دہشت گردی کے محرکات اور ان کا خاتمہ

ہم نے بڑے خوشگوار دن دیکھے جب کہیں بھی کسی وقت آدمی اکیلاسفر کرتا تھا اور وہ اس سفرسے ایسے لطف اندوز ہوتا تھا گویا کہ سیر کررہا ہے۔

میں ملیر کینٹ سے کراچی یونیورسٹی سائیکل پر سفر کرتا، سڑک خستہ حال تھی دائیں بائیں بڑے بڑے باغات تھے ۔ میں اکثرکسی نہ کسی باغ میں داخل ہوجاتا۔ وہ لوگ بڑے اخلاق سے پیش آتے اور عزت افزائی کرتے۔ کوئی نہ کوئی پھل بھی کھلاتے میں چارپائی پر سستانے کے بعد چلاجاتا۔ ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ کلفٹن سید عبداﷲ شاہ غازی رحمۃ اﷲ علیہ کے عرس پر گیا تو واپسی پر کوئی گاڑی نہ ملی ۔یہ 1962 تھا جبھی گاڑیاں کم ہوتی تھیں۔ میں نے ہمت کی اور پیدل چل پڑا یاد نہیں کس وقت عثمان آباد میں اپنی رہائش پر پہنچا۔ ایک دفعہ گاڑی نہ ملنے کی وجہ سے رات 12 یا ایک بجے ملیر کینٹ پیدل گیا۔ بلا خطر سفر کرتے تھے ہاں صرف ویرانوں میں سانپوں کا خطرہ ہوتا تھا۔ مگر آج ان مذکورہ علاقو ں میں انسان خطرناک درندے اور اژدہا موجود ہیں جو دن رات کسی وقت بھی نڈر ہوکر انسانوں کو لقمہ اجل بنارہے ہیں۔ یہ تو کراچی کی صورت حال ہے جہاں روزانہ درجنوں انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔ کہنے کونام نہاد حکومت موجود ہے۔ دنیامیں حکومت کا وجود نظریہ عمرانیات کے تحت انسانوں کے حقوق کا تحفظ کرنا۔ انسان وسائل اور قوت میں اﷲ تعالی نے مساوی نہیں بنائے۔یہی تو آزمائش ہے۔ اگر باقاعدہ حکومت نہ ہوتو ظالم اپنے جبرو استبداد کے بل بوتے کمزوروں کا استحصال کرتا رہے۔ حکومت طاقت و قوت رکھتی ہے اور وہی قانون کی قوت نافذہ ہوتی ہے۔ ظالموں اور شرپسندوں کی بیخ کنی اسی قوت کا کام ہوتا ہے۔ جس سے عوام الناس امن و سکون کی زندگی بس کرتے ہیں۔ لیکن کئی سالوں سے کراچی اس عفریت کا شکار ہے۔ اگر کسی مطلق العنان بادشاہ کی حکومت ہوتی تو اس طرح بے دریغ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ چکے ہوتے۔ لیکن مغربی جمہوری نظام کے تسلط میں عوام کو یہی کچھ ملااور استحصالی قوتوں کی پالیسی ہے کہ قتل و غارتگری کا بازار گرم رہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ شیر شاہ سوری کے دورحکومت میں ایک آدمی قتل ہوگیا اور قاتل کا پتہ نہ چل سکا۔ شیرشاہ سوری کے علم میں جب یہ بات آئی تو اس نے مقتول کے علاقے کہ نمبردار یا عامل کو طلب کرکے وقت مقررہ تک قاتل کو پیش کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ اگر قاتل نہ ملاتو تمہارا سر قلم کردیاجائیگا۔ وقت مقررہ پر قاتل کو پیش کردیا گیا اور اسے قصاص میں قتل کردیا گیا۔ کراچی کے قتل عام میں سیاسی لوگ ملوث ہیں جو ان جرائم کو ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف ایک ملک گیرقتل عام ہے۔ جس کا آغاز پرویز مشرف نے کیا۔ پرامن افغانستان پر صلیبیوں کی مسلمانوں کے قتل عام میں معاونت کی ۔ ہوائی اڈے دیئے، بندرگاہیں دیں، مسلم ملک کے اہم نقشے دیئے بلکہ دل و جان سے قتل مسلم میں فیاضی کے ساتھ صلیبیوں کا ساتھ دیا، مجاہدین بیچے اور ڈالر وصول کیئے۔ اگرچہ کے پاکستان کے ہر طبقہ فکر نے خبیث پرویز کی مخالفت کی مگر وہ اپنا کام کرتے ہوئے اقتدار اپنے چہیتوں کو دیکر چلتا بنا۔ افغانستان کے مسلمان کب تک صبر کرتے۔ جب انکے جوان، بوڑھے، مرد عورتیں ،بچے قتل ہوئے، کاروبار اور مال و اسباب تباہ ہوگیا ۔ اور یہ سب کچھ پاکستان کی مدد سے ہوا۔ تو ان لوگوں نے انتقام کا فیصلہ کیا ۔ اس انتقام کے لیئے انہوں نے اپنے میدان اور مقام کا خود تعین کیا اور کررہے ہیں۔ اس رد عمل کو امریکہ اور اسکے دیگر صلیبیوں نے دہشت گردی کا نام دیا تو پاکستان نے بھی اسے دہشت گردی کہدیا۔

