نوشہرہ ومردان میں ۔۔۔امدادوعطا کا بحرِبیکراں

ر واں ماہ کی 21تاریخ کو دن ایک بجے ایئر بلو کی فلائٹ سے مفتی محمد عاصم زکی ،قاری زبیر احمد چترالی اور مولانا عرفان میمن کی معیت میں ہم پشاور کیلئے محو ِپرواز تھے، ایئر پورٹ پر مولوی احمد الرحمن برادرِخورد شیخ عطاءالرحمن مدیر تعلیم جامعہ علو م اسلامیہ بنوری ٹاﺅن اپنے دوستوں کے ساتھ خیرمقدم کیلئے موجود تھے ، وہاں سے علی طول قافلہ مردان سٹی میں فضل حق کالج کے قریب حضرت قاری اسداللہ کے عظیم الشان اور مثالی ادارے جامعہ احیاءالعلوم پہنچے ، کچھ خاطر تواضع اورعصر کی نمازِ سفرانہ سے فراغت کے بعد اب ہم اپنی منزلِ مقصود تحصیل کاٹلنگ (اسکاٹ لینڈ)کے علاقے میں واقع حضرت مولانا امداداللہ استاذ حدیث وناظم جامعہ بنوری ٹاﺅن کے قائم کردہ دانشگاہ جامعہ اسلامیہ بابو زئی کے پرنور وپرسکون فضاﺅں کے رخ پرتھے، یہاں رات بعد از مغرب ایک مسابقہ ومقابلہ تحفیظ القرآن الکریم منعقد تھا، جسمیں ضلع مردان ومضافات کے مختلف مدارس ومکاتب حفظ کے چھوٹے اور معصوم طلبہ شریک تھے، بطور جج صاحبان کے جناب قاری زبیر احمد چترالی اور دبئی سے تشریف لائے ہوئے جناب مولانا قاری لطف الرحمن مسند پر براجمان تھے، شرکائے مسابقہ سے طے شدہ نظام کے مطابق تین تین سوالات کی ذمہ داری جناب قاری ہارون صاحب کے سپرد تھی، پوزیشن حاصل کرنے والے کیا سب ہی طلبہ اس لائق تھے کہ ہر ایک کو علماءومشایخ کے اس عظیم مجمع میں ڈائس پر آکر تلاوت کرنے پر انعام دیا جائے اور داد دی جائے چنانچہ ایسا ہی ہواکہ سب کو انعامات سے نوازا گیا ، اخیر میں احقر کو خطاب کیلئے بلایا گیا ،میں نے اپنے معروضات میں علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعربھی پیش کیا:
تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب
گر ہ کشا ہے رازی نہ صاحب کتاب

