اسلامی کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ ”شعبان المعظم “ہے۔یہ
مہینہ رجب المرجب اور رمضان المبارک کے درمیان واقع ہے۔یوں ان تین اسلامی
مہینوں کے درمیان ایک خاص روحانی ربط پیدا ہو جا تا ہے۔اہل فکر ونظر
کاتجربہ اور مشاہدہ ہے کہ رجب تزکیہ نفس ،شعبان تسویہ قلب اور رمضان
المبارک تصفیہ روح کے لیے نسخہ کیمیا ءہے۔رحمت،برکت،مغفرت اور عظمت کے لحاظ
سے رمضان المبارک کے بعددوسرا مقام شعبان المعظم کا ہے۔حضرت شیخ عبدالقادر
جیلانیؒ کے مطابق لفظ شعبان پانچ بیش بہا نعمتوں کا مخزن ہے یعنی
شرافت،عظمت ، برّ،الفت اور نور،اور یہ نعمتیں انہی خوش قسمت روحوں کو ملتی
ہے جو اس بابرکت مہینہ کا دل وجان سے عزت و احترام کرتے ہیں ۔شعبان المعظم
کی پندرہویں رات کو شب برات کہتے ہیں۔اس رات کے اور بھی بہت سے نام ہیں جن
میں سے چار مشہور و معروف نام یہ ہیں :(۱) لیلة البرات (۲) لیلةالرحمة (۳)
لیلہ مبارکہ (۴) لیلة الصّک۔
آج کل شب برات کے حوالے سے ایسے کئی موبائل میسجزاور فیس بک پوسٹ جو ایک
دوسرے کوصدقہ جاریہ کی نیت سے بھیجے اور شیئر کئے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے
دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔جیسے اس رات فلاں عمل کرنے سے فلاں حکم
مثلانماز کا حکم ساقط ہوجاتا ہے،اس رات اتنی تعداد کی رکعات کے نوافل پڑھنے
سے شہید کا رتبہ مل جاتا ہے،یا مثلا اس رات پورے اہل خانہ کا مل کر عبادت
کرنے سے یہ ثواب ملتاہے،اور اس دن اور رات کو ساتھ قسم کا کھانا پکانا واجب
ہے ورنہ کفران نعمت لازم آئے گا۔(میرے ایک رشتہ دار کے ہاں ہر سال بڑے
اہتمام کے ساتھ اس رات کو ساتھ قسم کے ڈش بنائے جاتے ہیں)،اس دن اتنے
غریبوں کو کھانا کھلانا ضروری ہے۔اس دن پٹاخے پھوڑ کر خوشی کا اظہار
کرنااوا آتش بازی کرنا وغیرہ وغیرہ ۔علاوہ ازیں اس موقع پر آتش بازی کی رسم
وطن عزیز کے علاوہ شایدکسی ملک میں یہ رسم ہو۔یہ رسم ہندوﺅںکی رسم دیوالی
کی نقل اوراس میں مجوسیوں سے بھی مشابہت ہے حالانکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے
”من تشبہ بقوم فہو منہم“ ترجمہ:جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیا رکی وہ انہی
میں سے ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ آتش بازی میں سراسر فضول خرچی،اسراف اور
تبذیر ہے،لاکھوں روپے آگ کی نظر کی جاتی ہے جبکہ اس پیسے کو غرباءاور
مساکین کی فلاح و بہبود پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے،فضول خرچ کے متعلق ارشاد
ربّانی ہے”ان المبذرین کانوا اخوان الشیطین“ ترجمہ :بے شک فضول خرچ شیاطین
کے بھائی ہیں۔۔۔ ۔۔۔۔ اورہوتایہ ہے کہ اکثر لوگوں کواس رات کی فضیلت تو کجا
یہاں تک معلوم نہیں ہوتا کہ شب برا ¿ت اور شب قدر دو الگ الگ راتیں ہیں اسی
لیے پھر وہ شب قدر کی فضیلت کو شب برا ¿ت کی طرف منسوب کرنے کی سعی بے جا
کرتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ لہذا ضروری معلوم ہوا کہ کم ازکم اتنا علم تو ہونا
چاہیے کہ اس رات کی فضیلت کیا ہے۔۔۔؟ اور آپ ﷺ سے اس رات سے متعلق صحیح
رواےات کے مطابق کون سے اعمال ثابت ہیں۔۔۔؟؟اس رات کی تخصیص کی وجہ کیا ہے
؟ کم ازکم اس دن کی قدرو منزلت اور اس دن کے مسنون اعمال کو تو جان لیا
جائے۔ عوام میں سے اکثریت ان باتوں سے لا علم تو ضرور ہوتے ہیں لیکن اس رات
