آج کا معاشرہ دن بدن بگڑتا جا
رہا ہے نا خواندہ اور نا سجمھ لوگ تو ہے ہی اسے کی وجہ مگر یہاں تو حال یہ
ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ بھی کسی زیا دہ حد تک اسکی وجہ ہیں بانسبت
ناخواندہ اور ناسمجھ لوگوں کے آج کل کے پڑھے لکھے لوگ خالی اس چکر میں لگے
ہوتے ہیں کہ وہ اچھا کمائے ، اچھا پہنے، اچھا کھائے، اچھا دکھے اور آپس میں
ایک دوسرے سے بر تر خو د کو ظاہر کریں ۔ ان میں کسی قسم کی کوئی سماجی
احساسات نہیں ہوتے ہر بات میں جھوٹ ،پلاننگ ، خود گرزی،خود مختاری اور دوکا
سا نمایا ں نظر آتا ہے۔کچھ لوگ خو د کو دوسروں کے سامنے بہت زیا دہ مظبوط
ظاہر کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنا کام نکلوانے کے لئے فقیروں والی شکل اور
حرکت اپنا لیتے ہیں۔اور جو مظبو ط خود کو ظاہر کراتے ہیں ان کا بھی اصل میں
یہ حال ہوتا ہے کہ انکے پاس دو ٹکے کا کچھ بھی نہیں ہوتا بس آس پا س کے
لوگوں کے سامنے خود کو بہت بڑا ظاہر کراتا ہے۔ تو یہ سب لوگ پتہ نہیں کس
چیز کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔ اپنے آس پاس کے ماحول کو اپنے
جھوٹے ظاہری شکل اور شخصیت سے وقتی طور پر تو یہ اپنے مقام کے لئے تو بہتر
بنا لیتے ہیں پر یہ جھوٹی شکل اور شخصیت سے کب تک ماحول کو اپنے لئے بہتر
بنا رکھ سکتے ہیں شاید ان کو اس چیز کا پتہ نہیں اور اگر ہے بھی تو اس سے
انکو کیا فرق پڑتا ہے۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے بےغیرتی اور بے حیائی کا یہ
عالم ہوتا ہے کہ یہ لوگ پھر بھی بعض نہیں آتے اور اپنے کام میں کسی نہ کسی
طر ح مشغول رہتے ہیں۔ اس سے ماحول اور معاشرے میں بگاڑ پید ا ہو جا تا ہے
اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے نفرت اور حسد پیدا ہوجاتی ہے اور غیبت کو
فروغ ملتا ہے ۔ان سب باتوں کے علاوہ آج کے ماحول اور معاشرے میں فحاشی بہت
زیادہ تیزی سے بڑھتی ہوئی نمایا ں نظر آرہی ہے پر آج کل کے لوگ اسی میں ہی
خوش نظر آرہے ہیں۔ لیکن اس فحاشی کے اثرات کے کیا نقصانات رونما ہوسکتے ہیں
ان سے یہ واقف نہیں ہیں یا واقف ہو نا نہیں چاہتے، کیوں کہ آج کے لوگ اسی
فحاشی ماحول کوایک سوشل اور پروفیشنل ماحول سمجھتے ہیں۔اسی حوالے سے ایک
چھوٹی بچی کا واقعہ بیان کرونگا ، شاید آپ لوگوں کو میری سوچ کچھ فضول سے
لگے پر اگر اس بچی کے رویے پر اگر غور کرینگے تو کہی نہ کہی اس کی بات تمیز
کے دائرے سے باہر ہے۔
میں کل رات کو عشاء کی اذان ہونے کا وقت تھا کوچنگ سینٹرسے آرہا تھا کہ میں
اپنے محلے میں گھر سے تقریبا ً گنتی کے پندرہ بیس قدموں کے فاصلے پر تھا کہ
اچانک سے مجھے ایسے لگا کہ کو ئی چھوٹا بچہ/ بچی میرے پچھے بھاگا/بھاگی
آرہا /آرہی ہے ۔ جب میں نے پیچھے دیکھا پہلے بائیں ، بائیں سے مجھے کچھ نظر
نہیں آیا تو جب میں نے دائیں جانب مڑ کر دیکھا تو ایک چھوٹی بچی تھی جو
شاید پیچھے اپنے کسی پڑوسی کے گھر سے نکل کر اپنے گھر جا رہی تھی ، مجھے
ایسے لگا کہ رات کا ٹائم ہے اور گلی میں بھی کوئی نہیں ہے شاید بچی کئی
اندھیرے سے ڈر کر میرے پیچھے پیچھے آکر اپنے گھر جانا چاہتی ہے۔ اس وجہ سے
میں نے اُسے مڑ کر دیکھا اور ویسے بھی جب بھی کو ئی مجھے چھوٹا بچہ یا بچی
