جال عنکبوت سے ہوشیار؟

کلام پاک میں واضح طور پر خدا نے فرمایا ہے کہ یہود و ہنود کبھی تمہارا دوست نہیں بن سکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک یہ ہمارے دوست نہیں بن سکتے ہیں۔یہ ﷲ کا فرمان ہے اس میں کوئی ردو بدل کرنے کی یا نہ ماننے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ایک مسلمان ہونے کے ناطے ان کے ساتھ دل سے دوستی جائز نہیں۔لیکن اس کے باوجود بہت سے مسلم ممالک ایسے ہیں جو طاغوت کے حکم کے اتنے طابع ہیں جیسا کہ ان کے ایمان کے جزمیں شامل ہو۔مثال کے طور پر سعودیہ عرب جس کا پیسہ امریکہ کے بنکوں میں گردش کر رہا ہے اور ان ارب ہا رقوم سے امریکہ اپنا نہ صرف کاروبار کر رہا ہے بلکہ ان رقوم سے حاصل ہونے والی آمدنی مسلمان ممالک کے خلاف بطور طاقت استعمال بھی کر رہاہے۔سعودی تیل کا ایک بڑا حصہ امریکہ حا صل کر رہا ہے۔ جبکہ خود امریکہ کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے اپنا تیل اتنا سٹاک کر رکھا ہے کہ پوری دنیا کے ساتھ جنگ کرنا پڑا تو بھی یہ تیل ہمارے لئے کافی ہوگا۔جبکہ9/11کے انٹرنیشنل ڈرامے کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کا بھی حشر قابل دید ہوا ہے۔دوسری طرف خاس طور پر ہمارے ملک کو قرضے کا اتنا عادی بنا رکھا ہے اب ہمارا گزار قرضے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ چونکہ ہم نے ایک باشعور حکمرانوں کی طرح قرضے کی رقم سے ملک میں ترقی اور تعلیم کو عام کر کے عوام کو ناخواندگی سے نکالنے کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے اور بیرون ممالک دولت کو ذخیرہ کرنے اپنی عیاشیوں کو برقرار رکھنے میں خرچ کر رکھا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ قرضے کے بغیر ہم جی بھی نہیں سکتے ہیں۔گندم کیندا سے اور بیشمار چیزیں ہم امریکہ سے منگواتے ہیں۔ خیر کاروبار کرنے کا کوئی بھی مخالف نہیں مگر اگلا بندہ کرسی بیتھ کر بات کرے اور ہم ہاتھ باندھے ہوئے بھیگ مانگیں یہ کم از کم مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہوسکتا ہے۔جبکہ امریکن ایجنسیوں کے ساتھ شیرنگ کرتے کرتے نہ جانے کیا کیا ہم شیئر کر چکے ہیں۔ملک کا وزیر اعظم نواز شریف طالبان سے مزاکرات کی بات کرتا ہے جو ایک مثبت پہلو ہے چونکہ بین الممالک تیر و تبر چلانے کے باوجود ہزاروں تہہ تیغ کرنے کے باوجود جا جا کر پھر گفت شنید کے زریعے ہی معاملے کو رفع دفع کیا جاسکتا ہے۔تو اگر طالبان سے بات چیت کر کے ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔جب کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا تو شروع سے ہی یہ کہنا تھا کہ حل مذاکرات میں بپنہان ہے۔ جب ملک کے اداروں اور عوام میں مزاکرات کے حوالے سے رائے عامہ ہموار ہوئی تو مسٹر ڈرون نے ایسا ڈرون مارا جو اسلام آباد میں مارنے کے مترادف ہوا۔وہ اس لئے کہ طالبان بپھر گئے اور ملک میں دھماکے،خود کش حملے پھر سے اپنے عروج کو پہنچے۔حتٰی کی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ کو نہ بخشا گیا۔مزے کی بات ان دنوں سوشل میدیا پر ایکSMSچل رہا تھا وہ یہ کہ ( جب قائد اعظم کو بچانا تھا تو ایمبولینس نہیں تھی، اب قائد کے گھر کو بچانے کیلئے ہمارے پاس فائر برگیڈ موجود نہیں تھی)اس طرح کی عجیب و غریب خیالات عوام کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں۔