شیخ ولی خان المظفر کا کام

بقلم:عزیز الرحمن عظیمی(سوات آپریشن کے موقع پر لکھاگیا)

ہم بھی کیا سخت جان اور آفات آشنالوگ ہیں ،ہر گذرتے دن کے ساتھ ہماری مشکلات ومسائل میں اضاٖفہ ہورہاہے، آئے روز نئے نئے المیے رونما ہوتے ہیں ، ہر اگلا المیہ پچھلے کو سنگینی اور ہمہ جہتی میں مات دے کر بھلاہی دیتاہے ،دہشتگردی کے مختلف واقعات اور بیرونی مداخلت وجارحیت کی تشویش ناک صورت حال سوہان ِروح بنی ہوئی تھی کہ اوپر سے سوات آپریشن شروع ہوا ،اس میں فریقین کے علاوہ کتنے ہی معصوم لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا، یہ تو رہا ایک طرف بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں اس کو تو کردیاگیا ایک طرف، ادھر لاکھوں وہ لوگ جو نہ تو عالمی حالات کی نزاکت کا ادراک رکھتے ہیں، نہ انہیں اپنے آج اور کل کے بارے میں معلوم ہے نہ ہی وہ کسی کے ساتھ یا کسی کے مخالف ہیں ، وہ ایسے خانماں بر باد او ر بے گھر وبے آسرا ہوگئے ،جان وآبرو کے حوالے سے سخت خطرات محسوس کر نے لگے کہ پوری قوم کو اب انہی کا غم کھا ئے جا رہا ہے، اب جو ما رے گئے وہ مجرم تھے ،یا بے گناہ، مطلوب یا مظلوم، کتنے تھے اور کیسے ما رے گئے، ان لاحاصل بحثوں میں پڑنے کا کسی کے پاس وقت نہیں ہے ،کہ وہ اب ان تبصروں و تجزیوں سے بے نیا زہیں، اب بات ان کی ہو رہی ہے ،جو مبتلائے مسائل ہیں،سوچنے والے ایک طبقے کا خیال ہے اور بجاہی ہے کہ پختون قوم جن کے وجود کا اسلام کے بغیر تصور بھی نہیں ہو سکتا ،نیز اسلام میں مطلوب محمود صفات ،غیرت وحمیت ،شرم وحیا ،سخاوت ومہمان نوازی ،جرأت وبہادری ،تصلب وہمت وغیرہ جن میں نہ صرف پیدائشی طور پر پائی جا تی ہیں ،بلکہ اِن کا تحفظ وبقا اُن کے لئے زندگی اورموت جیسی اہمیت کاحامل مسئلہ ہے ،اس قوم کو بے گھر وبے وطن کر نے کا جو سب سے بھیانک پہلو ہے ،وہ یہی ہے کہ ان کی خودی کو متاثر کیا جا رہا ہے اور جس قوم کو اپنے علاقے کی خوبصورتی،اپنی ثقافت ومعاشرت کی انفرادیت ،زبان کی حلاوت ،قدکاٹھ کے تناسب اور جمالیاتی ذوق پر ناز تھا انہیں کھلے میدان اورتپتے صحرا میں لاکر اقوامِ عالم کے سامنے بے آبرو کر دیا ، دست نگر بنا دیا گیا کہ اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،خدا جا نے مزید وہ اپنی خودی کی کتنی قیمت ادا کریں گے ،درد ِدل رکھنے وا لے اہلیانِ وطن کی نظریں اسی لیے اب صر ف متاثرین پر مر کو ز ہیں ،بہت سارے اصحاب وسعت واستطاعت بڑھ چڑھ کر اس حوالے سے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں اگر چہ وہ سب ملاکر بھی مطلوب خدمت کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ،مگر بہر حال ’’ما لا یُدرک کلہ لا یُترک کلہ‘‘ (جہاں پورا مقصد حاصل نہ کیا جا سکتا ہو ،وہا ں پورے کو چھوڑنا بھی نہیں چا ہیے ۔بلکہ جو کچھ ہو سکتا ہے وہ تو کر ہی لینا چا ہیے )۔

