انفردیت میں وہ سکون انسان کو
میسر نہیں جو اجتماعیت میں ہے، جولوگ اپنی زندگی کو کسی مقصد اور انسانیت
کے لیے وقف کر دیں دنیا انہیں ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد رکھتی ہے ۔امام
بخاریؒ نے احادیث کو جمع کیا، جابر بن حیان نے انسانوں کی آسانی کے لیے
کیمیا میں نئے تجربات کیے اور چیزیں ایجاد کیں،ہوگوشاویز نے جابر کے سامنے
کلمہ حق کہا، قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں ایک آزاد ملک کا تحفہ دیا یہی
وجہ ہے کہ آج بھی ہم ان عظیم شخصیات کو عزت و احترم سے یاد کرتے ہیں۔ حدیث
مبارکہؐکا مفہوم ہے کہ ایک جماعت میں رہو اگرادھر اُدھر بکھرے رہے تو
تمھاری مثال بکریوں کے اس ریوڑ جیسی ہے جب تک وہ اکٹھی رہتیں ہیں تو انہیں
کوئی درندہ نقصان نہیں پہنچاسکتا،جوں ہی ایک بکری اس ریوڑ سے علیحدہ ہو
جائے تو تاک میں بیٹھابھیڑ یا اسے چیڑ پھاڑ دیتاہے۔ کسی قوم میں اتحاد نہ
ہو تو دشمن ہمیشہ فائدہ اٹھاتا ہے،قوم یکجا ہو تو دشمن خاک چاٹنے پر مجبور
ہو جاتا ہے ۔واصف علی واصف ؒلکھتے ہیں اسلام وحدت ملت کا پیغام لایا اور ہم
اسلام کے نام پر تفریق کر رہے ہیں، اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ
مسلمانوں میں وحدت عملی کی کمی ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ جب تک تمام فرقے اور
تمام شارحین اسلام اکٹھے نہیں ہوتے وحدت کا تصور تک ممکن نہیں، وحدت ملت کی
طرف سفر کیا جائے،ورنہ اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا تو خدانخواستہ ہر مسجد ،مسجد
قرطبہ بن کر رہ جائے گی۔ماضی یادگار،عظیم یادگار مسجد قرطبہ حال اور مستقبل
سے محروم ،ہم مسلمان ہیں۔یہی ہمارا فرقہ ہے۔یہی ہماری طریقت ہے اور یہی
ہماری جمعیت۔کلمہ طیب ہی کلمہ توحید ہے اسی بنیاد پر وحدت ملت کی عمارت
استوار کی جاسکتی ہے۔مسلمان متحد ہو جائیں تو کامیابی ان کا مقدر ہو
جائے،ورنہ اسلام میں فرقہ سازی اور فرقہ کا عمل ہمیں اسلام سے اتنا دور لے
جائے گا کہ ہم مسلمان کہلانے کے قابل ہی نہ رہیں گے۔ایک اہم واقعہ کو
قارئین سے شیئر کرنے کے لیے بے تاب تھا،جوکہ گذشتہ روز ہربنس پورہ لاہور
میں پیش آیا ،جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما شعبہ تعلقات عامہ پنجاب کے مرکزی
مسؤل خالد بشیر کو اغواء کے بعد بے دردی سے قتل کیاگیا ہمارے ہاں اب ایسے
واقعات معمول بن گئے ہیں،لیکن یہ حساس نوعیت کا واقعہ تھاجسے نظر انداز
کیاگیا۔
جماعۃ الدعوۃ پاکستان کی بڑی مذہبی وفلاحی جماعت ہے اس کے امیر حافظ محمد
سعیدکی محب وطنی پر کوئی پاکستانی شک نہیں کر سکتا، انہوں نے ہر مشکل گھڑی
میں وطن سے محبت کا حق ادا کیا۔ 2005 کے زلزے میں اس جماعت کے کارکنان ایک
نئی سوچ اور انداز کے ساتھ نظر آئے زلزلہ زدگان کے امداد میں اس جماعت نے
کوئی کسرنہ چھوڑی، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اس جماعت کہ اس قابل تحسین
اقدام کو بے حد سراہا گیا،لیکن ان کا یہ انداز اسلام مخالف قوتوں کوبالکل
نہ بہایا،یہ جماعت قیام سے لے کرطویل عرصے تک دعوت و اصلاح پر کام کرتی رہی