اب وزیر اعظم نواز شریف کے لئے بہت پیچیدہ نیشنل و انٹرنیشنل معاملات سے گزرنا پڑے گا۔حیرت کی بات تو یہ ہے جب پاکستان طالبان سے مزاکرات کرے تو بہت بڑی غلطی سمجھی جاتی ہے جب امریکہ خود اپنے مکرو عزائم کی تکمیل کیلئے یا نظریہ ضرورت کے تحت طالبان سے بات کرے تو وہ سب مثبت قدم(چہ معنی دارد برادرمن؟)اب چونکہ قطر میں طالبان کا دفتر کھولا گیا اور ان سے باقائدہ مزاکرات ہورہے ہیں اور (جان کیری) جو طالبان کا کٹر دشمن سمجھا جاتا تھا ،موصوف مزاکرات کرنے آئیں گے۔ جبکہ امریکہ سے مذاکارات کے لئے سعودیہ بادشاہ نے راہ ہموا کر رکھا ہے۔ ساتھ امریکہ نے معمول کے مطابق بیان داغ دیا دیا کہ اس میں ہم پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں۔اب ذارا حامد کرزئی کے انٹریوں جو سلیم سحافی نے لیا تھا،کے چند الفاظ قابل توجہ ہیں۔ حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ ہم ڈیورینڈ لائن کو نہ تسلیم کیا ہے اور نہ کبھی کریں گے یہ انگریز نے تقسیم کے سازش کے تحت دھونگ رچا یا ہے۔اگر پاکستان افغانستان میں دہشت گردی دوہنس دھمکی یا اپنی ایجنسیوں کے زریعے مختلف حربے استعمال کر کے تسلیم کروانے کا سوچ رہا ہے تو ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ حامد کرزئی نے کہا کہ افغانستان کے عوام پاکستانی عوام سے بہٹ محبت کرتے ہیں ہمارا نہ عوام سے نہ سول حکومت سے کوئی گلہ ہے۔اگر ہمارا گلِہ ہے اگر ہماری کوئی شکایت ہے تو وہ پاکستان کی فوج اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں سے ہے ان کا کردار درست نہیں نہیں۔ حامد کرزئی نے پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کے خلاف کئی مرتبہ خصوصی طور پر اپنے اس انٹرویوں میں کہا۔ کرزئی نے یہ بھی کا کہ افغانستان میں ساڑھے3لاکھ فوج موجود ہیں۔ اب ایک خاص بات بھی کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے بہت مشکور ہیں کہ انہوں نے بھائی چارگی کو فروغ دیتے ہوئے لاکھوں افغانیوں کو پناہ دیا اب ان کی تیسری نسل بھی پاکستان میں چل رہی ہے۔یہ بہت بڑی قربانی ہے ۔اگرخدانخواستہ پاکستان کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوا تو ہم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے جو ہمارے ساتھ انہوں نے کیا ہے ۔ہم بھی اپنے پاکستانی بھائیوں کو پناہ دیں گے اور بھائیوں کی طرح رکھیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے جناب کرزئی صاحب باقی باتین تو ٹھیک محبت نفرت،گلے شکوے یہ تو سب چلتے ہیں مگر آپ نے کیا سوچ کر یہ کہا کہ اگر پاکستانکے ساتھ بھی ایسا ہوا تو ہم بھی پاکستانی عوام کو پناہ دیں گے۔ خدا نخواستہ کہیں سے کوئی اشارہ تو موصول نہیں ہوا ہے؟یہود و ہنود کبھی اپنے مفاد کے بغیر کسی سے دوستی نہیں چاہتا ہے۔ ایک طرف ڈرون حملوں کی بارش جبکہ دوسری جانب طالبانکے بڑے بڑے رہنماؤں کے ساتھ ہاتھ ملاکر چلنا چاہتا ہے۔اس حوالاے سے میں نے صاحب رائے رکھنے والے افراد سے تبادلہ خیال کیا تو بعض کاکہنا تھا کہ روس کی طرح ایکبار پھر انہیں استعمال کیا جارہا ہے۔جب میں نے سوال کیا وہ کیسے تو جواب ملا کہ شام میں انہیں استعمال کیا جائے گا۔ ا سکے جواب میں میں نے کہا کہ مسلمانایک سوراخ سے ڈس کھانے کے بعد وہ کبھی بھی دوسرے سوراخ سے دس کھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ تو کہا یہ گیا کہ حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بھارت نے افغانستان میں طالبان کو پاکستانکے خلاف سیکنڈ فرنٹ لائن میں استعمال کر چکا ہے۔ اس کے بعد کچھ اور دانشمندوں سے اس بابت بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ خدا نہ کرے ہمیں تو ایسا نظر آرہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات خراب کروانے کی ایک عالمی سازش ہورہی ہے۔خدا نخواستہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے بہت سے علاقوں سے لوگ افغانستان کی مدد کرنے جائیں گے اور ماضی میں بھی ایسے جزبات دیکھنے کو ملے ہیں۔کہنے والوں نے کہا کہ آخر وہ کون سے عوامل کار فرما ہیں جن کی وجہ سے ہم مسلمان امریکی فیصلے کو حرف آخر ماننے پر مجبور ہیں ۔جبکہ خدا فرماتا ہے یہ تمہارے کبھی دوست ،خیر خواہ نہیں ہوسکتے ہیں ہمارا ایمان اس قدر کمزور کیوں پر گیا ہے۔امریکہ کی بڑی خواہش یہ ہوگی کہ کسی طرح وہ ایران پر کنٹرول حاصل کر سکے ۔اس کیلئے وہ مسلکی تفرقہ بازی میں اپنے ہمدردوں کے ذریعے پانی کی طرح ڈالر بہا رہا ہے۔مسلمانوں میں خاص طور پر پاکستان اور بالخصوص ہمارے خطے مین مذہبی انتہا پسندی نے زور پکڑا ہے۔ اصل میں عالمی طاقتوں کی نظر میں ہمارا خطہ اہم ہے نہ کہ وہ یہاں کے عوام یا کسی ایک مسلک سے محبت کرنا چاہتا ہے۔البتہ استعمال کرنے کے لئے وہ ہر طرح کا ناٹک کرنے میں بڑا ماہر ہے۔میں تفصیل میں نہیں جاوں گا ہمارے خطے میں ایسی ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں سے پورے ایشیاء کر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں باہم دست و غریباں کر کے اور وقتی طور پر کسی ایک گروپ کی مدد بھی کرے گا۔تاریخ گواہ ہے چنگیز خان نے اس وقت تک عراق پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کی جب تک ان کا حدف مشترکہ مفادات تھے،جب عراقیوں کے درمیان بحث اور نفرت مسلکی دوریاں پیدا ہوئیں تو چنگیز خان نے ایسا یلغار کیا کیانسانی خوپڑیوں کا ایک مینار بنالیا ۔ ساتھ اسلامی نایاب کتب کا ذخیرہ بھی نزر آتش کر ڈالا۔لہٰذا ہمیں تاریخ سے عبرت حاصل کرنا چاہئے اور آپس کے اختلافات کو اتنا نہیں اچھالنا چاہئے کہ وقت کے چنگیز کو ہماری کھوپڑیوں کا مینار بنانے کا موقع میسر ہو۔گلگت بلتستان عالمی سامراجی طاقتوں کی نظر میں کھٹک رہا ہے وہ کسی بھی بہانے ہم پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔خدا را نفرتوں کو مٹائیں اور جو نفرت کی بات کرے جہاں سے بھی کرے ان کے ساتھ جو بھی روابط ہوں ان افراد کی نشاندہی کریں۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہیں اور سب مل کر اپنی دھرتی کو امن کاگہوارہ بنانے مین اپنا کردار اداکریں۔اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تغیرات پر بھی نظر ڈالنا وقت کی عین ضرورت ہے۔ پروردگار عالم ہم سب کو یہود و ہنود کی مکاری اور شر سے محفوظ رکھیں اور ہمیں آپس میں شیر و شکر ہونے کی توفیق عطا فر مائے -آمین
Yosuf Ali Nashad
About the Author: Yosuf Ali Nashad Read More Articles by Yosuf Ali Nashad: 18 Articles with 19138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.