متاثرین میں سے جو بہت تھوڑی تعداد (جو ہزاروں میں ہے ) کراچی آئی شاید اس شہر کی دریا دلی ،خوشحالی اور غریب پروری کے با رے میں سن سن کر ان کی آلام پُرسی اور خبر گیری کے لیے کراچی کاایک ہر دلعزیز فرزند شیخ ولی خان المظفر اٹھے ،شیخ کا اصل میدا ن علم وادب ہے اور اس میں انہوں نے ملک وبیرون ملک میں اپنا لو ہا جما دیا ہے ،مگر تعلیمی اور تبلیغی سر گر میوں کے سا تھ وہ ہمیشہ قوم وملت بلکہ پوری انسانیت کے لیے فکر مند رہے ہیں اور اس حوالے سے مختلف میدانوں میں کا م کر نے والوں کو رہنما خطوط دینے اور بلا تفریق خدمتِ انسا نیت کی طرف توجہ دلانے کا کا م تو وہ پہلے بھی کر تے رہے مگر وہ جو شیخ کی فطرت اور مخصوص طبیعت ہے اپنے کا ز کے لیے جنون اختیار کر نے کی وہ اب تک تعلیم وتعلم کے سلسلے سے متعلق تھی ،اب جب سے سوات کا آپریشن شروع ہو ا ہے اورغم والم کی لرزہ خیزکہانیاں گردش کررہی ہیں،خود شیخ کے کلاس فیلوز اورقریبی دوست اسکی لپیٹ میں آگئے ،کانجو ایف سی کے خطیبِ اعلی مولانانعیم اﷲ بے گھرہوگئے ،مولاناسمیع الحق سواتی کی اھلیہ بچوں سمیت نشانہ بنیں اوردیگربہت کچھ توشیخ سے رہانہیں گیااوراﷲ کانام لے کرانہوں نے کچھ کرنے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردی ،اُن کی توجہ متاثرین کے حوالے سے ان کی خدمت پر مر کو زہوگئی ، ان کے جنون نے اب یہ رخ اختیار کر لیا ہے ۔مولانا محمود علی شیخ الحدیث جامعہ عائشہ (جوبلی)،مولانا ساجد اﷲ کے سا تھ ایک دو رکنی مشاورت کے بعد مو لانا عبید اﷲ کی مصطفی مسجد میں اﷲ کا نا م لے کر حقیقی معنوں میں اﷲ کے آسرے بیٹھنے وا لے اس قلندرکی طر ف اﷲ نے متا ثرین اور مؤثِرین دونوں کا تا نتا بند ھ جا نے کی ایسی صورت بنا دی کہ وہ خود بھی انگشت بدنداں رہ گئے ،اب تک ان کے پاس 3200سے زائد فیملیاں رجسٹرڈ ہو چکی ہیں ،جن کو شیخ کی طرف سے گھر ،راشن اور دیگر ضرو ریا ت زندگی کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہے ۔

عجیب با ت یہ ہے کہ ان کے پاس نظم اور ڈسپلن کی کوئی چکا چوند ہے ،نہ پرو فیشنل ٹیم ہے، نہ میڈیا کو ریج، نہ سیکو رٹی کاکروفر، اور نہ ہی کوئی دھکم پیل ،بڑی سادگی سے صبح ہی چند نو جوان آتے ہیں اور آتے ہی کا م میں مگن ہو جا تے ہیں رات گئے تک مختلف الجہات کا م ہو تاہے ۔ اجناس کی وصولی واندراج ،رجسٹریشن ، پیکیجز کی تیا ری ،گھر گھر جا کر تقسیم کر نا ،مختلف وبائی ،متعدی اورلاعلاج امراض کے فری میڈیکل کیمپز لگا نا ،اسپتالوں میں لیجا کر مریضوں کا علاج کر انا ،آنے وا لوں کے لیے قیام وطعام ،بچوں کی تعلیم کا بندو بست ،بعض ضرورت مندوں کی واپسی کا انتظام ،بعض کی شادی بیاہ کا بندوبست ،ان تمام حوالوں سے کا م ہو رہا ہے، اﷲ کا شکر ہے کہ امت کی غالب اکثریت نے ہمیشہ ماؤف دلوں ،مجروح دماغوں اور مایوس ذہنیتوں میں امید کے دیے جلا ئے ہیں ،متاثرین کے حوالے سے حضرت شیخ کو بھی اس شہر نے ما یو س نہیں کیا ، ان کی توقعات سے کہیں بڑھ کر ان کو اصحاب دل اور اہل ثروت کی طرف سے رسپانس ملا، مختلف اہل علم اور مخیر حضرات کی توجہ مردا ن وصوابی کے کیمپوں میں مو جو د متا ثرین پر ہے اور ظاہر ہے انہیں اس کی ضرورت ہے کہ اہل وطن ان کا دکھ درد با نٹیں ان کی حسب استطاعت مدد کریں اور ان