رات گئے پروگرام سے فارغ ہوئے ،جامعہ کے شعبہ جات ، تعمیرات اور ماحول کا تفصیلی دورہ ہوا، بہت خوشی اس بات کی ہوئی کہ جامعہ کے درودیوار میں عربی زبان وادب کا غلغلہ ہے، وسعت فکری کے ساتھ ساتھ بالکل دیہات میں جدت کا حامل اور گلوبلائزیشن کے تقاضوں سے ہم آہنگ علمی ،نظریاتی اور صاف ستھرا ماحول ہے، مولانا امداد اللہ صاحب کا پور(ا خیل خانہ) علم ومعرفت کے شناور ودلداہ ہیں ، جامعہ بنوری ٹاﺅن کا مزاج ومذاق بالکل یکدم نمایاں ہیں ،(بابو زئی) کے مشرق میں یعنی پشت پر آسمان سے راز ونیاز کرتے پہاڑ اور مغرب میں سبزے کی شال میں لپٹا ہوا میدانی علاقہ ہے، جو جنگی میکنزم کے حوالے سے انتہائی اسٹرا ٹیجک سمجھا جاتا ہے، شیخ عطاءالرحمن صاحب کے مستجاب الدعوات والد گرامی قدر کی خدمت اقدس میں علماء، خواص اور عوام سب ہی کا تانتا بندھا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ صحت کاملہ کے ساتھ اس شجر سایہ دار کو زندہ وتابندہ رکھے، پٹھانوں کی ضیافت اور مہمان داری دیکھنی ہو تو یہاں کا سفر ضرور کیا جائے، مزاجوں ، مذاقوں ، تبصروں اور تجزیوں کا صحیح توازن دیکھنے کیلئے رحیم اللہ یوسفزئی بطور نمونہ سب کے سامنے ہے، یہاں کے کوہستانی سلسلے میں( کشمیر غار)بھی سیاحوں کیلئے نہایت پرکشش وجاذب ہے ، اس غار کی انتہا تک آج تک کسی کی رسائی شنید کے مطابق نہیںہوئی، جامعہ بنوری ٹاﺅن کی سمر کلاسز کیلئے (تعلیم وتربیت ) نامی کتابوں کا نصاب ونظام یہاں کے اسکولوں اور کالجوں میں بھی باقاعدہ منظور شدہ نافذ العمل ہے، جامعہ اسلامیہ بابو زئی اور بدر ہائی اسکول کی کچھ اس طرح کی کلاسوں کے معاینے کا موقع ملا، مولانا محمد بشیر کی کوششوں اور کاوشوں کو دورے کے علماءومشایخ داد دیئے بغیر نہ رہ سکے، یہاں کے بچوں اور بڑے اسٹوڈنٹس کو عربی ،اردو ، انگریزی اور پشتو چار زبانوں کی تعلیم وتربیت اور تکلم وحوار کی عجیب وغریب تربیت دی جاتی ہے، چنانچہ آپ ان سے کوئی سوال ان چاروں زبانوں میں سے کسی ایک میں کریں اور جواب علی الترتیب چاروں زبانوں میں سماعت فرمائیں، ان جبلی علاقوں کے یہی وہ اسباب و عوامل ہیں جو مولانا امدادا اللہ وشیخ عطاءالرحمن کو اہل کراچی کی بے پناہ محبت وعزت افزائی کے باوجود یہاں کی مستقل سکونت کے بجائے وہاں کھینچ لیجاتی رہتی ہیں ، اس وقت خوشحال خان کا یہ مصر ع دل ودماغ پر بار بار دستک دے رہا ہے۔
د َدھلی تخت ھیرو مہ چہ رایا د کڑم ۔ستادخکلی پختونخوا دَغرو سرونہ
یعنی تخت دھلی بھول جاتا ہوں جب مجھے آ پ کے حسین پختونخوا کے پہاڑوں کی چوٹیا ں یاد آجاتی ہیں، یہیں قریب میں عبدالرحمن با با کا گاﺅں (بھادر کلے) بھی ہے،

جس کے متعلق ان کا کہنا ہے ،
بادشاھان بہ د َدھلی ناست وی پہ تخت ۔ما رحمان لرہ بھادر کلے دھلے دے

شاہان دھلی اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوں گے تو ہوں گے،عبدالرحمن کیلئے تو بھادر کلے دھلی سے کم نہیں ہے، ان علاقوں میں حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی حکومتیں قائم تھیں، یہاں جگہ جگہ( شہیدان با با )کے قبرستان ہیں، یہاں ان مجاہدین کو سروں پر بٹھایا گیا تھا، ان کی تکریم واحترام کی مثالیں یہاں کا متاع گراں ہے ، یہیں مردان شہر کے قریب حکیم الامت مجد دالملت حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے دادا یا پردادا شیخ ومرشد کا مزار( سنگر با با) کے نام سے مشہور ہے، حضرت نفیس شاہ الحسینی رحمتہ اللہ علیہ کی آمد ورفت یہاں برابر رہتی تھی۔

