زندگی نہ ملے دوبارہ

السلام علیکم’ میرے اکثر دوست مجھ سے شکایت کرتے ہیں کہ تم بار بار یورپ میں مقیم پاکستانیوں یا پھر یورپ جانے والوں کے بارے میں کیوں لکھتے ہو یورپ جانے والوں سے مراد غیر قانونی طور پر ایران اور ترکی کے راستے یورپ جانا’ آج ایک بار پھر کچھ خاص کرنے کی جسارت کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ میری رائے سے متفق ہوں گے میں جتنا بھی لکھ رہا ہوں صرف اس لئے کہ شاید کسی کی اصلاح ہو جائے اور میرے خیال میں میرا کالم پڑھ کر اگر کسی ایک دوست کا خیال بدل جائے تو میرے لئے کافی ہوگا۔

پاکستان میں متوسط زندگی گزارنا اتنا مشکل نہیں ہے آپ محنت کریں تو پروردگار اس میں برکت دیتا ہے اور آپ زندگی کی گاڑی کو چلاسکتے ہیں اس پر سکون زندگی میں میں ہلچل تب آتی ہے جب کوئی یورپ یا امریکہ سے آیا ہوا اپنے ڈالروں اور یورو کے نظارے پاکستان میں رہنے والوں کو دکھاتا ہے میں اکثر دیکھا ہے کہ جو لوگ یورپ سے جاتے ہیں اعلٰی قسم کے کپڑے جن کو مائع یا کلف لگی ہوتی ہے اور اوپر کے بٹن کھول دیتے ہیں تاکہ اندر سے سونے کی چین نظر آسکے اور پھر اگر کبھی وہ کسی دوست کے ساتھ کسی ہوٹل یاریسٹورنٹ پر جائیں’ پہلے تو انتخاب سب سے مہنگے ریسٹورنٹ کا کریں گے پھر بل دیتے وقت ہوسکتا ہے کہ ویٹر کو 100روپے ٹپ کے طور پر دیدیں’ کسی چیز کی خریداری پر کوئی بحث نہیں کرتے یعنی روپوں کو دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔

پاکستان میں رہنے والا جب اس کی ان سب حرکتوں کو دیکھتا ہے تو وہ ہکابکا رہ جاتا ہے وہ یہ سوچتا کہ کل تک یہ شیدا تھا آج ہر طرف چوہدری رشید کی صدا آرہی ہے اور پھر رہی سہی کسر وہ یورپین شہزادہ وہاں کے قصے سنا کر پوری کردیتا ہے کہ میں یہ کرتا ہوں حالانکہ اس بے چارے کو شاید کسی ہوٹل یا بار کے برتن صاف کرنے سے فرصت نہ ملتی ہو۔ 90 فیصد تارکین وطن اپنے کام کے بارے میں نہیں بتاتے بہرحال پاکستان میں رہنے والا یہ سوچتا ہے کہ یا تو میں بھی یورپ چلا جاؤں یا پھر اس زندگی سے موت اچھی ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کی موت کے بعد اس گھر کا کیا ہوگا جس کا خدا اور اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ان ماؤں کی کیا زندگی جو اپنی جان سے عزیز لخت کو دفن کرکے پاگل ہوجاتی ہیں ان کو دنیاکی کوئی شے اچھی نہیں لگتی جن کے اکمل شاہد’ عاصم یا افضل جیسے جوان بیٹے ان کو چھوڑ کر چلے جائیں ان ماؤں کو نہ دن کو سکون ہے اور نہ رات کو نیند’
غم تیرے مینوں سون نئیں دیندے تے آون کرکرھلے
لگے روگ محمد بخشاتے ککھ نہیں چھڈ دے پلے

