ہر ادارے علاقے محلے گھر میں ایک
شخص ایسا ہوتا ہے جسے دوسرے سب لوگ اپنے اپنے کاموں اورمقاصد کیلئے استعمال
کررہے ہوتے ہیں یعنی رانجھا سب کا سانجھا۔وہ میرا کام بھی کررہا ہوتا ہے تو
آپ کے کاموں میں بھی مصروف دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے کام تو بہرصورت پورا
کرتا ہی ہے لیکن میرے اور آپ کے اضافی کام اور ذمہ داریاں بھی احسن طریقے
سے نبھاتا ہے اور کچھ ایسی ڈیوٹیاں بھی بخوبی سر انجام دے دیتاہے جو کہ اس
سے متعلقہ بھی نہیں ہوتیں۔ چونکہ اس کی عادت ثانیہ بن چکی ہوتی ہے کہ کسی
کام کو انکار نہیں کرنا۔ اس پر وہ مثال صادق آتی ہے کہ
مکتب عشق کے انداز نرالے دیکھے
اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
اور اگر کسی شدید مجبوری کی وجہ سے وہ کسی کا کام نہ کرسکے تو اس کے تمام
کئے کرائے پر پانی پھیردیا جاتا ہے اس سے ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
شکوے اور شکایات کئے جاتے ہیں حتی کہ برابھلا بھی کہا جاتا ہے یعنی الٹا
چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف اپنے عیب ڈھونڈنے کی بجائے اپنی ڈیوٹی
سرانجام دینے کی بجائے وہ ساراملبہ اس کے سر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے
حالانکہ وہ اس کام کے کرنے کا پابند بھی نہیں ہوتا۔مقصد یہ کہ اپنا کام خود
تو کرنانہیں صرف دوسروں پر تکیہ ہوتا ہے دوسروں پر ذمہ داری ڈال کر اپنے آ
پ کو بری الذمہ کرلیا جاتا ہے یہانتک کہ اس کی پوچھ پڑتال بھی گوارا نہیں
کی جاتی اوپر سے لکیر نیچے تک تمام لوگ اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کرتے
نظر آتے ہیں۔
سابقہ گورنمنٹ میں ویسے تو مسائل کے انبار لگے ہوئے تھے ۔عوام پریشانی کے
دلدل میں گردنوں تک دھنسے ہوتے تھے ایسے میں پنجاب کے لوگوں کو شہبازشریف
کی شکل میں وہ وزیراعلی میسر آئے کہ جنہوں نے اپنے خادم اعلی کے ہونے کے
اعلان کا کافی حد تک پاس رکھا اور ملک و قوم کیلئے اپنے آپ کو وقف
کیا۔ڈینگی کی وبا پھیلی تو ملک میں الارمنگ صورت حال تھی ہر دوسرا شخص
خوفزدہ تھا اور ہر پہلا بیمار ہونے والا مریض اپنے آپ کو ڈینگی زدہ سمجھتا
تھا ملک میں شدید افراتفری اور بے چینی کی لہر تھی۔ وزیر اعلی پنجاب نے اس
وبا سے نبردآزما ہونے کا عہد کیا اور وہ کر دکھایا کہ دنیا کو ورطہ حیرت
میں ڈال دیا۔ وہ تمام ممالک بھی حیرت زدہ تھے کہ جنہوں نے ہزاروں کی تعداد
میں اپنے عوام کو ڈینگی کا لقمہ بنتے دیکھا اور ایک لمبے عرصے بعد اس وبا
پر قابوپانے میں کامیاب ہوئے لیکن شہباز شریف اور انکی ٹیم نے ایک سے ڈیڑھ
سال کے قلیل عرصہ میں عوام کو اسی موذی وبا سے 95 فیصد تک نجات دلانے میں
کامیابی حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسرے معاملات کو بھی ڈیل کرتے رہے۔
دوسرے ادارے بھی احسن طریقے سے ا ن کے زیر سرپرستی کام کرتے رہے۔ان تمام
کاوشوں کے دوران ان پر طرح طرح کے آوازے کسے گئے مذاق اڑایا گیا۔حتی کہ
تضحیک آمیز بیانات اور رویوں سے نوازا گیا
گورنمنٹ ختم ہوئی نگران سیٹ اپ چارج سنبھالا بجلی کا بحران شدید ترین
ہوگیا۔ 22,22 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے زندگی اجیرن کردی۔ اسی دوران خسرہ کی
وبا نے سر اٹھایا اور نگران حکومت اس کے سدباب کیلئے کچھ نہ کرسکی۔ متاثرہ
مریض زندگی کی بازی ہارتے گئے اور ابھی تک بھی یہ سلسلہ متعدد لوگوں کی جان
لے چکا ہے جن میں معصوم بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اب پھر دکھیاری عوام کو
مسیحا کی یاد آئی ۔ شہباز شریف کی ڈینگی کے حوالے سے فائٹ کا تذکرہ ہونے
لگا۔ان کی حکمرانی کا دور نگاہوں میں دوڑنے لگا ۔ اب شہباز شریف کی گورنمنٹ
آچکی۔ حلف اٹھالیا گیا۔ بجٹ بھی پیش ہوگیا۔خسرہ میں مبتلا عوام اور ان کے
اقربا پھر سے ڈینگی کے خلاف سرکردہ اور متحرک وزیراعلی کو پھر سے اسی طرح
متحرک و سرگرم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ کہ خسرہ سے نمنٹے کا بھی کوئی solid
لائحہ عمل تیار کرائیں اور بے بس اور دکھیاری عوام کو اس موذی مرض سے نجات
دلائیں۔لیکن! لیکن! ایک سوال بڑی شدومد کے ساتھ کچوکے لگاتا ہے کہ یہ تمام
اعمال و افعال اور سرگرمیاں کیا صرف ایک ہی شخص کے ذمہ ہیں کیا یہ تما م
وزیر مشیر سیکرٹری بیوروکریٹس صحت سے متعلقہ افیسرز اتھارٹیز یا کوئی بھی
دوسرا محکمہ ہو ان کے ملازم سب کے سب نااہل ہیں؟ کیا انہیں اس لئے منتحب یا
مقرر کیا گیا ہے تمام مراعات سے مستفید ہوں مفت کی روٹیاں توڑیں اپنے ذاتی
معاملات سیدھے کریں اور بس؟ لوگ بھوک سے مرتے ہیں مر جائیں۔بیماری کا شکار
ہوتے ہیں تو انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ کاروبار بند ہیں چولہے ٹھنڈے ہیں تعلیم
کا بیڑہ غرق ہے نو ٹینشن ۔بجلی کا بحران ہے بجلی چوری کا سیلاب ہے جو کہ
رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا جس کی وجہ سے پوری قوم ذہنی مریض بن چکی
ہے۔کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں سب ہاتھ جھاڑ کے بیٹھے ہیں۔اگر
وزیراعلی ایکشن لیں تو لیں ہم نے اپنی طرف سے اپنی سوچ سے اپنی خوشی سے
اپنی ڈیوٹی نبھانے کی غرض سے ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے عوام کا
بھلاہو۔
ایسی صورت حال میں وزیراعلی شہباز شریف صاحب !جب سارے کام ہی آپ نے’’رانجھے
کی طرح‘‘ کرنے ہیں یا آپ کے کہنے سے ہونے ہیں تو پھر یہ وزارتیں بانٹنے کا
سلسلہ بھی بند ہونا چاہئے ۔ سابقہ حکومت کی طرح اب کی بار بھی بجائے نااہل
لوگوں کو وزارتیں دینے کے اپنے پاس ہی رکھ چھوڑیں۔ یہ بھی قوم پر آپکا
احسان ہوگا اس سے پروٹوکول کا خرچہ بچے گا۔یہی کروڑوں روپے اللے تللوں پر
خرچ ہونے کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونگے۔تعلیم و صحت کے
پراجیکٹس کی تکمیل پر صرف ہونگے تو ملک بھی ترقی کریگا ۔اور بہت سے مسائل
خودبخود حل ہوجائیں گے۔اورقوم کا ذہنی تناؤ اور جسمانی ریمانڈ کچھ حد تک کم
ہوجائے گا۔ویسے بھی چند ایک کو چھوڑ کرتمام وزرا ڈنگ ٹپاؤ کی پالیسی پر عمل
کرنے والے ہیں۔ |