راستے میں دکھتی ہے اور جب میں بچوں کے پاس سے گزرتا ہو تو ویسے ہی بچوں کے
کان یا گول مٹول گال پیار سے کھیچ لیتا ہوں یا پیار سے مسکرا لیتا ہوں۔ تو
ہوا یوں کہ جب میں نے اسے دیکھا تو اپنے دائیں جانب سے مڑکر تو وہ اپنے گھر
کے دروازے کے قریب تھی اور اچانک سے اس بچی نے آنکھوں میں گھور کر کہا کہ
ـ"آپ کو مجھے دیکھنا ضروری ہے" اورپھر گھر چلی گئی ۔میں نے کچھ ٹھنڈا گرم
سا محسوس کیا اور حیرانی سی ہونے لگی اور اپنے حالت کو سمجھ نہیں پایا اور
ہنس پڑا اور گھر تک منہ پر ایک شرمیلی سے ہلکی ہلکی ہنسی آرہی تھی۔ مجھے
تعجب ہو ا کہ وہ ایک چھوٹی سی بچی جو قد میں میر ے گھٹنوں تک کی ہوگی اور
عمر میں زیاد ہ سے زیادہ چار سوا چار سال کی ہوگی۔ مجھ سے اس بچی اس انداز
میں بات کہی کہ جیسے وہ میر ی ہم عمر تھی اور میں اسے کسی بُری نظر سے
دیکھا رہا تھا یا میں نے اس کے ساتھ کو ئی بد تمیزی کی یا کئی میں اسے اغوا
کرنے والا تھا حالانکہ میں نے تو منہ بنا یا ہی نہیں تھا الفاظ کہنے کیلئے
اور ویسے بھی اگر اندازا لگایا جائے تو اس عمرکے بچوں کو اپنے کھانا کھانے
اور اپنے کھیل کود کے علاوہ باقی کسی قسم ہیرا پھیری میں کسی قسم کی کوئی
دلچسپی نہیں ہوتی ہا ں لیکن یہ بات ضرور ہے کہ بچوں پر ماحول کے اثرات کو
بہت جلدآمادہ ہو جاتے ہیں۔ تو اس بچی کے اس حیرت انگیز انداز سے یہی انداز
ا لگایا جاسکتا ہے کہ اس بچی کے گھر کا ماحول ہی کچھ اسی اند از کا ہوگا ،
میرے کہنے کا مطلب یہ بلکل نہیں ہے کہ اس بچی کے گھروالے اپنے بچوں کو غلط
پٹیا ں پڑا رہے ہیں۔ لیکن یہ ضرور کہونگا کہ آج کا دور میں ٹی وی جیسی فحش
الیکٹرونک مشین ہر گھر میں موجود ہے اور خود میرے گھر میں بھی(بڑوں کی
استعمال کے نتیجہ میں)، تو میں اس بات کو کچھ اس انداز میں بیان کرونگا کہ
ٹی وی میں آج کل مسلسل بہت زیادہ فحاشی پھیلائی جارہی ہے اور لوگ بھی اسی
فحاشی میں خوش ہیں اور لطف اندوز ہورے ہیں۔ اور ہمارے کیبل آپریٹر وں نے تو
غیر ملکی چینلز یعنی انڈین اور انگریزی چینلز چلارہے ہیں اور اگر نہ بھی
چلائے تو ہمارے پاکستانی میڈیاا ور چینلز نے بھی اتنی ترقی کر لی ہے کہ ان
دونوں کا ریکارڈ توڑ دیا بحثیت مسلمان ہو کر انکے اخلا ق ، انکے رہن سہن
اور انکے خبر سنانے کا انداز سب میں ایک سے ایک بڑ ھ کر فحاشی آپکو نظر
آئیگی اگر آپ غور کریں اپنے آپکو مذہب اسلام کے دائرے میں رکھیں اور پھر
اپنے پاکستانی میڈیا اور چینلز اور غیر ملکی چینلز کا بغور جائزہ لیں ۔ اور
پھر جناب آگے سے ہمارے میڈیا والے کہتے کہ ہم پاکستان کو روشن پاکستان بنا
رہے ہیں، انہی نے تو پاکستان کے نوجوانوں کو بگاڑ دیا ہے سب کو نفسیاتی
مریض بنا دیا ہے اور اب تو بچے بھی اسی مر ض کا شکار ہو رہے ہیں۔ ٹھیک ہے
میڈیا ہمیں خبر دیتی ہے دنیا بھر کی اپنے ملک کی لیکن باقی کے عجیب و غریب
ڈرامے یا مورننگ شوز یا دیگر شوز وغیرہ میں بھی انکو پاکستان کے عوام کے
لئے کچھ تھو ڑا بہت اصلاحی سبق ہوتا ہے لیکن اس میں اصلاحی سبق کم اور
فحاشی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پوچھو ہی نہیں۔ تو ا س بچی کے بات مجھے بری تو
نہیں لگی ایک لحاظ سے تو ٹھیک تھی اگر وہ میری ہم عمر ہوتی اور میں کسی بری