وہ مائیں دن رات اپنے لخت کی یاد میں روتی ہیں میں یا آپ ان کے دکھ نہیں سمجھ سکتے میری یہ کاوش میری ان ماؤں کے نام جن کے دکھوں کا مداوا میرے پاس نہیں ہے۔ میرا ایک دوست جو غیر قانونی طور پر یونان جانے کیلئے گھر سےنکلا اور کیا حالات پیش آئے’ آئیے تفصیل سے میرے ایک دوست نام (بختیار)کی زبانی سنتے ہیں-

یہ اپریل 2006ء کے دن تھے کہ ہمیں پتہ چلا کہ ایک ایجنٹ کامیابی سے انسانی سمگلنگ کر رہا ہے یعنی لوگوں کو ایران اور ترکی کے راستے غیر قانونی طور پر یونان پہنچا رہا ہے آخری دفعہ اس نے کچھ افراد کو صرف دس دن میں منزلوں تک پہنچانا ہے’ دل میں امنگ اٹھی کیوں نہ ہم بھی یورپ کی حسین وادیوں میں جائیں اور یہ بھی سنا تھا کہ اگر آپ یونان پہنچ جا ؤ تو وہاں سے باقی یورپ میں نکلنا بہت آسان ہے اس لیے ہم نے بھی تیاری کرلی ہم تین آدمی’ میں عمران اور میرا دوست افضل اور اکمل تھے ہم تیار ہوگئے۔

ایجنٹ کو تیس ہزار پہلے دیئے اور باقی پانچ لاکھ یونان پہنچ کر جب ہم تیار ہو گئے تو افضل کو الوداع کہنے کیلئے اس کا ایک دوست شاہد بھی آیا’ یہاں ہم لوگوں کا جوش و خرش دیکھ کر اس نے بھی یورپ جانے کا خیال ظاہر کیا ہم نے ایجنٹ کو بتایا تو اس نے کہا کیوں نہیں ضرور آپ شاہد کو کہیں کہ وہ تیس ہزار روپے گھر سے منگوا لے’ شاہد نے گھر فون کیا اور بھائی سے کہا کہ تم تیس ہزار روپے گجرات لے آؤ”۔ یہاں پر ایک بات ضرور کہوں گا کہ کتنا بد نصیب تھا شاہد جو جاتے ہوئے اپنی ماں کو بھی نہ مل سکا اور وہ ماں جو اس کے ماتھے پر پیار دے کر اسے الوداع کرتی اس کی کامیابی کی دعا کرتی اسے نم آنکھوں سے الوداع کہتی لیکن یہ سب تقدیر کے فیصلے ہیں بہرحال میں اپنے دوست عاصم جس کی گوجرانوالہ میں کپڑے کی دوکان تھی اسے ملنے گیا وہ بھی تیار ہو گیا دوکان پر دوست کو بٹھایا اور گھر ملنے کے لئے گیا گھر میں ماں گھر پر نہ تھی اس نے بہن اور بیٹی سے ملاقات کی اور آگیا ہم سب لوگ کار میں بیٹھ کر گجرات کے لئے روانہ ہوئے شاہد روانہ ہونے سے پہلے اپنے بھائی سے ملا تو آنکھیں بھر آئیں۔
لے او یار حوالے رب دے تے مل لے جاندی واری
ایس ملن نوں سہکدا ریسائیں رورو عمراں ساری

گجرات سے کراچی براستہ ٹرین گئے، کراچی میں ایک دن قیام کیا پھر ہم مند بلو پہنچے، مند بلو سے ہم کو رات 9 بجے ٹرک میں بٹھا کر ایران بارڈر پر لے گئے چوکی سے دور لے جا کر ہم کو بارڈر کراس کرایا تقریباََ چار گھنٹے پیدل چلے راستہ بہت مشکل تھا ہمارے ساتھ ایک آدمی تھا جو ہم کو راستہ دکھا رہا تھا اس نے فون کیا تھوڑی دیر بعد گاڑی میں بیٹھ کر سفر شروع کیا تھوڑی دیر سفر کے بعد ہم کو ایک غیر آباد مکان میں چھوڑ دیا ہم یہاں بیٹھ کر آنے والی زندگی کے خواب اور خیال ایک دوسرے کو بتا رہے تھے شام کو وہ یعنی ہمارا گائیڈ پھر آیا’ ہم پانچ آدمی تھے اکمل، شاہد، افضل اور عاصم پچھلی سیٹ پر جبکہ میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا ہم نے سفر ایک بار پھر شروع کیا۔