لیکن بعدازاں اس میں خدمت خلق کا ایک علیحدہ شعبہ قائم ہوا جس کو فلاح
انسانیت کا نام دیا گیا،اس کے کارکن تربیت یافتہ ہیں، ہر مشکل گھڑی میں
خدمت انسانی کے لیے ہمہ وقت موجود اور آگے آگے رہتے ہیں۔ حتی کہ امریکہ میں
کچھ عرصہ قبل آنے والے تباہ کن سیلاب میں اس جماعت نے امیریکی حکومت کو مدد
کی پیش کش کی لیکن تعصب کی بناء پر اس کو موقع نہیں دیا گیا۔میراموضوع خالد
بشیر تھے جو کہ قلیل مدت تک راولپنڈ ی کے امیر بھی رہے ،انتہائی ملنسار اور
رحم دل انسان تھے، ان کا قتل ذاتی دشمنی کی بناء پر ہونا اس بات کودل تسلیم
کرنے کو تیار نہیں، مبینہ طور پر ان کی شہادت کی وجہ جماعۃ الدعوۃ کے ساتھ
وابستگی ہے۔جماعۃ الدعوۃ کے جس فعل نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ
ان کے کارکنان کانظم و ضبط ہے ،مرکزی رہنماکے قتل کے بعد نہ کوئی ٹائر جلا
نہ روڈ بلاک ہوئی اور نہ ہی ملکی املاک کو نقصان پہنچایا گیا،اس سے جماعت
کے کارکنان کے تربیت بڑی واضح ہو جاتی ہے، حافظ محمد سعید نے کارکنان کے
نام جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ کارکنان صبر وحوصلے سے کام لیں واردات
میں اسلام دشمن عناصر ملوث ہیں انشاء اﷲ قاتل جلد بے نقاب ہوں گے، اس ایک
بیان نے کارکنان کو روکے رکھا۔
میرے اس کالم پر کچھ دوست جانبداری کا الزام لگائیں گے لیکن ان کی پروا کیے
بغیر جو سچ تھا وہ میں نے صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیا۔ کچھ عرصہ قبل اسی
جماعت کے متعلق ایک خبر ملی تھی کہ راولپنڈی کی ایک مسجد میں قبضہ کیا گیا
جس میں مبینہ طور پر ان کے ملوث ہونے کی اطلاع ملی، اس خبرکی ایک مکمل
رپورٹ تیار کرنے کے بعد ایک روزنامہ میں چھاپی ،حافظ محمد سعید کی جانب سے
بیان جاری ہوا کہ جماعت الدعوۃ کی مساجد میں قبضہ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں
ہے یہ شرپسندعناصر کا کام ہے،لیکن خبر چھپنے کے بعدجماعت کے ایک تحصیلی
مسؤل نے مجھے بُرا بھلا کہا موصوف غصے میں کچھ زیادہ کہہ گئے ایک صحافی
ہونے کے ناطے میں خاموش رہاان کے غصے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ جماعت کے
پرانے اور مخلص کارکن ہیں ، لیکن ان کے اس فعل کی اطلاع جب جماعت کے میڈیا
سیل تک پہنچی تو ان کی طرف سے معذرت کا فون آیااور مسؤل کے سرزنش کی اطلاع
بھی موصول ہوئی، ۔اس جماعت کے نظم و ضبط سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔ میری
اطلاعات کے مطابق خالد بشیر کے قتل کے حوالے سے تحقیقاتی اداروں کو ایسے
شواہد ملے ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ خالد بشیر کے قتل میں ہمارے ازلی دشمن
پڑوسی ملک سے اس کی کڑی جاملتی ہے ،اگر ایسا ہے تو ہمارے متعلقہ ادروں کے
لیے یہ کیس چیلنج سے کم نہیں۔میری صحافی برداری کی اس ایشو پر خاموشی قابل
افسوس ہے بقول شاعر
بے سبب چپ ہیں سارے اہل قلم
مل گئے ہیں سبھی کو منصب کیا؟
نوٹ ـ آپ مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔www.facebook.com/umer.rehman99 |