نظر سے دیکھ رہا تھا تو اسے یہ بات کہنا اسکے عزت کے لئے دفا ع جیسا تھا۔
لیکن یہی بات مجھے آج کے نوجوان نسل لڑکا ، لڑکی میں نہیں نظر آتی ۔ میں
ایک بارپھر میڈیا کی طرف آونگا کہ ان لوگوں نے عورت کی عزت کو خاک میں ملا
دیا ہے کہ جو عورت گھر کی زینت ہو ا کرتی تھی یا سمجھی جاتی تھی آج وہی
عورت بازار یامیڈیا کے ہاتھ کے کٹھ پتلی ہے اور وہ عورت بھی اسی میں خوش
نظر آتی ہے اور ایسی ماحول کو بنانے والے ہم بھی ہیں اور میڈیا بھی ہے اور
اسی ما حول کو ہمارے آج کے لوگ پروفیشنل اور تعلیم یافتہ عہدیدار کاماحول
کہتے ہیں ۔ اب میری اس با ت کا یہ مطلب بلکل نہیں کے عورت تعلیم حاصل نہ
کرے یا ملازمت نہ کرے ، بلکہ تعلیم بھی حاصل کرے اپنے آپکو پردے میں رکھ
اور ملازمت کی جہاں تک ضرورت نہ ہو تو نہ کرے اگر ایسا کوئی برا حال بن
جائے کے گھر میں کوئی کمانے والا مرد نہ ہوتو پھر مجبور اً ملازمت کرے لیکن
اپنے آپکو اپنے اخلاق کو اپنے چلنے پھر نے کو اور اپنے اٹھنے بھیٹنے کو
اسلامی طرز اندازسے بنائے تاکہ معاشرے میں کسی قسم کی گندگی نہ پھیل سکے
اور دوسرے لوگ بھی اس عورت کو عزت کی نگا ہ سے دیکھے گے ۔ اب میں تعلیم کے
بارے میں ایک حدیث "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہےـ"یہ حدیث
اپنی جگہ پر صحیح ہے ، لیکن اس علم کا کیا فائدہ جو بندے کو اپنے رب سے جد
ا کردے اس کے اعمال کو بگاڑ دے اور اسکے اعمال کو شریعت کے خلاف کردے ایسا
علم علم نہیں کہلاتا بلکہ جہالت ہے ، علم تو وہ جو بندے کواپنے رب سے ملادے
اور بندے اور رب کے بھیچ ایک راستہ قائم کردے۔ میں نے حدیث کی جو اپنے
الفاظ میں جو وضاحت کی اسکا یہ مطلب بلکل نہیں کہ انسان دنیاو ی تعلیم حاصل
نہ کرے،بلکہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کیونکہ
دنیاوی تعلیم اس جدید دور کی ضرورت ہے آج اگر کوئی عالم ہے یا مفتی ہے تو
اسے کوئی آفیشل ذمہ داری نہیں سونپتا یا دوسرے الفاظ میں اسکے عالم اور
مفتی ہونے کا آفس والوں کو کوئی فائدہ نہیں سوائے اسلامی مسائل کے۔اور اپنی
قوم اور ملک کی ترقی اور دیگر فلاحی کام میں ترقی اسی دنیاوی تعلیم کے
ذریعے کی جا رہی ہے۔پر اسکے ساتھ ساتھ ہمیں دینی تعلیم میں بھی پیچھے نہیں
چھوڑنا چاہئے کیونکہ دین اسلام کی تعلیما ت کو دنیا کی تمام تعلیما ت پر بر
تری حاصل ہے اور دین اسلام کی تعلیمات ہمیں زندگی گزارنے کا صحیح راستہ
بتاتی ہے۔
آخر میں ، میں اپنے سب مسلمان بھائیوں سے درخواست کرونگا کہ خدا را اپنے ہر
ایک عمل کو سنت نبوی ﷺ اور دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق بنائے اور اپنے
گھر وں میں اسلامی تعلیمات پر زور دیں اور جہاں تک ہوسکے ٹی وی اور انٹرنیٹ
اوردیگر اسی فحش الیکٹرونک مشینوں کا استعمال کم سے کم کیا جائے خالی ضرورت
اور دنیا بھر کی خبروں سے اپنے آپکو آگاہ کرنے کے لئے استعمال کرے ۔ کیونکہ
اس سے ہمارا دنیا کا کام بھی نہیں رکے گااور ہم بھی بد نظری اور اپنے گھر ،
گلی، محلے اور علاقے کے ماحول میں فحاشی کے پھیلنے سے بچا سکتے ہیں۔ ﷲ ہم
سب کو اپنے ہدایت کاراستہ دیکھائے اور ہمیں اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
اور حرام کاموں سے محفوظ فرمائے۔ (آمین) |