیں جسے دیمک چاٹ چاٹ کر” سلجھا“دیتی ہے۔

امن وامان ،عدل وانصاف کسی بھی ملک کی بقاءکا ذریعہ ہوتاہے۔اس کے بغیرملک باقی رہتے ہیں ،نہ وہاں کے باشندے ،نشان عبرت کے لیے کھنڈرات ہی باقی بچتے ہیں۔تاریخ کے اوراق میں یہ بات محفوظ ہے کہ جب کبھی ظالم کے ساتھ رعایت برتی گئی،اسے مجرم کی بجائے شاہی مہمان بنایاگیاتو اس کے سنگین نتائج پورے ملک اورعوام کو بھگتنا پڑے ۔ ہمارے ملک میں امن وامان کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ظالموں،مجرموں اور غنڈوں کوتحفظ دینا اور ان کی شاہانہ مہمان نوازی کرنا ہے ۔ دنیا کے کسی ملک میں مجرموں کو پوچھ کرگرفتار نہیں کیا جاتا،کسی ملک میں قتل کے مجرموں کو سالوں سال عوام کی کمائی سے روٹی نہیں کھلائی جاتی ،کہیں بھی سینکڑوں پھانسی کے مجرموں کو سالوں سالوں قوم کے خزانے پر ڈکارمارنے کے لیے نہیں بٹھایاجاتا۔مگریہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں یہ سب کچھ روا رکھا جاتاہے ۔یہاں مجرم کو مجرم نہیں سمجھاجاتا،قاتل کو قاتل نہیں کہاجاتا،اس کے ساتھ مجرموں والا برتاﺅ نہیںکیا جاتا بلکہ ”معزز مہمان “سے زیادہ اس کی آﺅبھگت کی جاتی ہے ۔ دس دس گھنٹے سورج کی دہکتی آگ میں کام کرنے والے مزدوروںکے خون پسینہ سے سالوں سالوں قوم کے ”مجرم “کا پیٹ پالا جاتاہے ۔یہاں 2008ءسے پھانسی کی سزا پانے والے تین سو سے زائد مجرموں کوابھی تک پھانسی کے تختہ دار پرنہیں چڑھایا جاسکا؟۔یہاںملک کے باغیوں اور معصوم بچوں بچیوں کے قاتلوں سے جیل کی بجائے پرتعیش فارم ہاﺅسسزمیں تفتیش کی جاتی ہے ، ان کوہتھکڑیاںلگاکر سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کی بجائے مخملوں پر سلایا جاتاہے ۔کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام کے محسن کو پوری دنیا میں رسواکرنے والے” مجرم“کوجیل نہیں بھیجاجاسکتا،منصفین کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکتا۔

ہمارا یہ دوہرا معیاراور رویہ ملک میںامن وامان،عدل وانصاف کے بیخ کنی کرنے کررہاہے ،ورنہ ہمار امذہب تو مساوات کا درس دیتاہے ۔نبی آخرالزمان ﷺ نے چودہ صدیاں قبل قیامت تک آنے والی نسل انسانیت کو واضح پیغام دے دیاتھا کہ ”کسی عربی کوعجمی پر،کسی گورے کو کالے پر کوئی برتری نہیں“ ۔اللہ عزوجل نے تو تقوی ٰ کو معیار ِفوقیت قرار دیا،فرمایا”تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے ہاں وہ ہے جو تقوی میں سب سے آگے ہو“۔دین ِحمید کے ارکان بھی طبقاتی تفریق کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں،نماز کے دوران ”صف بندی“بھی اس خود ساختہ تفریق کو مٹانے کا مطالبہ کرتی ہے ۔مگر افسوس !اسلامی جمہوری مملکت کے مسلم حکمران خدائی تقسیم پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیںاور اس کی سر ِعام خلاف ورزی کرتے ہیں۔

بدامنی ختم کرنے اورامن وامان برقرار رکھنے کے لیے ہرملک میں مختلف طریقے رائج ہیں،کہیں انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط بنایاجاتاہے ،کہیں پولیس اور امن وامان برقرار رکھنے والے اداروں کو فری ہینڈ دیا جاتاہے ،کہیں عدالت کوآزاد کرکے امن وامان کو برقرار رکھا جاتا ،تو کہیںظالموں کو بروقت کیفر کردار پہنچاکر فساد کی جڑکوکاٹا جاتاہے ۔امن وامان برقرار رکھنے اور بدامنی ختم کرنے والے ان قوانین پر انحصار کیاجاسکتاہے ،نہ مکمل طور پر اطمینان سے بیٹھاجاسکتاہے ۔ مگرقانون الٰہی اور قرآنی فامولے کو اپنا کر نہ صرف اطمینان سے زندگی گزاری جاسکتی ہے بلکہ پورے ملک اور پورے معاشرے میں بے مثال امن قائم کیاجاسکتاہے ۔خالق کائنات نے اس قانون کو قرآن پاک میں یوں بیان فرمایا” تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے “۔اگر قاتل سے بروقت قصاص لے لیاجائے ،ظالم کے ظلم کا حساب فوراًچکادیاجائے ،مجرموں میں طبقاتی تفریق کے ناسورکو جڑسے اکھاڑ پھینک دیاجائے ،انسانی ہمدردی اور مظلموم عوام کی داد رسی کے لیے سچ کو فروغ دیا جائے ،انصاف قائم کرنے والے اداروں کو چند ٹکوں کے عوض جھوٹی گواہیاں دینے والے گواہوں سے پاک کردیاجائے ،عدالتوں کو تمام فیصلے بروقت نمٹانے کا آڈر کردیاجائے ،تھانہ کلچر ،کچہری کلچر کو ختم کردیاجائے، تو دنیاکی کوئی طاقت ملک پاکستان میں امن وامان کی فضاءکو مکدر کرنے کی جرات کرسکتی ہے ،نہ کوئی ایجنسی یاخفیہ طاقت ارض پاک کی مٹی کو ناحق خون سے رنگین کرسکتی ہے ۔

ہمارے ہاں قوانین ہیں مگر ان کا اطلاق درست نہیں ہوتا،ظالموں کو پکڑنے والے ادارے ہیں مگر ان کی کاکردگی تسلی بخش نہیں ہوتی ،عدالتیں ہیں مگر ان میں عدل وانصاف فراہم کرنے والے تمام طریقوں کو درست سمت اپنایانہیں جاتا،حکمران ہیں مگر وہ جراتمندی اور قوت فیصلہ کی شمشیر کے قبضہ کو نہیں پکڑتے ،دین اسلام ہے مگر اس کے بتائے ہوئے قوانین پر عمل نہیں کیاجاتا۔ اگر آج ہم دین اسلام کے ان عالمگیر قوانین کی پاسداری کرنا شروع کردیںاور بے نظیر قرآنی فامولے کواپنانا شروع کردیں تو وہ دن دور نہیں جب ملک پاکستان ”ریاست مدینہ “ کاحقیقی تصور پیش کرکے پوری دنیا کے لیے رول ماڈل بن جائے گااورہمارے اسلاف کادیکھا ہواسہانا خواب پورا ہوجائے گا۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 34162 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.