ثواب کی نیت سے بدعات اور من گھڑت رسومات کا اس قدر پابندی سے اہتمام کرتے
ہیںجیسے انہوں نے ان سہ سوالوں کے جوابات پا لئے ہوں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
وہ اپنی کوتاہ بینی اور دین سے لا تعلقی کے بناءپر حقیقت حال سے قطعی طور
پر نا واقف ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسی اہم رات ہے جس میں فرد ،قوم ،ملک اور سلطنت کی تقدیریں لکھ دی
جاتی ہیں کہ اس پندرہ شعبان سے لے کر آئندہ سال آنے والے پندرہ شعبان تک جو
کچھ ہونے والا ہے ،جس جگہ ،جس دن،جس گھڑی اور جس وجہ سے،وہ سب کچھ اور ان
سب کی تفصیلات کا تب تقدیر لوح محفوظ سے ظاہر کر کے فرشتوں کو عمل درآمد کی
غرض سے دے دیتا ہے۔گزشتہ حالات یا تو بدستور رکھے جاتے ہیں یا ان میں کچھ
رد وبدل کی جاتی ہیں ۔اس رات کو آنے والے پندرہ شعبان تک کے موت ، حےات
،رزق اور تقدیر کے متعلق بعض امور لکھ دئے جاتے ہیں۔یعنی اس رات شجر حیات
سے کئی پتے جڑ جاتے ہیں اور کئی کونپلیں پھوٹ جاتی ہیں،کئی چراغ بجھ جاتے
ہیںاور کئی جل اٹھتے ہیں ،کئی گور کھد جاتی ہیں اور کئی گود بھر جاتے ہیں ۔
یہ ایک ایسی اہم رات ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ انسان ،زمین و زماں اور کون
ومکان کی تقدیر کی تدبیر کرتا ہے۔گویا آج قدرت کی کرشمہ سازی ،تاریخ سازی
اور تقدیر سازی کی رات ہے۔
اس رات کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ: ” جب شعبان کا مہینہ آ
جائے تو اپنے نفس کو رمضان المبارک کے لیے پاک کرلو ۔جمہور علما ءمحدثین
اور مفسّرین حضرات سے شعبان کی فضیلت و اہمیت اور اس مبارک مہینہ کی
پندرہویں شب کی قدر و منزلت کے متعلق متعدد روایات منقول ہیں ۔ حضرت عثما ن
ابی العاصؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:”جب شعبان کی
پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ عزّ و جلّ کی جانب سے (ایک پکارنے والا
)پکارتا ہے کیا کوئی مغفرت کا طلب گار ہے کہ میں اس کی مغفرت کردوں؟کیا
کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کردوں؟اس وقت پروردگار عالم سے جو
مانگتا ہے اسے ملتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے“ (بیہقی)۔ ۔۔۔حضرت ابو
ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”جب شعبان کی
پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سوائے مشرک اور کینہ پرور کے سب کی
مغفرت فرما دیتا ہے(مجمع الزوائد)۔ایک اور روایت میں ہے کی اس رات اللہ
تعالیٰ اپنی رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے۔حضرت ابوبکر صدّیق رضی
اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے ا رشا د فرما تے ہیں کہ:اللہ
تعالیٰ نصف شعبا ن کی شب آسمان دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتے ہیں اور اس
شب میں ہر کسی کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے مشرک کے یا ایسے شخص کے کہ جس
کے دل میں بغض ہو۔ اسی طرح حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ :”بلاشبہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا کی طرف
نزول اجلال فرماتے ہیں اور بنو کلب کی بکریوں کے بال کے برابر لوگوں کی
مغفرت فرمادیتے ہیں“ ۔اس رات کی فضیلت کے متعلق ایک روایت حضرت عبداللہ بن
عمرؓ کی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا کہ :”پانچ راتیں ایسی ہیں کہ جن
