بلوچستان حکومت ہو یاہماری کرکٹ ٹیم

بے شک قائد اعظم محمد علی جناح نے قائد اعظم ریذیڈنسی میں دو ماہ ہی گزارے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ گھر ہمارے پیارے قائد کی پیاری نشانی تھی اور جو قوم اپنے بزرگوں کی نشانیاں سنبھالنا نہیں سیکھتی وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔اپنے قائد اور اپنے بزرگ کے اثاثوں کو دل وجان سے رکھنا ایک پسندیدہ اور قابل ستائش روایت ہے۔جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کو ملک دشمنوں نے ہمارے ملک پر شب خون مارنے کی کوشش کی ہے۔سانحہ کوئٹہ کے بعد نہ تو ہم روح قائد منہ دکھانے کے قابل ہیں اور نہ ہی نوجوان طالبات کی ہلاکت پر ان کے والدین سے معافی کے لائق۔

ہم اس بات کو بھی تہہ دل سے مانتے ہیں کہ اس پیارے ملک کے لئے ہماری پاک فوج اور پولیس اہلکاران کی ناقابل ستائش قربانیاں ہیں لیکن قائداعظم کی رہائش گاہی کی تباہی کے ذمہ دار ان میں ہم سب یعنی عوام،فوج اور پولیس بھی ہیں۔عوام کا بھی اتنا ہی قصور ہے جتنا کہ سیکورٹی پر مامور اہلکاران کا۔ملک دشمن عناصر بھی عام انسانوں کی طرح ہم سب میں گھل مل کر رہتے ہیں۔ریکی کرتے ہیں اور عوام دشمن کاروائیوں کے لئے پریکٹس کرتے ہیں لیکن انہیں ہم ہر محلہ،ہرگلی اور ہر شہر میں اگر پکڑنا اور پہچاننا چاہیں تو کوئی مشکل نہیں۔ملک دشمن اور عوام دشمن افراد میں کوئی نہ کوئی مشکوک حرکت ضرو ر ہوتی ہے مثلاً وہ کسی ہوٹل،ریسٹورنٹ، کرائے کی بیٹھک،کرائے کے مکان یا کسی کو ڈالرز کے عوض خرید کر اس کے ذاتی مہمان بن کر ٹھہر سکتے ہیں۔ہم انہیں ان کی چال ڈھال،حلیئے،حرکات و سکنات اور بغیر کسی تگ و دو کے بے پناہ پیسے جیسی مثالوں سے بھی مشکوک سمجھ کر اگر کسی قریبی معزز کمیونٹی ، تھانے، اخبار یا ٹی وی کو خبر کر دیں تو شاید ان کی پکڑ ہو جائے اور وہ اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔کئی نجی اور پرائیویٹ ادارے بغیر کسی سیکورٹی چیک کے افراد کو بھرتی کر لیتی ہیں اور یہی افراد ملک دشمن اور عوام دشمن سرگرمیوں کی مہم جوئی میں دن رات لگا دیتے ہیں۔

اس بات کا زیادہ اندیشہ موجود ہے کہ کوئی افغانی ہمارے پاکستانی پٹھان یا بلوچ بھائیوں میں مِکس اپ ہو کر یا کوئی انڈین ہمارے مہاجر بھائیوں میں مِکس اپ ہو کر ہمارے ملک و قوم کے لئے تباہی کا کوئی سامان بناتا رہے اورخدانخواستہ کسی اہم ایونٹ پر اپنے تمام حربے آزما ڈالے۔احقر نے پاکستانی حالات و واقعات سے جو کچھ دیکھا اور سیکھا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ ہم بھی اپنی فوج اور پولیس کے شانہ بشانہ اپنے طور پر اپنے گلی،محلہ ،دیہات اور شہر میں ہر اجنبی اور مشکوک فرد کو اپنی کڑی نگرانی میں رکھیں تاکہ اسے کوئی خطرناک کاروائی کرنے کا موقع نہ ملے۔

ہماری موجودہ حکومت کو اس واقعہ کو ہر لحاظ سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ ملک دشمن عناصر اپنی سرزمین سے آئے تھے یاکسی قریبی بارڈر سے،کیا یہ عوام دشمن پاکستانی عوام کو ورغلا کر ملک دشمن کاروائیاں کر رہے ہیں یا ہمیں یا ہماری حکومت کو تھریٹ کرکے اپنے چنگل میں پھنسانے کے لئے کسی بیرونی ہاتھ کی کاروائی ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں آئندہ کے لئے بہت ہی چوکنا ہونے کی ضرورت ہے کہ کوئی اور اس طرح ہماری سالمیت اور پاکستان کی عظمت کی نشانیوں پر خدانخواستہ حملہ آور ہونے نہ پائے۔پاکستانی حکومت کو جلداز جلد امریکہ کو پاکستانی اندرونی اور بیرونی مداخلت سے باز رکھنا ہو گا تاکہ امریکہ کی مداخلت سے خدانخواستہ ہمیں مزید کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔پاکستان میں موجود تمام تاریخی جگہوں مثلاً مینار پاکستان لاہور،مزار قائد کراچی اور جی ایچ کیو وغیرہ میں سیکورٹی کا نظام بہت ہی ہائی بنایا جائے تاکہ کو ئی قوم دشمن ہماری سالمیت پر حملہ نہ ہو۔

آج کے کالم میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شکست پر ضرور کچھ لکھنا چاہوں گا کیونکہ ہاکی کے بعد کرکٹ کے میدان میں بھی ہماری ٹیم کا ستیاناس ہو گیا ہے اور ہر اچھے میچ میں شکست ہمارا مقدربن گئی ہے۔ہم لوگوں کے پاس اتنے مصروف اور پریشان کن ماحول میں اس طرح کی چھوٹی چھوٹی جیت ہی خوشی کا سبب تھی جو کہ سفارشی اور نا اہل کھلاڑیوں نے نہ صرف چھین لی ہے بلکہ شرمندگی ہم سب کا مقدر بنا دی ہے۔ہماری کرکٹ ٹیم کی کمزوریاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔سفارشی اور نااہل کھلاڑی ہماری ٹیم میں دیمک کی طرح گھستے جا رہے ہیں۔اس وقت ٹیم میں محمد عرفان اور اسد شفیق کے علاوہ باقی سب ٹیم سے ہمیشہ کے لئے نکال دینے کے لائق ہیں۔ہمیں اس وقت فرسٹ کلاس کرکٹ سے ہونہار اور پرفارمنس دینے والے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے۔

جنا ب محترمی میاں نواز شریف سے قوی امید اورگزارش ہے کہ وہ نہ صرف بلوچستان حکومت کو اس کی نالائقی پر سمجھائیں بجھائیں گے بلکہ قومی کرکٹ ٹیم کو بھی سیدھا کرنے کے لئے کسی با صلاحیت اور ایماندار چیئرمین کو لا کھڑا کریں گے جو ہماری کرکٹ ٹیم کو پھر سے غیرت مندی اور ایمانداری سے گیند بیٹ پکڑ کے میدان عمل میں لائے گا۔بلوچستان حکومت ہو یاہماری کرکٹ ٹیم دونوں سے امید ہے کہ ملک و قوم کی عزت کا احساس ضرور کریں گے۔انشا ءاللہ۔
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 64007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.