مردان وزیارت کے تازہ المناک اور
افسوسناک واقعات سب کے سامنے ہیں،اب اس بحث میں پڑنے کا توشاید کوئی فائدہ
نہیں ہوگا کہ ملک کے موجودہ خانہ جنگی کا سبب کون بنا؟ عسکریت پسند یا
عسکری قوت ؟ عوام یاعلما ؟حکمران یاسیاست داں؟جو اس المیے کوگزشتہ ایک عرصہ
سے رونما ہوتا دیکھ رہے تھے ،انہوں نے اسے ٹالنے کے لئے کیا کردار ادا کیا
؟ـوہ کوئی کردار ادا کر بھی سکتے تھے یا نہیں؟ اس حوالے سے بھی کچھ کہا جا
سکتا ہے نہ شایدکچھ کہنے کا فائدہ ہے کہ اس میں کس فریق کے ساتھ اندرونی
اور بیرونی ہمدردوں کی کتنی اور کیسی ہمدردی،رہنمائی،ہمراہی، اورہمنوائی
رہی ہے اوراب بھی ہے ، اس وقت افواجِ پاکستان عسکریت پسندوں کو راہ راست پر
لانے اور وزیرستان کے طالبان کو راہِ نجات دکھانے کی فیصلہ کن مہم
پرہیں،یہاں بھی بے شمار سوالات ہیں ، طالبا ن اور مجاہدین کون ہیں ؟ان کی
تخلیق کس نے کی ؟کن مقاصد کے لئے کی ؟ان کے اپنے مقاصد کیا ہیں؟ ان میں
اچھے کتنے ہیں اور برے کتنے ہیں ؟وہ کوئی حقیقی طاقت ہیں یا تصوراتی؟ اگر
حقیقی ہیں تو ان کو کتنا نقصان ہوا اور ہو رہا ہے؟ اس خانہ جنگی کا ذمہ دار
کون ہے؟اور کیا اس طرح عسکریت پسندی ختم بھی ہو جائے گی یا اس میں
مزیداضافہ ہوگا؟ یہ جنگ ہماری اپنی ہے یا غیروں کی ؟یہ ساری چیزیں اِمکان و
احتمال کے درجے میں ہیں، صرف اتنی بات طے ہے کہ دونوں جانب بے شمارمعصوم
لوگوں کوبہ’’ راہِ راست ‘‘ خالق حقیقی سے ملانے اوردنیوی زندگی سے’’ نجات‘‘
دلانے کاانتہائی سفاکانہ وبے رحمانہ عمل اپنے جوبَن پر ہے ۔
قوموں کی زندگی میں ایسے حالات آتے رہتے ہیں ، اور ان حالات میں مقتدر اور
با اختیار قوتوں کی آزمائش ہوتی ہے، چنانچہ ان کے فیصلوں کی بنیاد پر قومیں
عروج یا زوال کی راہ پر چلتی ہیں، اور دوسروں کے لئے نشانِ راہ چھوڑجاتی
ہیں یاخود نشانِ عبرت بن جاتی ہیں، وطنِ عزیز میں اس وقت جو صورتِ حال ہے،
وہ دوربین ودوراندیش قیادت کے فقدان اور بیرونی پُرپیچ مداخلت کا ایسا منہ
بولتا ثبوت ہے کہ اس کی نظیرماضی میں حقیقتا ً(نہ کہ مبا لغتاً )نہیں ملتی
، اب نفاذ شریعت کے لئے مسلح جد وجہد کے قائل اور اس کے حامی لوگوں سے
اختلاف اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، فوجی قیادت سے اختلاف رائے بھی
اپنے پروانۂ موت پر دستخط کرنے سے کم نہیں ہے،گویا ہر طرف موت کا رقص ہے،
منطق،دلیل ،برہان ، مشاورت اور مفاہمت کی راہیں آئے روزمسدود اور معدوم
ہوتی جا رہی ہیں ۔
حالات سے غافل رہیں، توبزدلی اور کم ہمتی کا احساس ڈستا ہے ،اور اگر باخبر
رہیں،تو مایوسی اور دل شکستگی بے چین وبیمار کر تی ہیں ،تاریخ کے اوراق میں
موجود جنگوں، المیوں ،مصیبتوں اور فتنوں کی وہ داستانیں جو کبھی گرمیٔ محفل
کے لئے سنائی جاتی تھیں ، جوش خطابت میں غازی ٔگفتار اور زورِ کتابت میں
قلمی شیروں کا سرمایہ تھیں،آج سمعی وبصری آلات کے ذریعے اور بہ چشمِ
خودہزاروں المیے دیکھ دیکھ کر وہ سب ہیچ معلوم ہوتی ہیں، سانحہ لال مسجداور
سوات آپریشن کے بعد قوم کتنی راحت محسوس کر تی ہے ؟یہ سب کے سامنے ہے، آج
18کروڑ اہلیان وطن اس سے جس قدر متاثر ہیں ،اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں
ہے ،اس وقت بظاہر تو وہی اندھے فتنے والی صورتِ حال ہے ، کوئی حل سمجھ میں
نہیں آرہا ہے اور کسی کو نہیں آرہا ہے ، بہر حال رجائیت اور امیدِ خیر کو
کسی طرح ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے ،اور جو ہوا اور ہو رہا ہے اس پر
بجائے رونے دھونے کے حالات کی اصلاح ، صورتِ حال کی بہتری ، متاثرین کی مدد
اور معاونت ،اجتماعیت کو فروغ دینے، وحدت ویکجہتی کا ثبوت دینے کی اپنی
بساط کے مطابق کوششیں کرنی چاہیئں،حکومت کو غرور وتکبر نیز طاقت کے گھمنڈسے
گریز کرنا ہوگا،غیر مقتدرقوتوں میں سے ہر فرد اور ہر جماعت کو بغاوت و نفرت
کے خاتمے، امن وبھائی چارے کے قیام اور الفت ومحبت کے فروغ کے لئے اپنی
صلاحیتیں صرف کر نی چاہئیں ، دعاؤں اور توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا
چاہیے، بعید نہیں ہے کہ اﷲ تعالی قوم اور امت کے حق میں کوئی بہتر فیصلہ
فرمادے ،اس لئے کہ پاکستان بہر حال امت کی امیدوں کا مرکز اور مسلمانوں کا
گھر ہے ، جسے متحد، خوش حال ،روبہ ترقی اورقائم ودائم رہنا چاہیے ،اور اس
کے لئے ہمارا اجتماعی اور انفرادی کردار بڑی اہمیت رکھتا ہے، سوا ٓج اگر
افغانستان کے طالبان قطر میں دفتر کھول سکتے ہیں ،افغان حکومت اور امریکہ
ان سے مذاکرات پر آمادہ ہیں،تو ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم آج بھی تونس،
لیبیا، یمن، عراق،مصر،شام اورلبنان کے دگرگوں حالات سے کوئی سبق نہیں
سیکھتے؟اور بزبانِ چودھری نثارجلتی پر تیل چھڑک کر طالبان اور بلوچستان کے
لڑاکا عناصر کو للکار رہے ہیں،کیا ہم اتنے بد نصیب ہیں کہ ہمیں کوئی عقل
مندآدمی کہیں بھی میسر نہیں ؟ |