تحریر: محسن نسیم
فارسی ادب کی انتہائی اہم کتاب عمل صالح جو کہ عہد شاہجہانی اور مغل خاندان
اور ہندوستان کی کئی اہم معلومات سموئے ہوئے ہے اس کتاب کے خالق اور مصنف
ملا محمد صالح کمبوہ لاہور کی ایک معروف سڑک ایمپریس روڈ پر موجود ایک
مقبرے میں مدفون ہیں، اس مقبرے کی تاریخ پر تحریر کرنے سے قبل ہم ایک نظر
ان کی زندگی پر ڈالتے ہیں۔ ملا محمد صالح کمبوہ بادشاہ شاہجہان کے عہد کی
انتہائی عالم فاضل شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں، آج عہد جدید میں بھی ان
کی تحریر کردہ کتب فارسی ادب ہی اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ ملا محمد صالح نے
عمل صالح تحریر کی جو کہ اردو ادب میں شاہ جہان نامہ سے معروف ہے۔ فارسی
ادب کے علاوہ اس کتاب کا ہندوستان کی تاریخ میں بھی اہم مقام ہے۔ اس کتاب
کے فارسی سے کئی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ کتاب میں مغل دربار شاہجہان
کے بچپن سے لیکر ان کی وفات تک کے واقعات قلمبند ہیں۔ محمد صالح کمبوہ اپنے
علم اور لیاقت کے باعث لاہور کے دیوان کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ انہوں نے
موچی دروازے کے اندر ایک بے مثال مسجد تعمیر کروائی جو کہ لاہور میں کاشی
کاری کے حوالے سے وزیر خان مسجد کے بعد دوسری بڑی مسجد مانی جاتی تھی اس
مسجد کی عمارت کا کچھ حصہ آج بھی موچی دروززے کے اندر دیکھاجاسکتا ہے، مسجد
کے دروازے پر تعمیر کے کئی سال بعد بھی یہ شعر کئی سالوں تک دکھائی دیتارہا۔
بانی ای مسجد زیبا نگار
بندہ آل محمد صالح است
ملاصالح ایک بہترین خطاط بھی تھے۔ انہوں نے اپنے عہد کی کچھ عمارتوں پر
خطاطی بھی کی، وفات کے بعد ان کو بھی اسے مقبرے میں دفن کیاگیا جو انہوں نے
شیخ عنایت اﷲ کیلئے تعمیر کروایا تھا، اس مقبرے میں آپ کے کچھ رشتہ داروں
کی قبور بھی ہیں، آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں مورخین مختلف آراء رکھتے
ہیں، نور احمد چشتی نے 1075ھ کنیا لال ہندی نے 1080ھ، سید محمد لطیف نے
1085ھ اور نقوش لاہور میں 1120ھ کے بعد کا عہد لکھا ہے۔
اب ہم مقبرے کا حال بتاتے ہیں یہ عمارت تقسیم سے پہلے گنبد کمبوہاں کے نام
سے جانی جاتی تھی بعض مورخین نے آپ کے مقبرے کو حضرت علی رنگریزؒ کی خانقاہ
کے ساتھ تحریر کیا ہے ،دور حاضر میں یہ دونوں عمارتیں ایمپریس روڈ پرواقع
میں شاہ جہان نامہ کا اردو ترجمہ میں ممتاز لیاقت نے لکھا ہے کہ ملا محمد
صالح اپنی وفات نے کے بعد اپنے آبائی مقبرہ شیخ عنایت اﷲ کے پہلو میں دفن
ہوئے، یہ مقبرہ ایمپریس روڈ ریلوے روڈ کے دفاتر کے ساتھ متصل ہے اور گنبد
کمبوہاں کہلاتا ہے۔ سنگ سرخ کی عمارت ہشت پہلو ہے سکھ دور میں مقبرے کو
شدید نقصان پہنچا، قبریں مسمار کر کے سرخ سنگ مرمر اتارلیاگیا اور بارود
خانے میں بدل دیاگیا، انگریز عہد میں یہ کوٹھی میں بدل دیاگیا اور سیمور
صاحب کی کوٹھی کہلاتا رہا جس کے گنبد باورچی خانہ اور بگھی خانے کے طور پر
استعمال ہوتے رہے پھر دو اور کمرے بنا کر گرجے کے طور پر استعمال کیاجاتار
ہا اور سینٹ اینڈریو پارش چرچ کہلاتا رہا۔ تاریخ کی دیگر کتب کیساتھ ساتھ
پاکستان ریلوے کی جانب شائع کیے گئے کیلنڈر میں بھی اس مقبرے کی تصویر دی
گئی تو اس کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس کو ریلوے ہیڈ کوارٹر کیساتھ ہی بنایا
گیا ہے۔
ان تمام حوالوں کو پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ عہد حاضر میں اس
مقبرے کی عمارت میں ایک سکول چلایا جارہا ہے اور اس کا انتظام عیسائی
برادری کے پاس ہے، اس مقبرے تک رسائی کیلئے ریلوے سٹیشن سے حاجی کیمپ کی
طرف جائییں تو بائیں طرف چرچ کی عمارت ہے اس تمام احاطے میں تین اونچی شان
والے گنبد دکھائی دیتے ہیں، مغل عہد کی اس عمارت کی مشاہبت انارکلی کے
مقبرے سے ملتی ہے عام بندے کی اس مقبرے تک رسائی نہیں کیونکہ سکول انتظامیہ
نے حال بند کررکھا ہے جبکہ سکول و چرچ انتظامیہ کاکہناہے کہ انہوں نے عدالت
سے یہ فیصلہ لے رکھا ہے کہ ملا محمد صالح کا مقبرہ دلی میں ہے اس مقبرے کا
ان سے کوئی تعلق نہیں اگر اس کی بات مان بھی لی جائے تو تب بھی یہ عمارت
انگریز کی تعمیر کی گئی عمارتوں میں سے نہیں ہے، سکول انتظامیہ نے مقبرے کے
گنبد کے نیچے آفس اور جماعتوں کے کمرے بنائے ہوئے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت اس
بات سے ناواقف ہے کہ ہندوستان کی دو عظیم شخصیات کا جائے مدفن اسی عظیم
گنبد میں ہے، لوگ چرچ سمجھ کر گزر جاتے ہیں، تقسیم کے بعد بھی کسی حکومت نے
یہ کوشش نہیں کی کہ اس تاریخی مقبرے اور ورثے کو عام لوگوں کی رسائی میں
لایا جاسکے اور نہ ہی کبھی محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے کوئی کوشش منظر عام
پر آئی کہ اس مقبرے کو دوبارہ پہلے والی حیثیت میں بحال کیاجائے اور اپنے
ثقافتی ورثے کو گمنامی سے بچایاجائے۔ |