حکمران کا چناؤ

رب کائنات نے انسان کو اشرف المخلوکات کا درجہ دیا اور زمین پے اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ اور انسان کو حکمرانی کا عہدہ عطا کیا۔ انسان دنیا میں پائی جانے والی مخلوق ــپر رب کائنات کی عطا کی ہوئی عقل اور طاقت سے غالب ہے۔ حتی کہ انسان ہی عقل اور طاقت سے اپنے جیسے دوسرے انسان پے بھی غالب آجاتا ہے۔

حکمرانی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ روئے زمین پر انسان ہی انسان کا زمینی وقتی حاکم بھی ہے۔جیسے کسی ملک کی رعایا کا بادشاہ یاصدر، وزیراعظم وغیرہ، اور عوام اپنے ان حکمرانوں کا چناؤ خود اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔

آج میں آپ لوگوں کو جنگل کے بادشاہ اور اس کی رعایا کا قصہ سناتا ہوں کہ وہ اپنے لیئے بادشاہ کا انتخاب کس سوچ کے ساتھ کرتے ہیں۔ جنگل کے ایک جرگے میں جنگل کا بادشاہ شیر اور اس کی تمام رعایا کے ساتھ میں بھی وہاں موجود تھا۔ اور میرا سوال شیر سے تھا کہ تم طاقتور ہو اور جنگل کے بادشاہ ہو۔ مگر تم بہت ظالم ہوتم اپنی تھوڑی سی بھوک مٹانے کے لیئے اتنا بڑا جانور شکار کرتے ہوتو یہ ظلم نہیں ؟

میرا سوال سن کر شیر غصہ سے دھاڑنے لگا اور بولاتم انسان کو رب کائنات نے ہم پر اشرف المخلوکات کا درجہ دیا مگر تم انسانوں نے اُس عالی درجے کا حشر نشر کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ میں اک بڑے جانور کا شکار کرتاہوں ، اپنا حصہ کھالیتا ہوں اور باقی شکار کودوسرے جانوروں کیلئے چھوڑ دیتاہوں کیونکہ جنگل کا بادشاہ ہونے کی حثییت سے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری رعایا میں بہت سے چھوٹے کمزور جانور بھی ہیں جوخود شکار نہیں کرسکتے۔اور وہ چھوٹے کمزور جانور باقی شکار سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔

میں نے شیر سے پھر سوال کیا کہ شکار تو چیتا، لومڑی، بھیڑیا،کتا بھی کر سکتے ہیں تو آخر وہ بھی تو حکمران بن سکتے ہیں تو شیر بولاہاں یہ سب بھی شکار کر لیتے ہیں مگر چیتا، لومڑی، بھیڑیا،کتے کی خصلت ہے کہ یہ شکار کرکے اپنا حصہ کو کھا کر باقی ماندہ شکار کو کھینچ کر اپنی کھچار / غار میں لے جاتے ہیں۔ اور اگر یہ سب حکمران بن جائیں تو جنگل کی عوام بھوکی مر جائے۔

اور میں شیر کی سوچ پر بہت حیران ہوا اور اپنی سوچ پر نادم کہ جنگل کی رعایا نے بہت سوچ کر شیر کو اپنا بادشاہ چنااور ہم اشرف المخلوکات ہوکر بھی ہر بار الیکشن میں غلط چناؤ کرجاتے ہیں، تو اب ہم عوام کو مل کر سوچنا ہے کہ ہم کو شیر کی سوچ جیسا حکمران چاہیے جو اپنی رعایا کا خیال رکھے یا چیتا، لومڑی، بھیڑیا،کتے جیسا حکمران جو صرف اپنا اپنا سوچے!!!!!!!!!! سوال بھی آپ سے ہے اور جواب بھی آپ ہی دے سکتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟

(نوٹ : شیر کی مثال سے یہ ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جس جماعت کا انتخابی نشان شیر ہووہ ہی صحیح ہے۔ اصل میں شیر کی سوچ ہونا مقصد ہے)
Abdul Azeem
About the Author: Abdul Azeem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.