امریکہ نے آہن و آتش برسا کر مسلمان کے ایمان اور استقامت کے سامنے ہتھیار ڈالدیئے۔ صلیبیوں کا تاریخی کردار شکست خوردہ ہوکر صلح کرناہے۔ اب طالبا ن کے ساتھ دوحہ میں صلح کی بات چیت۔ کئی سالوں پر محیط انسانی جانوں کا ضیاع اور پوری دنیامیں شیطانی کردار کا نتیجہ کیا نکلا؟ پاکستان کے فوجیوں سمیت لاکھوں افراد کی شہادتیں اور مالی نقصانات علیحدہ۔ اگر پرویز مشرف میں مسلمانی شرافت یا کم از کم انسانیت ہوتی تو ابتداء میں ہی امریکہ کی کاسہ لیسی سے دور رہ کراپنے آپکو غیرت و حمیت کا حامل جرنیل ثابت کرتا۔ اس خباثت کے پس منظر میں لاتعداد مسائل نے جنم لیا۔ جب بھی مسلمان اندرونی خلفشار کا شکار ہوئے دشمنان اسلام نے مسلمانوں کو تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ پرویز مشرف کے بعد پانچ سال تک حکمرانی کے مزے لوٹنے والوں نے بھی قومی اہمیت کے مسائل سے چشم پوشی کی اور امریکہ و مغربی لابی کی خوشنودی میں لوٹ مار کے پانچ سال پورے کیئے۔ امریکہ بہادر کی بڑھکوں سے ایران کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔

بات صرف ایمان کی ہے۔ انہوں نے استقامت اور اپنے رب پر بھروسہ کا اظہار کیا جبکہ پاکستان کے کمانڈوجرنیل نے نا مردی کا ثبوت دیا۔

اندریں حالات ملک کے اندر جگہ جگہ باغیانہ اقدامات اٹھائے گئے۔ پاکستان کا پرچم جلانے، پاکستان توڑنے کی خبیث آوازیں بھی سنی گئیں۔ ایسے میں صلیبی قوتوں اور ازلی دشمن بھارت نے واضح طور پر قتل و غارتگری کرنے اور فسادات کو تیز کرنے کے لیئے ہمہ جہت بھرپور کام کیا۔ انہیں دراندازی کے مواقع دینے میں ہمارے سیاستدان بھی پیچھے نہیں۔ کہ جنہوں نے وزیرستان، صوبہ پختون خواہ اور بلوچستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالے۔ ان علاقوں کے عوام آج بھی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے عوام کوصوبے پر حق حکمرانی تو دیدیا گیا مگر ابھی کرنے کو بہت کچھ باقی ہے۔ انکی قبائلی تکریم اور ثقافت کو بھی تحفظ دیا جائے اور کوئی فیصلہ ان پر زبردست نہ ٹھونسا جائے۔ کراچی اور ملک کے مختلف علاقو ں سے گرفتار کیئے دہشت گردی میں ملوث افراد کو عدالتوں میں لایا جائے ۔ جو مجرم ثابت ہوتے ہیں انہیں بلاتاخیر سزا دی جائے۔

حکومت فوری طور پر امریکہ نوازی سے دستبردار ہوجائے۔ ملک کے اندر صلیبی کارندے جہاں کہیں اپنے مشن پر لگے ہوئے ہیں انہیں فوری طور پر ملک سے نکالا جائے۔ اہم تنصیبات سے امریکیوں کو ہٹایاجائے۔ صلیبیوں(امریکہ اور برطانیہ )کے تعلیم کے نام پر چلنے والے پروگرام فورا بند کرکے انکے عملہ کو ملک سے نکالا جائے کیونکہ تعلیم جیسے مقدس نام کی آڑ میں وہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیئے کام کررہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں امن و امان قائم کرنے میں ان تجاویز پر عمل درآمد کرے گی۔ اور ملک کو امن و سکون اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ اﷲ مدد گار ہوگا۔ امین۔
Prof Akbar Hashmi
About the Author: Prof Akbar Hashmi Read More Articles by Prof Akbar Hashmi: 10 Articles with 10650 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.