تھوڑی دیر بعد چوکی آئی تو اس نے گاڑی روک کر چوکی پر ڈیوٹی والے اپنے دوست کو فون کیا گرین سگنل ملنے پر اس نے گاڑی کو اسٹارٹ کیا ہم چوکی پر پہنچے تو اس نے اپنے دوست کو پیسے دئیے، انہوں نے آپس میں بات چیت کی، ڈرائیور نے گاڑی کی چوکی سے نکلنے کے بعد اسپیڈ تیز کر دی شاید وہ کم سے کم وقت میں اپنی منزل تک پہنچنا چاہتا تھا، اچانک ایک موڑ پر سامنے سے آنے والی گاڑی ہماری گاڑی سے ٹکرائی حادثہ اتنا شدید تھا کہ ہماری گاڑی دوہری ہو گئی ہمارے ڈرائیور نے بچانے کی کوشش کی تو دوسری گاڑی سائیڈ سے ٹکراتی ہوئی میری کھڑکی کھل گئی اور میں دور جا گرا، دونوں گاڑیوں کے ڈرائیور، اکمل، شاہد اور افضل موقع پر ہی خالق حقیقی سے جا ملے، عاصم زخمی تھا ہم دونوں کو ایمبولنس میں ڈال کر ہسپتال پہنچا دیا گیا عاصم سے راستے میں میری بات ہوئی، اسکی شاید ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اس کو بہت درد ہو رہا تھا، ہسپتال میں مجھے ایکسرے کے لئے لے گئے جب میں واپس آیا اور میں نے عاصم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ فوت ہوگیا ہے میں بہت رویا میرے دوست مجھے پردیس میں اکیلا چھوڑ گئے۔
جد محبوب پیارے وچھڑن تے کون روئے فیر تھوڑا
سب روگاں و چوں روگ محمد جس دا نام وچھوڑا

میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں کافی تعداد میں پاکستانی وہاں پہنچ گئے’ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک آدمی نے مجھے حوصلہ دیا اور کہا کہ مسئلہ اب رونے سے حل نہیں ہوگا جو خدا کو منظور ہوتا ہے پولیس اب تم سے پوچھ گچھ کرے گی تو تم یہ کہنا کہ یہ میرے بھائی ہیں اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر یہی دفن کردیں گے۔ مجھے پولیس آفیسر کے سامنے پیش کیاگیا اس نے پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیا کر رہے تھے۔ میں نے اس کو بتایا کہ ہم پینٹ کا کام کرتے ہیں اور مرنے والے دو میرے بھائی ہیں جبکہ دوسرے کزن ہیں اس نے کہا کہ اب تم کیا چاہتے ہو یہاں دفناؤ گے یا پاکستان لے جائو گے میں نے کہا کہ پاکستان لے کر جاؤں گا’ دوسرے دن مجھے ڈیڈ باڈیز دیدی گئیں۔

میں نے ایک ٹرک کا بندوبست کیا اور پاکستان کی طرف روانہ ہوگیا’ بارڈر پر پہنچا تو ایرانی بارڈر سیکورٹی فورسز نے روک لیا اور 50 ہزار تمن ایرانی کرنسی کا مطالبہ کیا میں نے کہا کہ میرے ساتھ ڈیڈ باڈیز ہیں لیکن وہ نہیں مان رہے تھے میں نے کافی سمجھایا لیکن یہ بے ضمیر لوگ جوآپ کو ہر جگہ ملیں گے مرے ہوئے افراد سے بھی دولت کمانے کے چکر میں تھے تقریباً ایک گھنٹے بعد ایک آفیسر آیا اس نے سب بات سنی تو اس نے کہا کہ ڈیڈ باڈیز کو لے جاؤ بارڈر کراس کرنے کے بعد ہم تربت شہر پہنچے وہاں پر کافی تعداد نمائندگان اخبار اور پولیس نے مجھ سے تفصیل پوچھی’ تربت سے کراچی کیلئے بس کے اوپر ڈیڈ باڈیز رکھ کر ساتھ میں برف رکھا کیونکہ موسم گرم تھا جب کراچی پہنچا تو وہاں پر اکمل کے والد صاحب شاہد کا بھائی اور عاصم کا کزن پہلے سے میرا انتظار کررہے تھے میں نے ان کو تمام حالات سے آگاہ کیا۔

