قائد ہم شرمندہ ہیں

کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں جانی مالی نقصان ہوا ہے اس میں سب سے زیادہ جس چیز نے دل دکھایا ہے وہ ہے قائد اعظم کی رہائش گاہ زیارت ریزیڈنسی کو دہشت گردی کا نشانہ بنانااس واقعے نے بہت سے سولات کو جنم دیا ہے یہ صرف دہشت گردی نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اس میں قصور ہمارا اپنا بھی ہے کہ ہم اپنے محبوب قائد کی ریزیڈنسی کا دفاع نہ کر سکے اور کیونکر اتنے اہم قومی ورثے کو لاوارث چھوڑ اجب سے یہ واقعہ ہوا ہے باقی تمام موضوعات تو جیسے اختیاری سے ہو گئے ہیں سو اس لئے اس موضوع پر قلم اٹھانا مجھے لازمی سا لگا۔ زیارت کا تعارف تو آپ سے چھپا ہوا نہیں ہے زیارت ایک پْرفضا سیاحتی مقام ہے اور پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح اپنی وفات سے قبل یہاں زیارت ریزیڈنسی میں مقیم تھے یہ خوبصورت رہائش گاہ سنہ 1892ء کے اوائل میں لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی اْس دور میں برطانوی حکومت کے افسران وادیِ زیارت کے دورے کے دوران اسے اپنی رہائش کے لیے استعمال کیا کرتے تھے قیام پاکستان کے بعد سنہ 1948ء میں بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ناساز طبیعت کے باعث یہاں آئے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ اس رہائش گاہ میں قیام کیاان کے انتقال کے بعد اس رہائش گاہ کو ’قائد اعظم ریزیڈنسی‘ کے نام سے قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیاتھا۔ واضح رہے کہ اس علاقے میں جرائم کی تعداد کم ہونے کے باعث یہاں سکیورٹی عملہ بھی معمول سے کم ہوتا ہے زیارت بنیادی طور پر پشتونوں کا علاقہ ہے جہاں پر زیادہ تر پشتون قبیلہ کاکڑ آباد ہے یہاں پر اکثر لوگ زراعت اور سیاحت کے پیشے سے وابستہ ہیں زیارت کا شمار بلوچستان کے سرسبز ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں صنوبر کے جنگلات ہیں دوسرے پھلوں کے ساتھ زیارت کی چیری بھی پورے ملک میں مشہور ہے زیارت میں جمعیت العلما اسلام (ف) کا زیادہ اثر رسوخ ہے اور اکثر نمائندے اْن ہی کے منتخب ہو کر پارلیمان میں آتے ہیں زیارت بلوچستان کا پرفضا سیاحتی مقام ہے زیارت کی وادی بلوچستان کے سیاحتی مقامات میں سے ایک صحت بخش اور پْرفضا مقام ہے ہر سال گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی ملک بھر سے سیاحوں کی بہت بڑی تعداد یہاں کا رْخ کرتی ہے پاکستان محمد علی جناح کی رہائش گاہ ’زیارت ریزیڈنسی‘ صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے شمال مشرق میں ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر صحت افزا مقام زیارت میں واقع ہے۔

بانی محمد علی جناح کی رہائش گاہ زیارت ریزیڈنسی کے اطراف زوردار دھماکے ہوئے ہیں جن سے لکڑی سے بنی اس عمارت کی دیواروں کے سِوا تمام سامان جل کر تباہ ہوگیا زیارت ٹاؤن میں مسلح حملہ آور قائداعظم ریزیڈنسی میں داخل ہوئے اور یہاں بم دھماکے کیے بم پھٹنے سے زیارت ریزیڈنسی میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں نہ صرف عمارت تباہ ہوگئی بلکہ بانی پاکستان کے زیرِ استعمال جن اشیا کو قومی ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا تھاوہ بھی جل کر خاکستر ہو گئیں آتش زدگی سے عمارت کا اکثر حصہ جل کر راکھ ہو گیا کیونکہ امدادی اداروں کے امدادی کارکن کئی گھنٹوں کے بعد جائے وقعہ پر پہنچے زیارت ریزیڈنسی کے قریب گورنر ہاؤس اور وزیرِاعلیٰ ہاؤس واقع ہیں جبکہ اس کے گردونواح میں سرکار کی دفتری اور رہائشی عمارتیں ہیں ریزیڈنسی کی مرکزی عمارت کے قریب واقع لائبریری اور عجائب گھر محفوظ رہے جس میں قائداعظم کے ذاتی استعمال کی اشیا رکھی گئی تھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ اس واقعے کی تفتیش کا حکم دے دیا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ تین سے چار ماہ کے عرصے کے دوران اس کی دوبارہ مکمل بحالی کا کام مکمل کیا جائے گا صدر پاکستان، وزیرِاعظم پاکستان اور وزیرِاعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک اور دوسرے قومی اور سیاسی رہنماؤں نے اس حملے کے مذمت کی ہے۔

آج ہم سے قائد کی روح یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ہم نے ان کے دیے ہوئے ملک کی حفاظت کیا کرنی ہے جب ہم ان کی زیارت ریزیڈنسی کی حفاظت نہ کر سکے دعوئے اپنی جگہ لیکن عملی کام بھی تو نظر آنے چاہیں جب علامہ اقبال کی رہائش گاہ پر پچھلے کچھ عرصے میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی اس کے بعد ہمارے متعلقہ ادارے کہاں تھے؟ انھوں نے ان تمام قومی ورثے کی جگہوں کی مناسب سیکیورٹی کیوں نہ مہیا کی؟ اور ان کے لئے کوئی خاص اقدامات کیوں نہ اٹھائے؟ آج جب یہ واقعات ہو چکے تو ہم نے لکیر کو پیٹنا شروع کر دیا ہے ہر ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہے کوئی بھی اس واقعے کی ذمہ داری اپنے سر لینے کو تیار ہی نہیں ہے -

پاکستان میں ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہو تا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اب اس کے بارے میں کوئی پالیسی بنائی جائے گی کیا یہ پالیسی پہلے بنائی جانی زیادہ مناسب نہیں تھی؟ تاکہ اتنے بڑے قومی ورثے کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا لیکن شائد ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو نقصان کروانے کے بعد سوچتے ہیں کہ اس پر کوئی اقدامات اٹھانے چاہیے مگر کیا ہی اچھا ہو جب ہم ایسے واقعات کو رونماء ہونے سے پہلے ہی روک سکیں اس واقعے کے بعد قائد اعظم کی روح ہم سے پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ہم نے ان کی ریزیڈنسی جو کہ قومی ورثہ ہے کی حفاظت کیوں نہ کی کیا پتا وقت آنے پر ان کے ملک کی حفاظت بھی کر سکیں گے یا نہیں یہ سوال پاکستان کی غیور عوام ، حکمران طبقے ،اور اس ملک کی حفاظت کا ذمہ لینے والی ان سیکیورٹی فورسس سے بھی ہو سکتا ہے جنھوں نے اس ملک کی حفاظت کی قسم کھائی ہوئی ہے-
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 250753 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More