گرمی اتنی زیادہ تھی کہ برداشت
نہیں ہورہا تھا اور پنکھے کی ہوا بھی گرم تھی میں نے سوچا کہ کیا کروں رات
کے نو بج رہے تھے اور جمعتہ المبارک کا دن تھا میں نے سوچا کہ ایئر کولر لے
لیتے ہیں کیونکہ اے سی لگوانا اور پھر اسکا بل دینا ہمارے بس کی بات نہیں
میں نے موٹر سائیکل نکالی اور ایئر کولر کی تلاش میں نکل پڑا پہلے سوچا کہ
پلاسٹک کا کولر لے لیتاہوں پھر ایک دوست نے مشورہ دیا کہ لاہوری کولر لو کم
از کم ہوا تو ٹھنڈی آئے گی صرف دوکانیں کھلی تھیں کیونکہ ٹائم بھی کافی
ہوگیا تھا پہلی دوکان پر گیا تو اس نے قیمت نہ نہ دینے والی بتائی-
میں اگلی دوکان پر گیا تو وہاں میری ملاقات شفیق سے ہوئی جو کہ کولر بھی
بنارہاتھا اور ساتھ ساتھ رکشہ بھی چلاتاہے مجھے شفیق پڑھا لکھا لگا میری
شفیق سے بات ہوگئی اس نے کہاکہ بھائی آپ گھرجائیں کولر آپ کے گھرآجائے گا
شفیق نے میرا موبائل نمبر لیا اور میں گھر واپس آگیا ٹھیک آدھے گھنٹے بعد
شفیق کولر لے کر آگیا میں نے پوچھا بھائی آپ یہ کام کب سے کررہے ہیں تو
شفیق میرے پاس بیٹھ گیا اور اسکی آنکھوں میں آنسو نکل آئے کہنے لگا بھائی
میں نے 1992ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا ہے اور مجھے ایک دفعہ کراچی
سے 10لاکھ روپے انعام بھی ملا اسکے بعد میں دوبئی چلا گیا وہاں پر بھی کام
نہ چل سکا پھر میں پاکستان واپس آگیا نوکری ڈھونڈتارہا کوئی نوکری نہ مل
سکی میرے پاس ایک لاکھ روپے تھے میں نے رکشہ لے لیا اور لوگ بڑی بدتمیزی سے
پیش آتے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ میں ان پڑھ ہوں لیکن میں نے کبھی کسی کا
بُرا نہیں سوچا میری تین بیٹیاں ہیں محنت مزدوری کرتاہوں کولر بھی بناتاہوں
اورخودلوگوں کے گھرچھوڑ کرآتاہوں شفیق نے سلام کیا اور چلا گیا -
مجھے شفیق کا گفتگوکرنا اور ڈیل کرنا اتنا اچھا لگا کہ میرے پاس وہ الفاظ
نہیں تھے جس کا میں جواب دے سکا۔ ہمارے ملک میں نہ جانے اس طرح کے کئی
نوجوان دھکے کھا رہے ہیں ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کو ہمیشہ دبا دیاجاتاہے ہمارے
حکومتی عہدیداران صرف اور صرف پالیسیاں بناتے ہیں یا نوٹس لیتے ہیں لیکن آج
تک کوئی عمل ہوتا نظر نہیں آیا ہر جگہ پر غریب آدمی کے ساتھ زیادتی ہورہی
ہے اس کا سوائے اﷲ کے کوئی نہیں ہے بڑے بڑے کرپشن کرنے والے تو عیاشیوں کی
زندگیاں گزارتے ہیں لیکن غریب کا بچہ اگر پڑھ بھی جاتاہے تو وہ زیادہ تر
ملوں میں دھکے کھاتاہے یا پھر رکشہ چلا کر اپنا اور گھروالوں کا پیٹ
پالتاہے-ابھی تو بات ہورہی تھی ایک پڑھے لکھے کی جو رکشہ چلاتاہے ساتھ
ساتھ عوام کافی پریشان ہے حکومت نے ٹیکس لگا کر ضرورت کی ہر چیز مہنگی کردی
غریب آدمی محنت کرتاہے چند روپے کماتاہے یا تو وہ بجلی کے بل دیتاہے یا پھر
ایک ٹائم کی روٹی نصیب ہوتی ہے جو بھی حکومت آتی ہے اس نے عوام کا جینا
حرام کیاہے حکومت کو چاہیئے کہ مہنگائی کم کرے تاکہ عوام خوشحال ہو اور ہر
طرف سکون وسلامتی ہو اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو اچھے روزگار مہیا کئے جائیں
تاکہ شفیق جیسے لوگ رکشہ چلانے کی بجائے کسی آفس میں بیٹھ کر کام کرسکیں۔
ﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو |