عرش سے نور چلا اور حرم تک پہنچا
سلسلہ میرے گناہوں کا کرم تک پہنچا
تیری معراج کہ تو جانے کہاں تک پہنچا
میری معراج کی میں تیرے قدم تک پہنچا
حضرت امام عبد الرحمٰن صفوری رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کسی پہاڑی کے پاس سے گزر رہے تھے کہ وہاں آپ کی نظر ایک
عجیب و غریب سفید پتھرپرپڑی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے حریت سے دیکھنے لگے
کہ عین اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا۔”اے
عیسیٰ (علیہ السلام)کیا اس سے زیادہ عجیب ترچیزتم پرظاہرنہ کرو؟“عرض کیاہاں
ضرور۔چنانچہ وہ سفیدپتھرپھٹ گیااور اس میں سے ایک عبادت گزاربزرگ ہاتھ میں
عصالئے حاضر ہوئے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس بزرگ سے پوچھاکہ آپ اس
پتھرمیں کب سے عبادت میں مصروف ہیں؟بزرگ کہنے لگے چارسوبرس سے۔یہ سن کر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی مقدس بارگاہ میں عرض کی،”اے
اللہ!میرایہ گمان ہے کہ اس بندے سے زیادہ عبادت گزار بندہ کوئی دوسرا
نہیں۔“رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:اے عیسیٰ!میرے محبوب خاتم النبیین حضرت
محمدمصطفی ﷺکے اُمّتی کاشعبان (شبِ برات)کی پندرہویں شب میں دو رکعت
نمازپڑھ لینا اس کی چارسو برس کی عبادت سے افضل ہے۔(بحوالہ:روض
الافکار،نزھتہ المجالس،جلد اوّل، ص316،امام عبد الرحمٰن صفوری)
مذکورہ بالاواقعہ سے شعبان المعظم کی پندرہویں شب کی عظمت کا اندازہ
لگاناغالباً مشکل نہیں،جب شعبان کی پندرہویں رات آجائے تو اس رات کو قیام
کرو اور دن میں روزہ رکھو کہ رب تبارک و تعالیٰ غروبِ آفتاب سے آسمانِ
دنیاپرخاص تجلی فرماتاہے کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والاکہ میں اسے بخش دوں،ہے
کوئی روزی مانگنے والاکہ میں اسے روزی عطاکر دوں،ہے کوئی آفات میںمبتلاکہ
میں اسے عافیت دوں،ہے کوئی ایسا جو آج کی رات بخشش طلب کرے تاکہ میں اسے
بخش دوں،حتیٰ کہ یہ منادی (اعلان) طلوعِ فجر تک جاری رہتی ہے۔(ابنِ ماجہ)
پندرہویں شعبان کی شب کو مُردوں کے لئے قبرستان میںجاکر دعاو استغفار
کرنامستحب ہے اور حدیث سے ثابت ہے۔اگر کچھ صدقہ خیرات یا کھانا وغیرہ بھی
پکاکر بخش دیاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔اس شب میں بیدار رہ کرعبادت
کرناخواہ خلوت میں یاجلوت میں افضل ہے ۔پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنامستحب
ہے اور اس کی بہت فضیلت ہے۔آتشبازی مطلقاً خصوصاً اس رات میں بالکل معصیت
ہے۔آتشبازی کے لئے اپنے بچوں کوپیسے دینایاان کے لئے خریدنایاکسی قسم کی
اعانت اس کے متعلق کرنابھی جائزنہیں ہے۔
شبِ برات بہت اہم رات ہے،ہمیں کسی طورپربھی اس رات سے غفلت نہیں
برتناچاہیئے،اس رات خصوصیت کے ساتھ رحمتوں کی بارش چھماچھم برستی ہے ۔اس
مبارک شب میں اللہ تبارک و تعالیٰ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ
لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتاہے۔کتابوں میں لکھاہے کہ : ” قبیلہ بنی کلب“
قبائلِ عرب میں سب سے زیادہ بکریاں پالتاتھا۔“کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جن
پراس شبِ برات یعنی چھٹکارا پانے کی رات بھی نہ بخشے جانے کی وعیدہے۔حضرت
سیدناامام بیہقی شافعی علیہ رحمة ” فضائل الاوقات“ میں نقل کرتے ہیں :رسولِ
اکرم ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے،چھ آدمیوں کی اس رات بھی بخشش نہیں ہوگی۔جن
میں شراب کا عادی،ماں باپ کا نافرمان،زِنا کا عادی،قطعِ تعلق کرنے
والا،تصویر بنانے والا اور چغل خوری کرنے والا۔(فضائل الاوقات،ج۱، ص130)
اسی طرح کاہن، جادوگر،تکبر کے ساتھ پاجامہ یا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکانے
والے اور کسی مسلمان سے بغض وکینہ رکھنے والے پربھی اس رات مغفرت کی سعادت
سے محرومی کی وعید ہے،چنانچہ تمام مسلمانوں کو چاہیئے کہ متذکرہ گناہوں میں
سے اگرمعاذ اللہ کسی گناہ میں ملوث ہوں تو وہ بالخصوص اس گناہ سے اور
بالعموم ہرگناہ سے شب برات کے آنے سے پہلے بلکہ آج اور ابھی سچی توبہ کرلیں
اور اگر بندوں کی حق تلفیاں کی ہیں توتوبہ کے ساتھ ساتھ ان کی معافی تلافی
کی کوشش فرما لیں۔(حدیث 28، مکتبة المنارة، مکة المکرمة)
شبِ برات میں اعمال نامے تبدیل ہوتے ہیں۔لہٰذا ممکن ہو تو چودہ شعبان
المعظم کو بھی روزہ رکھ لیا جائے تاکہ اعمال نامے کے آخری دن میں بھی روزہ
ہو۔چودہ شعبان کوبعد نماز عصر باجماعت پڑھ کر نفلی اعتکاف کرلیاجائے اور
نماز مغرب کے انتظار کی نیت سے مسجد ہی میںٹھہرا جائے تاکہ اعمالنامہ تبدیل
ہونے کے آخری لمحات میں مسجد کی حاضری،اعتکاف اور انتظار نماز وغیرہ کاثواب
لکھا جائے بلکہ زہے نصیب!ساری رات عبادت میں گزاری جائے۔
اس رات کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس رات کو برے اہم اہم
فیصلے فرماتے ہیں،وہ اہم فیصلے اس طرح سے فرماتے ہیں کہ جو کچھ اس دنیا کے
اندر ہوناتھا اور ہرانسان کے ساتھ ہوناتھا اللہ پاک نے وہ سب انسانوں کو
پیداکرنے سے پہلے بلکہ اس دنیا کوپیداکرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لوحِ
محفوظ میں لکھ دیاتھاکہ دنیا بنے گی اس میں اتنے انسان ہونگے،اور اتناعرصہ
دنیا میں رہیں گے،فلاں دن،فلاں وقت،فلاں فلاں کام کریں گے،اللہ پاک نے ان
سب کوپوری تفصیل اور پوری کیفیت لوحِ محفوظ میں تحریر فرما دی،اسے شریعت کی
اصطلاح میں”تقدیر “بھی کہتے ہیں۔اس رات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک بہت
بڑی رحمت رکھی ہے کہ اس رات میں دعائیں قبول ہوتی ہیں،یوں تواللہ تعالیٰ
ہررات ،رات کے تہائی حصہ میں اپنے بندوں کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں اس
وقت جوبندہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرہو کرعرض و مناجات کرتاہے اور
دعائیں مانگتاہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی مناجات اور دعائیں قبول فرماتے
ہیں۔کہاجاتاہے کہ چوبیس گھنٹے میں دو وقت ایسے خاص ہیں کہ اگراس وقت کوئی
دل سے دعامانگے تو اللہ رب العزت اس کی دعا ردنہیں فرماتے ایک رات کے آخری
حصہ کی دعا اور ایک فرض نمازوں کے بعد کی جانے والی دعایعنی جب امام سلام
پھیردے اس وقت اگرکوئی دعامانگتاہے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے اس طرح رات کے
تہائی حصہ میںجو دعاکی جاتی ہے وہ بھی اللہ کے ہاں قبول ہوتی ہے،رد نہیں
ہوتی۔
اختتامِ کلام :شعبان کی چودہ تاریخ کوبعد نماز مغرب دو رکعت نماز اس طرح
پڑھے کہ ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے سورہ حشر کی تین آخری آیات ایک ایک مرتبہ
اور سورہ اخلاص تین تین مرتبہ پڑھے۔یہ نماز مغفرتِ گناہ کے لئے بہت افضل
ہے۔یاسو رکعت نفل نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دس دس
بار سورہ اخلاص پڑھے۔اس نماز کو صلاة الخیرکہتے ہیں جوشخص یہ نمازپڑھے گاتو
اللہ رب العزت اس کی طرف ستر دفعہ نگاہِ کرم فرمائے گا اور ہرنگاہ میں اس
کی ستر حاجتیں پوری فرمائے گا۔(غنیہ الطالبین) |