میں کی جانے والی دعا ردّ نہیں ہوتی یعنی ضرور قبول ہوتی ہے ۔(۱) شب جمعہ
(۲) رجب کی پہلی رات (۳)شعبان کی پندرہویں رات (۴)عیدالفطر کی رات(۵) عید
الاضحی کی رات۔
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒفرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت مبارک ” فیہا یفرق
کل امر حکیم “ میں رب کائنات کا اشارہ شب نیمہ شعبان یعنی شب برات سے ہے۔اس
آیت کا مطلب ہے ”حکمت والے فیصلہ کن اور نافذالعمل ہونے والے اہم امور ،ان
کے اجرار اور تنفیذ کا فیصلہ اسی رات کیا جاتا ہے ۔حضرت عکرمہ سے مروی ہے
کہ ”اس رات میں اللہ تعالیٰ سال بھر کے معاملات کی تدبیر فرماتے ہیں“۔اسی
طرح یہ بھی مروی ہے کہ اس رات تقدیریں لکھی جاتی ہیں ،رزق لکھا جاتا ہے
،موت و حیات کے فیصلے ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لوح محفوظ میں
درج ہوجاتا ہے ۔ مختلف روایات میں یہ بات بیان کی گئی ہیں کہ بے شمار
بدنصیب افراد ایسے ہیں کہ وہ اس با برکت رات کی عظمت و فضیلت اور قدر و
منزلت سے دور اور اللہ تعالیٰ کی بخشش سے محروم رہتے ہیں ۔ان پر اللہ
تعالیٰ کی نظر عنایت نہیں ہوتی ۔ان میں سے بعض بد نصیب افراد یہ
ہے۔۔(۱)مشرک(۲) جادوگر(۳) کاہن اور نجومی(۴) نا جائز بغض اور کینہ رکھنے
والا (۵) جلاد(۶) ظلم سے نا جائز ٹیکس وصول کرنے والا(۷) ماں باپ کا نا
فرمان (۸)جواری ۔
اس مبارک رات میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے
،تجلیات الہی آ سمان دنیا کی طرف متوجہ ہوتی ہیں اور شب کا آغاز رب عزّ و
جل کے اس ندا سے ہوتا ہے کہ ” ہے کوئی طالب رزق کہ اسے عطا کردوں،ہے کوئی
طالب صحت کہ اسے شفا ءعطا کردوں،ہے کوئی جگر لالہ کہ اسے شبنم کی ٹھنڈک
دوں،ہے کوئی طالب مغفرت کہ اسے بخش دوں ۔یہ ندا ءاور یہ صدا بانگ درا کی
طرح صبح صادق تک فضا ءمیں گونجتی رہتی ہے۔اس رات کی ہر آن ہر شان قابل بیان
ہے۔اس رات کو اہتمام کیے بغیر انفراد ی طور پر عبادت کرنی چاہیے اور دن کو
روزہ رکھنا چاہیے ۔حضرت علیؓکاقول ہے کہ شفیع اعظم ﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ
:”جب نصف شعبان کی رات ہو تو شب بے داری کرو اور دن کو روزہ رکھو“۔ایک
روایت کے مطابق آپ ﷺکا اس رات کو قبرستان جانا اور مردوں کے لیے دعا ءمغفر
ت مانگنا بھی ثابت ہے۔یہ رات مانگنے کی رات ہے اس رات اللہ سے خوب گڑ گڑا
کر دعامانگنی چاہیے۔اس رات رنگ برنگے محافل کا انعقاد کرنا ،بجلی چوری
کرنا،چراغاں کرنا ےا پھر عبادت کے نام پر شور و غل کرنا،مخلوط اجتماعات
کرنااور طرح طرح کے کھانے پکانا یہ سب بدعت ہے۔اسی طرح استقبال رمضان کے
نام سے شعبان کی آخری تاریخوں میں روزے رکھنے کی بھی ممانعت بکثرت وارد
ہوئی ہے۔ ہمیں اس مہینہ میں وہ کام کرنے چاہییں جو ہمارے نبی صادق الصدوق ﷺ
نے اپنی زندگی میں کیے اور اپنے صحابہ کرامؓ وکل امت کو تعلیم دے گیے،الغر
ض ہر مسلمان کا فرض منصبی ہے کہ حتی المقدور و حتی الوسع شرک و بدعت سے
اجتناب کرے اورتوحیدو الوہیت اوراتباع سنت کو خوب مضبوطی سے پکڑے تا کہ
نجات اخروی حاصل ہواور جہنم کی دوری ہو اور بہشت کی نزدیکی حاصل ہو۔اور اس
رات خوب دعاوﺅں کا اہتمام کرنا چاہیے اپنے لیے،والدین کے لیے، ملک و وطن کے
لیے اور خاص طور پر شہر کراچی کے لیے اور امن کے لیے اور پوری امت کی مغفرت
کے لیے اور بدعات و سئیات سے بچنے کے لیے رب لم یزل سے خوب دعائیں کرنی
چاہیے۔ |