حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی محبت اور فدائیت
(Abu Hanzalah Arshad Madani, Karachi)
حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
کہ غزوہ خندق میں ہماری ایک طرف تو مکہ کے کافروں اور انکے ساتھ دوسرے
کافروں کے بہت سے گروہ جو ہم پر چڑھائی کرنے آئے تھے اور حملہ کے لئے تیار
تھے، او ر دوسری طرف خود مدینہ منورہ میں بنو قریظہ کے یہود ہماری دشمنی پر
تلے ہوئے تھے جن سے ہر وقت اندیشہ تھا کہ کہیں مدینہ کو خالی دیکھ کروہ
ہمارے اہل و عیال کو بالکل ختم نہ کردیں ہم لوگ مدینہ منورہ سے باہر لڑائی
کے سلسلے میں پڑے ہوئے تھے منافقوں کی جماعت گھر کے تنہا اور خالی ہونے کا
بہانہ کرکے اجازت لیکر اپنے گھر وں کو واپس جارہی تھی اور حضور اقدس صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ہر اجازت مانگنے والے کو اجازت مرحمت فرمادیتے تھے۔
اور اس دوران میں ایک رات آندھی اس قد ر شدت سے آئی کہ نہ اس سے پہلے کبھی
اتنی آئی نہ اس کے بعد ۔اندھیرا اس قدر زیادہ کہ آدمی کوپاس والا آدمی تو
کیا اپنا ہاتھ بھی نظر نہیں آتاتھا اور ہوا اتنی سخت کہ اس کا شور بجلی
کیطرح گرج رہا تھا۔ منافقین اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ ہم تین سو کا مجمع
اسی جگہ تھا۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ایک ایک کا حال
دریافت فرمارہے تھے، اور اس اندھیرے میں ہر طرف تحقیقات فرمارہے تھے اتنے
میں میرے پاس سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا گزر ہوا میرے پاس
نہ تو دشمن سے بچاؤکے واسطے کوئی ہتھیار تھا نہ سردی سے بچاؤ کے لئے کوئی
کپڑا ،صرف ایک چھوٹی سی چادر تھی جو اوڑھنے میں گھٹنوں تک آتی تھی اور وہ
بھی میری نہیں اہلیہ کی تھی، اس کو اوڑھے گھٹنوں کے بل زمین سے چمٹا ہو ا
بیٹھا تھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے دریافت فرمایا کون ہے
؟میں نے عرض کیا حذیفہ، مگرمجھ سے سردی کے مارے اٹھا بھی نہ گیا اور شرم کے
مارے زمین سے چمٹ گیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ اٹھ کھڑا ہو،اور دشمنوں کے جتھے میں جاکر ان کی خبر لا،کیا ہورہا ہے
۔میں اس وقت گھبر اہٹ اور خوف اور سردی کی وجہ سے سب سے زیادہ خستہ حال تھا
مگر تعمیل ارشاد میں اٹھ کر فوراً چل دیا جب میں جانے لگا تو حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے دعا دی اَللّٰھُمَّ احْفِظْہُ مِنْ بَیْنِ
یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ وَعَنْ یَمِیْنِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ وَمِنْ
فَوْقِہِ وَمِنْ تَحْتِہِ اﷲ تو اس کی حفاظت فرما سامنے سے اور پیچھے سے
دائیں سے بائیں سے اوپر سے اور نیچے سے۔ حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہکہتے ہیں
کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا تھاکہ گویا مجھ
سے خوف سردی بالکل جاتی رہی اور ہر ہر قدم پر معلوم ہو رہا تھا کہ گویا
گرمی میں چل رہا ہوں۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے چلتے وقت یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
کوئی حرکت نہ کرنا چپ چاپ دیکھ کر چلے آؤ کہ کیا ہو رہا ہے۔میں وہاں پہنچا
تو دیکھا آگ جل رہی ہے اور لوگ اس میں سینک رہے ہیں ایک شخص آگ پر ہاتھ
سینکتا ہے اور کوکھ پر پھیرتا ہے اور ہر طرف سے واپس چل دو، واپس چل دو کی
صدائیں آرہی ہیں۔ ہر شخص اپنے قبیلہ والوں کو آواز دیکر یہ کہتا ہے کہ واپس
چلو اور ہوا کی تیزی کی وجہ سے چاروں طرف سے پتھران کے خیموں پر برس رہے
تھے خیموں کی رسیاں ٹوٹتی جاتی تھیں اور گھوڑے وغیرہ جانور ہلاک ہورہے تھے
ابوسفیان جو گویااس وقت ساری جماعتوں کا سردار بن رہا تھا آگ پر سینک رہا
تھامیرے دل میں آیا کہ موقع اچھا ہے اس کاکام تمام کر ڈالوں ترکش سے تیر
نکال کر کمان میں رکھ بھی دیامگر پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم
کا ارشاد یاد آیا کہ کوئی حرکت نہ کرنا دیکھ کر چلے آنا اس لئے میں نے تیر
ترکش میں رکھااسکو شبہ ہو گیا کہنے لگا تم میں کوئی جاسوس ہے، ہر شخص نے
اپنے برابر والے کاہاتھ پکڑا میں نے جلدی سے ایک آدمی کا ہاتھ پکڑ کرپوچھا
تو کون؟ اس نے کہا تو مجھے نہیں جانتا فلاں ہوں۔ میں وہاں سے واپس آیا جب
آدھے راستے پر تھا توتقریباً بیس سوار مجھے عمامہ باندھے ہوئے ملے انہوں نے
کہا کہ اپنے آقا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے کہہ دینا کہ اﷲ عزوجل نے
دشمنوں کا انتظام کردیا بے فکر رہیں۔
میں واپس پہنچا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ایک چھوٹی سے چادر
اوڑھے نماز پڑھ رہے تھے یہ ہمیشہ کی عادت شریفہ تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ کی
بات پیش آتی تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نماز کی طرف توجہ
فرماتے نماز سے فراغت پر میں نے وہاں کاجو منظر دیکھا عرض کیا۔ جاسوس کا
قصہ سن کردندان مبارک چمکنے لگے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے
مجھے اپنے پاؤں مبارک کے قریب لٹا دیا اور اپنی چادر کا ذرا سا حصہ مجھ پر
ڈالدیا میں نے اپنے سینے کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے تلوؤں
سے چمٹا لیا۔
(مدارج النبوت،قسم سوم،باب پنجم ازہجرت آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم،
ج۲، ص۱۷۳بتصرف۔دلائل النبوۃ(مترجم)،لامام ابونعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی،
باب غزوۂ خندق کے معجزاتص۴۴۷،بتصرف)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |
|