بہر کیف اگلے دن یہاں جامعہ اسلامیہ بابوزئی میں تقریب ختم بخاری شریف کا انعقاد تھا ، علماء وصلحاء، اولیاء، طلبہ ،مشایخ اور عامة المسلمین کا ایک دریا امڈ آیا تھا، شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا محمد زرولی خان صاحب ،شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب کی آمد نے محفل کو وہ رونق بخشی تھی کہ کیا کہنے ، مولانا زرولی خان صاحب کا فصیحانہ ،بلیغانہ اور ادیبانہ اندازِ بیان بڑا مسحور کن تھا ، وہ محدث العصر حضرت بنوری ،مفتی اعظم پاکستان حضرت ٹونکی اورامامِ اھلسنت حضرت مفتی احمد الرحمن رحمھم اللہ کا بڑا والہانہ تذکرہ کررہے تھے ،مولانا حافظ شیر محمد آف پیر بابا ،مولانا عاصم زکی ، شیخ عطاءالرحمن اور راقم الحروف نے بھی اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ لیا تھا، مولانا انعام اللہ ، مولانا شعیب اور مولوی ادریس کی خوشیاں دیدنی تھیں، مفتی سلیم الدین شامزئی کے چارو ں طرف دوستوں اور محبت کرنے والوں کی کہکشاں لگی رہتی تھی، حضرت مفتی صاحب شہید کے تذکرے ہی تذکرے تھے ، حافظ شیر محمد صاحب کے بیان کے ا خیرمیں تو تبلیغی سہ روزوں ، چلوں اور چار ماہ کی تشکیلیں بھی ہوئیں ، شیخ عطاءالرحمن کی عربی لہجے میں پشتوبہت پسند کی گئی، رابعہ کے ایک طالب علم کی عرب لب ولہجے کی تقریر اتنی اچھی لگی کہ وہیں پر عام مجمع سے انعامات کی بارش کی گئی۔

بروز جمعرات 23جون کو صبح لفظ ”امداد “ و ”عطا“ کا معنی مزید ابھر کر سامنے آیا ، جب ان دونوں شخصیات کی کوششوں سے 136جو ڑوں کی شادیاں نوشہرہ سٹی میںہونے جارہی تھیں، اس باغ وبہار تقریب کا نظم ونسق دیکھنے کا تھا، مولانا عطاءالرحمن سابق وفاقی وزیر سیاحت ،ڈاکٹر شیر علی شاہ ، مفتی محمد زرولی خان ،قاری مفتاح اللہ ، مفتی کفایت اللہ ، مولانا حامد الحق حقانی اور دیگر بیسیوں علماءوبزرگوں نے اسٹیج کو رونق بخشی ہوئی تھی، مولانا عطاءالرحمن نے جامعہ بنوری ٹاﺅن اور علامہ بنوری ٹرسٹ ایسوسی ایشن کے اس کردار کے تناظر میں دارالعلوم دیوبند اور جمعیت علماءکا جو حسین نقشہ کھینچا اس پر پورا مجمع انگشت بدنداں تھااور سب ہی کہہ رہے تھے کہ فرزندِ مفتی نے حق ادا کردیا،مولانا امداداللہ صاحب نے کشمیر وہزارہ کے زلزلے ، زیارت زلزلہ ، مالاکنڈ کے آپریشن زدگان اور حالیہ سیلاب زدگان کیلئے جامعہ بنوری ٹاﺅن کے چاروں صوبوں اور مختلف علاقوں میں خدمات کا تفصیلی خاکہ پیش کیا، جس کا میزانیہ کروڑوں میں تھا، انہوں نے کہا کہ ماہ گزشتہ مانسہرہ کے علاقے (بٹل ) میں جامعہ نے 150 جوڑوں کی شادیاں کرائی تھیں اور یہاں 136کا انتظام تھا، ان کاکہنا تھا کہ یہ سلسلہ جامعہ کی طرف سے ملک کے مختلف پسماندہ اور آفت زدہ علاقوں میں برابرچلایا جائے گا،جب دولہوں سے استدعا کی گئی کہ وہ حضرات اپنے اپنے نکاحوں کی وکالت حضرت قاری مفتاح اللہ صاحب کو سپرد کرنے کیلئے ہاتھ اٹھائیں تو شرکائے مجمع سب ہی نے ہاتھ اٹھادئیے ، جس پر مولانا امداد اللہ صاحب نے مولوی حفظ الرحمن صاحب سے مائیک لیتے ہوئے مزاحاًکہا کہ :ہر ایک چاہتا ہے کہ ہو اوج ثریا پہ مقیم۔ پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم

