کُتّے کی دُم

ایک آدمی کوجن اپنے قابو میں کرنے کا شوق پیدا ہوا ۔ بیچارے نے بہت جنتر منتر سیکھے۔ مگر جن قابومیں نہ آیا۔ لاچار ہوکر وہ ایک جنگل میں رہنے والے فقیر کے پاس گیا۔ اور کہنے لگا ۔ حضور! مجھے کوئی ایسی ترکیب بتائیے کہ جس سے جن میرے قبضے میں آجائے اور وہ میرے سارے کام کردیا کرے۔ فقیر ایک عقلمند انسان تھا ، اس نے کہا بھائی جن بہت خطر ناک ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس ارادے سے باز آجاؤ، اگر جن تمہارے قابو میں آگیا تو تم اس کو کام بتا بتا کر تھک جاؤ گے اور جب تم اس کو کوئی کام نہ بتاسکو گے تو آخر کار وہ تم کو ہلاک کردے گا۔اس آدمی نے کہا میرے پاس بہت سارے کام ہیں، جن سے وہ کبھی فرصت نہیں پاسکے گا ۔

جب اس آدمی نے فقیر سے بہت زیادہ ضد کی تو فقیر نے اسے ایک عمل بتادیا کہ اس عمل سے جن تمہارے قا بو میں آجائے گا۔ اس آدمی نے گھر آکر وہ عمل شروع کردیا۔کچھ دنوں بعد جب مقررہ میعاد کے مطابق عمل مکمل ہوگیا تو جن حاضر ہوگیا ۔ جن حاضر ہوکر کہنے لگا ۔ کیا حکم ہے میرے آقا؟اس شخص نے کہا ایک شاندار عمارت بنادو ۔ پل بھرمیں شاندار عمارت تیار ہوگئی۔ اس شخص نے کہا کھیت جوت آؤ ۔ کچھ ہی دیر میں کھیت جوتا ہوا تیار تھا۔ اس نے کہا بہت سا روپیہ اور خزانہ لاؤ ، جن نے پلک جھپکتے ہی خزانہ حاضر کردیا۔

غرض اس نے جو مشکل سے مشکل کام تھے اس جن کو بتائے ۔ اس نے سب کام کردیئے ۔ اب کوئی کام نہ رہا۔جن نے کہا مجھے کوئی کام بتاؤ، ورنہ میں تم کو مارڈالوں گا۔ اب تو یہ آدمی بہت ڈرا، اور دوڑ کراس فقیر کے پاس آیا اور کہا ‘ حضور ! جن سے جو کچھ کہتا ہوں جھٹ پٹ کردیتا ہے ۔ اب میرے پاس کوئی کام باقی نہیں بچا، بتائیں اب میں کیا کروں ، ورنہ وہ جن تو مجھے ہلاک کردے گا۔ اتنے میں جن بھی اس آدمی کے پاس پہنچ گیا ۔اور کہنے لگا مجھے کوئی کام بتاؤ۔

فقیر کے پاس ایک کتا بیٹھا تھا ، اس نے اس آدمی کو ایک خنجر دے کر کہا ‘ کہ اس کتے کی دُم کاٹ کر جن کو دے دو اور اس سے کہو کہ اسے سیدھی کردے ۔ اس آدمی نے ایسا ہی کیا اور کتے کی دُم کاٹ کر جن کو دے کر کہا لو یہ کام کرو کہ اسے سیدھی کردو۔ جن نے کُتّے کی دُم ہاتھ میں لی۔ ایک دفعہ سیدھی کردی ۔ پھر جب اس کو چھوڑا تو ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔ ایک دن گزرا ، دو دن گزرے ، جن نے ہزار کوشش کی ۔ مگر کتے کی دُم سیدھی نہ ہوئی ۔ تب تو جن بہت گھبرایا اور اس آدمی سے کہنے لگا ۔ بھائی !میں نے جو کچھ دھن دولت ، روپیہ پیسہ اور جائداد تجھ کو دی ہے ، وہ سب کچھ تیرا ۔ اب مجھ کو چھٹی دیدے۔ تو جیتا میں ہارا۔ یہ آدمی فوراََ راضی ہوگیا اور جن اسے چھوڑ کر اپنے ٹھکانے پر چلا گیا ۔ (ماخوذ)

دنیا بھی کتے کی دم ہے ، کوئی ہزار کوشش کرے یہ کبھی سیدھی نہ ہوگی۔ حضرت ِ انسان نے اسے سیدھا کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ بہت سی تدبیریں کیں ۔ بڑے بڑے ہسپتال اور شفاخانے بنائے ، لیکن مریض مرتے ہی رہے۔ اصلاح کے لئے اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں بنائیں لیکن برے کام اسی طرح جاری و ساری ہیں۔موبائل اور انٹر نیٹ وجود میں آئے لیکن اس سے بھی تعمیری کام برائے نام اوراس کے غلط استعمال کی وجہ سے نوجوان نسل برباد ہورہی ہے۔ انصاف گاہیں بنیں مگرانصاف ندارد۔ جرائم کے خاتمے کے لئے ادارے بنے لیکن جرائم بدستور موجود ہیں۔ الغرض یہ دنیا کبھی سیدھی نہ ہوئی ۔ اور نہ ہوگی، اس کے سینکڑوں کام ختم کیجئے تو ہزاروں اور تیار نظر آئیں گے پس ہمیں اس کی نیرنگیوں سے عبرت حاصل کرکے اپنی زندگی کو سنوارنا چاہیئے۔
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 322966 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.