ایدھی والوں نے ڈیڈ باڈیز کو دوبارہ سیٹ کیا کراچی لاہور براستہ ہوائی جہاز اور پھر لاہور سے ایمبولنسوں کے ذریعے ڈیڈ باڈیز کو ان کے گھروں تک پہنچایا گیا اور یہ دن ان سب کے گھر والوں کے لیے قیامت سے کم نہ تھا ہر آنکھ اشکبار تھی اپنی بہنوں کے خوابوں کی تعمبیر کیلئے یورپ جانیوالے افضل ‘ اکمل اور شاہد ہم سب کو چھوڑ کر بہت دور جاچکے تھے’ شاید قدرت کو یہی منظور تھا۔
کالیے کوئل بول سویرے تے بول غماں دی بولی
نہ وس تیرے نہ وس میرے لکھیا پے گیا جولی

میں آج بھی جب وہ وقت یاد کرتا ہوں تو خوف آتا ہے میری اتنی عمر نہیں ہے جتنی میں نے مشکلیں دیکھی ہیں یہاں پر میرے دوست بختیار کی داستان مکمل ہوئی یہ ساری معلومات آپ تک پہنچانے میں بختیار آف گوجرانوالہ کا بے حد شکر گزار ہوں۔

میری آپ سب دوستوں سے جو ایسے غیر قانونی طریقے سے یونان آتے ہیں گزارش ہے کہ آپ سب ان راہوں کی مشکلات سے واقف ہیں تو پھر کیوں اپنی جان سے پیاروں کو اس آگ میں جھونکتے ہیں اولاد کا غم کیا ہوتا ہے یہ آپ اگر ہوسکے تو افضل کی ماں سے پوچھیں بیٹے کی موت نے اس کی کیا حالت کردی ہے ہمارے اردگرد کون سا گاؤں ہے جس کے رہنے والے ان حالات سے باخبر نہ ہوں ۔ میری استدعا خاص کر ماؤں سے کہ اپنی جان سے عزیز بچوں کو ان راہوں سے بچائیں کیونکہ ڈالر یا یوروان کا متبادل نہیں ہے کیونکہ
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے

اور پاکستان سے غیر قانونی طور پر لوگ یونان ہی آتے ہیں اور وہاں سے پھر یورپ میں نکلا جاتا ہے یونان کے تو خود حالت ایسے ہیں کہ وہ دیوالیہ ہو چکا ہے اور وہاں سے کسی اور یورپ کے ملک میں نکلنا اتنا آسان نہیں رہا پاکستان سے شاید یونان آنا آسان ہو گا لیکن یونان سے آگے یورپ نکلنا مشکل ہے اس لیے کوئی ایسا قدم اٹھانے سے پہلے ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ سوچو کیونکہ زندگی نہ ملے دوبارہ-

جو کچھ میں نے لکھا یہ ایک کہانی اور میری سوچ تھی کیونکہ جب میں کسی پاکستانی بھائی کو پردیس میں پریشان دیکھتا ہوں تو بہت تکلیف ہوتی ہے-
Mohammed Masood
About the Author: Mohammed Masood Read More Articles by Mohammed Masood: 61 Articles with 167453 views محمد مسعود اپنی دکھ سوکھ کی کہانی سنا رہا ہے

.. View More