اس اجتماع کے قریب ہی (محبت آباد ) واقع ہے جوکہ حضرت العلامہ محمد یوسف بنوری رحمتہ اللہ علیہ کا جنم علاقہ ہے میں دل ہی دل میں کہہ رہا تھا اپنے آپ سے کہ علامہ بنوری مرحوم کی سخاوت دیکھئے کہ حاتم طائی کی طرح بعد از وصال بھی اپنے علاقے کے لوگوں کو خوشیوں میں ہدایا وتحائف تقسیم فرمارہے ہیں، ہرگز نمیرد ہرکہ دلش زندہ شد بعشق ۔ ثبت است برجریدئہ عالم دوامِ ما۔

اس موقع پرعوامی حلقوں کی طرف سے جامعہ بنوری ٹاون کوزبردست داد دی جارہی تھی ،بالاخیرحکیم عبدالودود صاحب ٹرسٹی جمعیت تعلیم القرآن کے یہاں مدرسے میں مفتی عمیر صاحب نے مہمانوں کیلئے دوپہر کھانے کا انتظام کیا تھا، جس کے بعد اطراف واکناف سے آئے ہوئے حضرات اپنی اپنی منزلوں کی طرف گامزن ہوئے ، ہم مولانا محمد یاسین ، مولانا رزین شاہ اور مولانا محب اللہ صاحب کے ساتھ مولانا سمیع الرحمن کی امارت میں( بشخالی) کیلئے روانہ ہوئے ،جہاں بھادر کلے میں خاندان میں ہمارے چچا جناب مولانا عبدالشکور صاحب ہیں، مولانا محمد یاسین صاحب کے سسر ہیں، سال گزشتہ مولانا کی بلڈنگ کے انہدام کا جو واقعہ پیش آیا تھا اس میں ان کی صاحبزادی اور صاحبزادے علیم اللہ کی شہادت بھی ہوئی تھی، تعزیت کیلئے حاضری دی، وہ بے حد خوش ہوئے ، ہمار ے والد بزرگوار جناب حاجی مظفر خان مرحوم کا بار بار تذکرہ کیااور دعائیں دیں ، ہمارے والد صاحب کے ماموں زاد وپھوپھی زاد بھائی جناب محمد ایوب خان صاحب اور بھانجے مولانا شریف الرحمن اشرف بھی وہیں تھے، مولانا محمد یاسین چغر زئی کی طرح یہ دونوں بھی مولانا عبدالشکور کے داماد ہیں، عصر میں ہم مولانا سمیع الرحمن آف دیر بالا اور حاجی اقرار خان کے ساتھ شمس الاسلام کی رھبری میں جامعہ عربیہ شیر گڑھ آگئے، مولانا محمد قاسم تشریف فرماتھے، جامعہ کے بانی ومہتمم حضرت مولانا حاجی محمد احمد صاحب سابق ایم این اے وامیرجمعیت علماءضلع مردان، نیز ان کے مرحوم صاحبزادے حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کی روح کو ایصال ثواب کیلئے فاتحہ واخلاص پڑھنے کے بعد مولانا قاسم اور مولانا محمد طیب نے پورے ادارے کا دورہ کرایا ، ایک عظیم الشان جامع مسجدزیر تعمیر تھی، جو شاید ملک بھر کی عظیم مساجد میں سے ایک ہوگی، شعبہ جات واداروں کابھی مفصل معائنہ ہوا، دوروز بعد ان کے یہاں ختم بخاری کا پروگرام تھا، جس کیلئے تیاریاں عروج پر تھیں، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کی طرح سینکڑوں طلبہ یہاں شریک دورہ حدیث ہیں ، اس ادارے کا سالانہ بجٹ کروڑوں میں ہے، حکومت سے امداد یا مہتمم کاحکومت میں سرگرم ہونے کے باوجود کسی بھی کرپشن سے حاصل کی گئی رقم کا یہاں داخلہ تو کجا دور دور تک بو بھی نہیں، للھیت اور روحانیت کی یہاں کرنیں پھوٹتی ہیں، عربی زبان کی ترویج واشاعت کیلئے یہاں کوششیں ہورہی ہیں، مولانا محمد قاسم تو ایک نابغہ ءروزگار ہی ہے کئی اساتذہ بھی عربی ادب کے شہسوار ہیں، یہیں پر ہم بیٹھے ہی تھے کہ ضلع مردان کے ایک نوجوان محقق ومدقق علامہ سجاد ابن الحجابی بھاگم بھاگ تشریف لائے، پشاور یونیورسٹی کے لیکچرارجنید اکبر صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے، دونوں جامعہ فاروقیہ کراچی کے معہد میں ہمارے پاس تھے، طالب علمی ہی سے زرخیزی کے آثار دونوں پر نمایاں تھے، وسعت مطالعہ اور حصول علم کیلئے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا ان کا مشغلہ ہے، یہ دونوں حضرات جامعہ اسلامیہ بابوزئی کے روحانیت سے بھرپور فضاﺅں میں بھی ہماری ملاقات اور تقریب میں شرکتکے لئے قدم رنجائی کرچکے تھے، علامہ ابن الحجابی تو علمی حلقوں میں خاصے مشہور ہیں ، مولانا جنید کے علمی وادبی تگ وتاز کیلئے اتنا کافی ہے کہ ڈاکٹر قبلہ ایاز کے معتمد اور پشاور یونیورسٹی میں ان ہی کے ہاتھوں کا کاشت کیا ہوا پودا ہے۔