کو اپنا ئیت کا احساس دیں ،مگر کراچی آنے وا لے متا ثرین جن میں بعض تو اپنے رشتہ داروں کے آسرے پر آئے ہیں جب کہ عموماً وہ رشتہ دار خود بھی غریب ہیں اور پھر ایک ایک کے پاس کئی کئی خاندان آئے ہیں، جب کہ دوسرے کچھ لوگ کیمپوں کے نا قابل تصور و تحمل زندگی اور پھر سر کار کی لگی بندھی ریلیف کے اورمختلف این جی اوزکے حیاسوزاورصبرآزماتماشوں کے متعلق سوچ اور سن کر اس امید پر کراچی آئے کہ شاید اس کاروباری شہر میں کوئی رو زگار مل جا ئے اور لاکھوں کی اس آبادی میں سر چھپانے کے لیے کوئی گھر مل جا ئے جہاں ان کی عزت وناموس محفوظ ہو اور وہ کسی کے رحم وکرم پر لمحات زندگی نہ گذاریں ،بلکہ اپنی ضروریات وحوائج کے لئے انہیں کمانے یاقرض لینے کی سہولت میسرہو،ایسے لوگ ہزاروں میں تھے اور اگر شیخ کے دل میں اﷲ تعالی نہ ڈالتے تو معلوم نہیں ان کا کیا بنتا ،متا ثرین کے اس طبقے کے ہر فرد کی ایسی داستانِ درد والم ہے، جسے کمزور دل وا لے سن ہی نہیں سکتے ،ان کا گھر با ر ما ل مویشی اور کاروبار کیسے تباہ ہو ا، پھر انہیں نکلنے میں اور یہاں آنے میں کتنی مشکلات کا سا منا کر نا پڑا ، اس کی تفصیلات 47ٔکی ہجرت کی یا دیں تا زہ کر تی ہیں، ایسے رنجیدہ، دل گرفتہ اور احساس محرومی اور بیگانگی کے ما رے ہو ئے لو گوں کو ٹھکا نہ اور کھانے پینے کا سا ما ن فرا ہم کر نا، کتنا ضرور ی تھا اور حضرت شیخ جیسے بے وسائل آدمی کے لیے کتنا مشکل تھا ،اس کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ،مگر کوئی قدم جب درد مندی اور بے غرضی سے اٹھتا ہے، تو اﷲ تعالی اسے کا میابی سے ہی ہمکنار کر تے ہیں،شیخ کے کا م میں بھی اول سے آخر تک جو قوم کا اعتماد اور انہماک دیکھنے میں آیا، اس پر سب مسرت آمیزحیرت کا اظہار کر رہے ہیں ،پھر شیخ ولی خان المظفر کو قریب سے دیکھ نے وا لے جا نتے ہے، کہ ان کو جب کوئی ٹاسک ملتا ہے ،یا وہ کسی کام کا ارادہ کر تے ہیں، تو پھر بقول خود اُن کے وہ کام اُن پرسوارہوجاتاہے ،اس کے لئے وہ منصوبہ بندی سے نہیں زبر دستی سے کام لیتے ہیں ،ان کی عادت چیلنجز سے نمٹنے میں جان کھپانے کی ہے، نہ کہ جان بنانے کی ،دھیرے دھیرے اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی وہ تحسین کرتے ہیں، مگرخوداپنامعمول مردانہ وار دوڑنے کی ہے ،یہاں بھی ان کا وہ جنون کا م آیا ، توقعات سے کہیں زیادہ کا م ہو ا اور ہو رہا ہے ،ان کا علمائے کرام میں ایک معتبر نام ہے ،شہر کے بہت لوگ اس حوالے سے معلومات حاصل کر نا ،یا متا ثرین کی مدد کر نا چا ہتے ہیں، اگر یہ کام دیکھنے یا اس میں حصہ لینے کی خواہش ہو تو شیخ سے را بطہ کریں اور اپنے اسلامی اور ملکی بھا ئیوں کی مدد کریں، اب اگلا مر حلہ متا ثرین کی بحالی کا ہے، جو نہایت مشکل اور توجہ طلب ہے ا سے پوری قوم مل کر ہی حل کر سکتی ہے ،اس سلسلے میں بھی مولانا کے حلقے میں کافی غور وخوض ہو رہا ہے۔
(نوٹ:یہ2009کی تحریر ہے)
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877832 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More