چنانچہ مغرب کے بعد ہم تینوں مردان تبلیغی مرکز میں شبِ جمعہ میں شریک ہوئے دھیمہ بیان جیسے کانوں ودلوں میں رس گھول رہا ہو، پوری انسانیت ، پوری دنیا اورکل کائنات کی بات چل رہی تھی، بشارتوں پر زور اور مشرف با سلام ہونے کے نئے نئے اور آسان پیکجز پیش ہورہے تھے، سب کو ساتھ لیکر چلنے کی دعوت دی جارہی تھی، مولانا حبیب الحق (شَوے مولئی صاحب )مسﺅل جماعت مردان سے عربی او ر پشتو میں دیر تک گفتگو ہوئی ، حالیہ دنوں چلہ لگانے والے فنکار نعمت سرحدی ، شہنشاہ، گلزار عالم ودیگر بھی ملنے آئے، کسی نے چھ سوفلموں میں کام کیا تھا تو کسی کی چار ہزار کیسٹیں مارکیٹ میں تھیں، اور اب اللہ اللہ کے ذکر میں مگن ایک نئی زندگی کیلئے عازمِ سفرتھے، رات مولانا جنید اورراقم انٹرنیٹ، لیپ ٹاپ اور ایکسٹرنل ہارڈ ڈیسک میں لگے رہے ، فجر کی اذان ہوئی محلے کی مسجد میں باجماعت نماز اداکی اور راستے میںسید احمد شہید رحمتہ اللہ علیہ کے بعض شہید مجاہدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہوئے پشاور کیلئے روانہ ہوئے، امداد وعطا کے کردار ،معنی اوران کی ذوات میں ان اسماءکے اثرات پر غور کرتے کرتے ہم ایئر پورٹ پہنچے اور دن کے9بجے کراچی میں تھے۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816857 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More